"RKC" (space) message & send to 7575

انقلابی یا عیاشی

نئے بجٹ سے پہلے پارلیمنٹیرینز اور دیگر اہم عہدیداران کی تنخواہوں میں ہوشربا اضافے کی خبروں نے پاکستان کو دہلا دیا۔ یہ اضافہ اس وقت کیا جا رہا ہے جب پاکستان پر مقامی بینکوں اور بیرونی قرضوں کا بوجھ اتنا بڑھ گیا ہے کہ صرف سود کی مد میں اگلے سال آٹھ ہزار ارب روپے ادا کرنے ہیں۔ ان بے رحم سیاسی خدائوں کو احساس تک نہیں کہ لوگ کتنی مشکل سے ٹیکس دے کر ان کے اللے تللے برداشت کر رہے ہیں۔
مجھے کبھی لگتا تھا کہ جو لوگ سیاستدان بننا چاہتے ہیں وہ واقعی عام انسان کے لیے دل میں درد رکھتے ہیں۔ خدا نے انہیں بہت کچھ دے رکھا‘ اسی لیے وہ چاہتے ہیں کہ اب عام انسانوں کے دکھوں کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ انہیں کوئی ذاتی غرض اور لالچ نہیں لہٰذا وہ عام لوگوں کی زندگیاں بدلنا چاہتے ہیں۔ یہ احساس میرے اندر کافی عرصے رہا‘ یہاں تک کہ میں نے خود 2002ء میں مشرف دور کے عام انتخابات کے بعد پارلیمنٹ کی رپورٹنگ شروع کر دی۔ اس دوران دھیرے دھیرے میری آنکھوں پر بندھی پٹی کھلنا شروع ہوئی۔ مجھے اندازہ ہوا یہ سماجی خدمت کرنے نہیں آئے بلکہ مزید پیسہ‘ طاقت اور رعب دبدبہ‘ پروٹوکول اور عیاشی کیلئے سیاست کرتے ہیں۔ ان سب کا لوگوں کی فلاح و بہبود سے کچھ لینا دینا نہیں۔ محلے کی گلیوں میں صفائی یا چند اینٹیں لگوانے کا جو کام انہوں نے شروع کرایا تھا وہ محض ایک سرمایہ کاری تھی‘ جو سود سمیت وصول کرنی تھی۔ جو مسجد کو چندہ دیا‘ اپنی جیب سے غریبوں کی مدد کی‘ گلی وغیرہ صاف کرائی وہ سب یہاں تک پہنچنے کے بہانے تھے۔ ایک کروڑ پتی کیوں غریبوں کی گلیاں صاف کرائے گا یا چندہ دیتا پھرے گا؟ اسے کیا پڑی ہے کہ لوگوں کی زندگیاں بھی اس کی طرح آسودہ ہو جائیں؟ اسے عام لوگوں کی شکل میں صرف ووٹ نظر آتے ہیں‘ جن کے کندھوں پر چڑھ کر وہ اسمبلی تک پہنچتا ہے۔
آپ کو کیا لگتا ہے‘ یہ سب جو اپنی جان پر کھیل کر سیاست کر رہے ہیں ان کے اندر ملک اور عوام کا بہت درد ہے؟ ہرگز نہیں! کیا انہیں نہیں پتا کہ اس ملک کا پہلا وزیراعظم قتل ہوا‘ ایک وزیراعظم پھانسی چڑھا دیا گیا‘ ایک کو دہشت گرد قرار دے کر جلاوطن کر دیا گیا‘ ایک اور وزیراعظم حملے میں جان سے گئی اور باقی چار پانچ وزرائے اعظم نے طویل عرصہ قید کاٹی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اس کھیل میں قتل‘ گولیاں یا پھانسی لگتے دیکھ کر بھی لوگ اسے جاری رکھنا چاہتے ہیں؟ کیا بھٹو کو علم نہ تھا کہ لیاقت علی خان ساتھ کیا ہوا‘ یا نواز شریف کو بھٹو کے انجام کا علم نہ تھا یا عمران خان کو پتا نہ تھا کہ بھٹو؍ نواز شریف کیساتھ کیا ہوا؟ جب سب کو اس پیکیج کا علم ہے تو پھر اس وزیراعظم کی کرسی میں ایسی کیا کشش ہے کہ صرف دو‘ تین برس اس پر بیٹھنے کیلئے یہ لوگ گولی کھانے‘ پھانسی چڑھنے‘ جلاوطنی یا طویل قید بھگتنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں؟
ہمارے ہاں ایک نعرہ مقبول ہوا تھا کہ اگر مڈل کلاس سے لیڈرشپ اُبھرے گی تو ملک کو جاگیرداروں اور سرمایہ کار لیڈرشپ سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ ایم کیو ایم اُبھری اور پھر جو ایم کیو ایم نے اپنا رنگ جمایا‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ ایم کیو ایم کی مڈل کلاس خود بھی اَپر کلاس میں شامل ہو گئی۔ پھر نعرہ ابھرا کہ غریب خود جب تک پارلیمنٹ میں نہیں آئے گا کچھ نہیں بدلے گا۔ پھر دینی طبقات کی ایم ایم اے اُبھری اور عام لوگ پارلیمنٹ پہنچے۔ ایک دن مجھے ایم ایم اے کے مرکزی رہنما لیاقت بلوچ نے خود بتایا کہ ہمارے جو غریب ایم این ایز سائیکل پر اسلام آباد آئے تھے‘ وہ پانچ سال بعد لینڈ کروزر پر اپنے گھروں کو واپس گئے۔ یہ سیاست کا نشہ ہے‘ جس نے اس معاشرے میں ایک آگ لگا دی کہ اب ہر بندہ سیاستدان بننا چاہتا ہے۔ وہ خود کو خطرات میں ڈال کر کسی بھی طرح‘ کسی پارٹی کے ساتھ جڑنا چاہتا ہے تاکہ اس کو ٹکٹ ملے اور وہ بھی اُس کلاس میں شامل ہو جائے جو اس ملک کے وسائل پر قابض ہے۔ اگر آپ ان کی مراعات گننا شروع کریں تو راتوں رات چھ گنا بڑھا دی جائے‘ بیرونِ ملک اور اندرونِ ملک سفر کرنے کے لیے مفت بزنس کلاس ٹکٹیں ملیں یا ان کے بدلے کیش ادا کیا جائے‘ ہر ماہ اجلاس ہو یا نہ ہو آپ کو چھ سات لاکھ روپے تنخواہ ملے اور پھر ہر اجلاس میں بیٹھنے کا دس ہزار روزانہ الاؤنس ملے‘ اگر اجلاس جمعہ کو adjourn ہو کر سوموار یا منگل کو دوبارہ شروع ہو تو بھی آپ کو ہفتہ اور اتوار کا بھی الائونس ملے تو کون اپنی جان دائو پر نہیں لگانا چاہے گا؟ ایسی نوکری اور کہاں مل سکتی ہے؟
بات یہیں نہیں رکتی۔ آپ چار پانچ کمیٹیوں کے ممبر بن جاتے ہیں‘ ایک ماہ میں تین چار اجلاس ہوتے ہیں جن کیلئے فری ٹکٹیں یا پٹرول سمیت الائونس الگ سے ملتا ہے۔ اپنا اور خاندان کا علاج فری‘ فیملی ممبران سمیت خصوصی پاسپورٹ‘ جن پر پچاس ممالک میں انٹری بغیر ویزے کے۔ پھر الیکشن کا خرچہ پورا کرنے کیلئے کروڑوں کا ترقیاتی فنڈ ہر سال۔ بقول شاہد خاقان عباسی‘ اس میں ممبران کا کمیشن تیس فیصد تک ہوتا ہے۔ (یقینا سب ممبران کمیشن نہیں لیتے‘ ایماندار ہر جگہ ہوتے ہیں)۔ صوبائی اور قومی اسمبلی کے ممبران کو پچھلے سال پانچ سو ارب سے زائد بجٹ دیا گیا۔ یعنی اپنے ٹھیکیداروں کے ذریعے‘ جنہیں وہ ضلعی انتظامیہ سے کنٹریکٹ لے کر دیتے ہیں‘ ڈیڑھ سو ارب روپے ان پارلیمنٹیرینز کی اپنی جیب میں جاتے ہیں۔ اگر آپ وزیر بن جائیں تو پولیس پروٹوکول کے علاوہ اپنے ضلع میں ڈی سی او‘ ڈی پی او اور پٹواری‘ ایس ایچ او پر مکمل اختیار مل جاتا ہے۔ لہٰذا جیسے کسی دور میں ہر گھرانے کی کوشش ہوتی تھی کہ رشتہ کسی سی ایس ایس یا کپتان کے ساتھ ہو جائے تو زندگی سنور جائے گی‘ اب ہر گھرانا چاہتا ہے ان کا کوئی بچہ کسی سیاسی پارٹی میں ضرور گھس جائے‘ چاہے اس دوران کوئی بھی مصیبت اس پر گزرے۔ بس چند برس کی بات ہے‘ کچھ جیل بھگت لے گا‘ کچھ پولیس کی مار کھا لے گا‘ دن رات لیڈر کی خوشامدیں کرے گا تو جلد ہی پورے خاندان کا مستقبل بن جائے گا۔
جس معاشرے میں لوگ چند ہزار روپوں کیلئے بندہ مار دیتے ہوں‘ وہاں ہر ماہ لاکھوں کی تنخواہ‘ الائونس‘ کروڑوں کا ترقیاتی فنڈ‘ رعب دبدبہ‘ مشہوری‘ لش پش کوئی چھوٹا سودا نہیں۔ سیاست اور عوامی خدمت کے نام پر جو کچھ لوٹ مار کی گئی اس نے عام لوگوں کو بھی مجبور کر دیا کہ وہ سوشل میڈیا کے اس دور میں اپنے بچوں کو اس طرف دھکیلیں۔ جیسے غربت کا تعلق ڈنکی لگا کر یورپ پہنچنے سے نہیں‘ ویسے ہی اب سیاستدان؍ انقلابی بننے کا عوامی خدمت سے کوئی تعلق نہیں۔ گائوں کے نوجوان جب یورپ سے بھیجے گئے یوروز اور پائونڈز سے اپنے گائوں میں برداری کی نئی نئی حویلیاں دیکھتے ہیں تو ان کے بزرگ بھی زمین بیچ کر پچاس لاکھ روپے اکٹھا کر کے ایجنٹس کا ترلا منت کرتے ہیں کہ بس ہمارا بچہ کسی طرح یورپ کے ساحل پر پہنچا دو‘ آگے ہماری قسمت۔ اسی طرح اب سیاست کا عوامی خدمت اور انقلاب سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ سب وہاں پہنچنا چاہتے ہیں جہاں راتوں رات تنخواہ کئی گنا تک بڑھ جاتی ہے۔ تیس فیصد کمیشن گھر بیٹھے مل جاتا ہے۔ ڈی سی او‘ ڈی پی او اور دیگر افسران جیب میں‘ بیرونِ ملک مفت سفر‘ پروٹوکول اور سب سے بڑھ کر شہرت اور پیسہ۔ اس پیکیج کیلئے اگر پولیس کی چند لاٹھیاں‘ آنسو گیس کے شیل گولیاں کھانا پڑیں یا جیل تک جانا پڑے تو کیا سودا برا ہے؟ یہ ایسا نشہ ہے کہ اب تک تین وزرائے اعظم مارے جا چکے۔ یوسف رضا گیلانی‘ شہباز شریف‘ راجہ پرویز اشرف‘ شاہد خاقان عباسی نے طویل سزائیں بھگتیں‘ ایک سابق وزیراعظم تو اب بھی جیل بھگت رہا ہے۔ اس سب سے عبرت پکڑنے کے بجائے سب اس کھیل میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ جہاں ریٹرن بہت زیادہ ہو‘ وہاں لوگ جان کی پروا نہیں کرتے۔ سات نسلیں سنور جاتی ہیں اس جان لیوا کھیل میں۔ جو جیتا وہی سکندر! ورنہ جیل کا سیل یا پھانسی گھاٹ‘ جلاوطنی یا لمبی قید‘ سب کچھ قبول ہے۔ آخر کچھ تو ہے ایسا خاص ہے اس راج نیتی کے نشے میں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں