یہ یقینا حیرانی کی بات ہے کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان کے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے وائٹ ہائوس میں ملاقات کی ہے اور انہیں وہاں بھرپور پروٹوکول دیا گیا ہے۔ اب تک سب شکایتیں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو امریکی کانگرس‘ سینیٹرز یا طاقتور کمیٹیوں سے تھیں جہاں قراردادوں سے لے کر رجیم تبدیلی تک کی کارروائیوں کو رپورٹ کیا گیا تھا‘ مگرشاید ایک ہی ہلّے میں ٹرمپ انتظامیہ نے سب شکایتیں دور کر دی ہیں۔ اگرچہ اسٹیبلشمنٹ اور ریاست کیلئے یہ ملاقات خوش کن ہو‘ تاہم صدر نکسن کے بعد یہ پہلی دفعہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ کسی امریکی صدر نے پاکستان کو اتنی اہمیت دی ہے۔ اگرچہ بہت سارے لوگ جنرل ایوب خان‘ جنرل ضیا یا جنرل پرویز مشرف کا حوالہ دیں گے لیکن ان کا پس منظر کچھ مختلف ہے۔ آرمی چیف عاصم منیر کا فیلڈ مارشل کی وردی میں امریکی صدر سے ملنا ان تینوں سابق آرمی جرنیلوں سے مختلف ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ جنرل ایوب‘ جنرل ضیا اور جنرل مشرف اپنے اپنے ادوار میں سیاسی حکومتوں کا تختہ الٹ کر ملک پر قابض ہوئے تھے اور بعد میں دھاندلی زدہ ریفرنڈم یا ڈنڈے کے زور پر صدر کی سویلین وردی اوڑھ لی تھی۔ اس لیے صدر کینیڈی ہوں‘ صدر ریگن یا صدر بش‘ انہیں پاکستانی جرنیلوں سے ملنے کا بہانہ مل گیا کیونکہ ان تینوں سے امریکی صدور یا وہاں کی فوجی قیادت نے بہت کام لینے تھے۔ صدر ایوب سے صدر کینیڈی کو روس اور چین کے خلاف جاسوسی کیلئے چٹاگانگ اور پشاور کے اڈے درکار تھے لہٰذا انہیں ایئرپورٹ پر بڑا پروٹوکول دیا گیا‘ جس کا ذکر اکثر عمران خان اپنی پُرجوش تقریروں میں بھی کرتے تھے کہ پاکستانیو! دیکھو کبھی ہماری امریکہ میں کتنی عزت تھی۔ دراصل اس عزت کی وجہ جاسوسی کے وہ دو اڈے تھے جو صدر ایوب نے امریکہ کو دے رکھے تھے اور جن کی تفصیل بروس ریڈل نے اپنی کتاب میں بیان کی ہے کہ کیسے سی آئی اے نے صدر کینیڈی کو کہا کہ ایوب خان کو بلائیں اور اسے پروٹوکول دیں اور اڈے لے لیں۔ صدر کینیڈی نے صدر ایوب کو لبھانے کیلئے سب انتظامات کا ذمہ اپنی خوبصورت بیوی جیکولین کو سونپا تھا۔ چونکہ عمران خان کو اس پس منظر کا علم نہیں تھا لہٰذا وہ ہر وقت پاکستانیوں کو گزرے زمانے کی شان وشوکت کی کہانیاں سناتے اور قوم کا لہو گرماتے تھے کہ کبھی ہماری بھی 'عالمی گائوں‘ میں بڑی عزت تھی۔ مگر یہ نہیں بتاتے تھے کہ اس عزت کے پیچھے دو اڈے تھے۔
اس طرح ہم آج جنرل ضیا دور میں پاکستان کی اہمیت کو بہت یاد کرتے ہیں۔ اس وقت ہمیں ایف سولہ جہاز اور تین چار ارب ڈالرز کی فوجی اور معاشی امداد دی گئی تھی مگر بدلے میں افغانستان کی جنگ لڑی گئی تھی۔ اس جنگ کے حوالے سے بھی کئی کہانیاں مشہور ہیں۔ کچھ اسے جہاد تو کچھ فساد سمجھتے رہے‘ جس کے نتائج آج تک ہمارے درمیان موجود ہیں۔ بہرحال جو بھی تھا‘ جنرل ضیا بھی امریکیوں کی مجبوری تھے اور اس کا فائدہ وہ اٹھاتے رہے۔ جنرل پرویز مشرف بھی گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد افغانستان کے مقابل امریکی اتحادی بنے اور یقینا ہمارے پاس اور کوئی آپشن نہ تھا کیونکہ ہم پوری دنیا کے سامنے طالبان کے گاڈ فادر بنے رہے اور اس پر اتراتے تھے۔ اگر اُس وقت ہم امریکہ کے ساتھ کھڑے نہ ہوتے تو شاید ہمارا بھی وہی حشر ہوتا جو کابل کا ہوا تھا۔ اگرچہ پرویز مشرف بھی ڈبل گیم کھیلتے رہے اور امریکہ سے ڈالر لے کر حقانی گروپ کو امریکی فوجوں پر حملوں کیلئے بھی استعمال کرتے رہے۔زیادہ دور کیا جانا‘ ابھی 2022ء تک حکومت اور ریاستِ پاکستان طالبان کیساتھ کھڑی تھی اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کابل کی 'فتح‘ کے دو دن بعد ہوٹل کی لابی میں کھڑے چائے پی کر پوری قوم کو یقین دلا رہے تھے کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ نہ طالبان کا 'سب‘ ٹھیک ہوا اور نہ جنرل فیض کا اپنا 'سب‘ ٹھیک چلا۔ طالبان سے پاکستان کی لڑائی شروع ہو گئی تو اب جنرل فیض حمید کورٹ مارشل کا سامنا کر رہے ہیں اور شنید ہے کہ چودہ برس کی قید کا فیصلہ ہو چکا ہے اور کچھ دنوں میں اعلان ہو جائے گا۔ موجودہ آرمی چیف نے طالبان کے خلاف پہلے دن سے جو مؤقف رکھا وہ اس پر قائم ہیں کہ طالبان سے کوئی بات چیت نہیں ہو گی‘ چاہے اس کی کوئی بھی قیمت ہو۔ لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر فیلڈ مارشل عاصم منیر کے پاس ایسا کیا ہے کہ ٹرمپ جیسا صدر انہیں وائٹ ہائوس میں مدعو کر کے پروٹوکول دے رہا ہے‘ جس پر پورا بھارت اور مودی بہت سیخ پا ہیں۔ اس کی دو تین وجوہات ہو سکتی ہیں۔
پہلی بات تو یہ کہ صدر ٹرمپ اور امریکہ سمیت دنیا کے شاید کسی ملک کے سان گمان میں نہیں ہو گا کہ پاکستان بھارت جیسی فوجی قوت سے نہ صرف ٹکرا جائے گا بلکہ اس کے چھ سات جہاز گرا کر اسے دھول بھی چٹا دے گا۔ لہٰذا بھارت سمیت پوری دنیا اس پر سکتے میں ہے کہ یہ چمتکار کیسے ہوا۔ بھارت کو جو پشیمانی اٹھانا پڑی اس کا کوئی جواب نہیں۔ شاید یہی شکست مودی کے اقتدار کے خاتمے کا سبب بنے۔ ٹرمپ سمیت پوری دنیا نے پاکستان کو بڑے عرصے بعد تعریفی نظروں سے دیکھا ہے‘ جس نے بھارتی غرور کو خاک میں ملا دیا ہے۔ پاکستان کی عزت دنیا بھر میں بڑھی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے ٹرمپ کے کہنے پر نہ صرف فوری سیز فائر کر لیا بلکہ سارا کریڈٹ ہی ٹرمپ کو دے دیا جبکہ بھارت اور مودی اب تک اس سے انکاری ہیں۔ یوں فطری طور پر ٹرمپ کا جھکائو پاکستان کی طرف ہوا۔ میرے خیال میں بہتر حکمت عملی کا یہی تقاضا ہے کہ امریکہ اور ٹرمپ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوں اور بھارت سے دور رہیں۔ شاید صدر نکسن اور اندرا گاندھی دور کے بعد پہلی دفعہ ہو رہا ہے کہ امریکہ اور بھارت میں کچھ دوریاں پیدا ہوئی ہیں‘ جس کا فائدہ یقینا پاکستان کو ہو رہا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ پھر فیلڈ مارشل عاصم منیر نے واشنگٹن میں امریکن پاکستانیوں سے خطاب میں اپنا ٹرمپ کارڈ شو کیا کہ امریکہ یوکرین سے چار‘ پانچ سو ارب ڈالر کے منرلز کے ٹھیکے چاہتا ہے جبکہ پاکستان کے پاس ایک ٹریلین ڈالر کے منرلز موجود ہیں۔ امریکہ ہم سے سرمایہ کاری کے معاہدے کرے۔ امریکہ بھی منافع کمائے اور پاکستان بھی ڈالرز کمائے۔ اسکے علاوہ پاکستان کرپٹو کرنسی میں ٹریڈ اور تعاون کے معاہدے کر رہا ہے۔ امریکہ کو اچانک لگ رہا ہے کہ پاکستان تو امریکہ کو تجارت میں بھی فائدے دے سکتا ہے۔ وار آن ٹیرر کے علاوہ بھی بہت سارے مشترکہ عوامل ہیں اور یہی وہ ماریو پوزو کے ناول ''دی گاڈ فادر‘‘ والی بات ہے کہ میں اپنے مخالف کو وہ پیشکش کروں گا کہ وہ انکار نہ کر سکے۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ یہی وہ پیشکش ہے جو آرمی چیف نے امریکہ کو کی ہے۔
جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو جاتا ہمیں ٹرمپ اور امریکہ کو اپنی طرف رکھنا ہو گا۔ ہماری پشت پر ایک طرف چین تو دوسری طرف امریکہ ہے۔ اس سے پاکستان کے تحفظ اور ترقی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ چین کے پاکستان کے ساتھ جہاں سٹرٹیجک مفادات ہیں وہیں معاشی مفادات بھی ہیں۔ اب تک امریکہ سے ہمارے مفادات دہشت گردی یا علاقائی جغرافیائی نوعیت کے رہے ہیں مگر اب چین کی طرح ہمیں امریکہ سے سرمایہ کاری اور معاشی مفادات بھی درکار ہیں۔ سنا ہے کہ آرمی چیف نے ایران‘ اسرائیل جنگ میں بھی صدر ٹرمپ کو اپنا اِن پٹ دیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بہت تنقید ہو رہی کہ یہ سب کام سیاسی قیادت کو کرنے چاہئیں لیکن کیا کریں! جب سیاسی قیادت اپنی سپیس اور اختیار کو بھول کر عسکری قیادت کو سیلوٹ مار رہی ہو تو پھر گلہ کیسا۔ یہ قانونِ قدرت ہے کہ جو جگہ خالی ہو گی‘ کوئی اور اسے پُر کرے گا۔ آپ کو کوئی اختیار یا طاقت نہیں دیتا‘ سب کچھ لینا پڑتا ہے۔ اگر پاکستانی سیاسی قوتیں اپنا قد کاٹھ بڑا نہیں کر سکیں تو اس میں ان کا اپنا قصور ہے۔ وہ تو سیلوٹ مار کر ہی مطمئن اور خوش ہیں۔