"RKC" (space) message & send to 7575

پاکستانی خوش نہیں ہو سکتے

ہم پاکستانی بھی عجیب قوم ہیں۔ کبھی کبھار جب اپنی حرکتوں پر غور کروں تو خود پر ہنسی آتی ہے کہ ہم کیسے لوگ ہیں اور دنیا سے کیا چاہتے ہیں اور اس سے بڑھ کر ہم خود کو کیا توپ چیز سمجھتے ہیں؟ ہمیں لگتا ہے کہ ہم دنیا کی وہ انوکھی مخلوق ہیں جس کے ناز نخرے اٹھانا پوری دنیا پر فرض ہے۔ مزے کی بات ہے کہ دنیا اگر ہمارے نخرے اٹھائے تو بھی ہم شک میں پڑ جاتے ہیں کہ آخر دنیا ہمیں اتنا اچھا کیوں ڈیل کررہی ہے؟ آخر اسے ہم سے ایسا کیا کام آن پڑا ہے کہ اچانک ہم انہیں اچھے لگنے لگے ہیں‘ اور اگر دنیا ہمیں ٹھڈا مار کر پرے کر دے تو ہمارا رونا دھونا ختم نہیں ہوتا۔ پھر ہم یہ گلہ کرتے ہیں کہ دیکھا ہم نے ان کیلئے فلاں فلاں قربانیاں دیں‘ فلاں مشکلات اٹھائیں اور اب جب ان کا کام نکل گیا تو وہ ہمیں لات مار کر چلے گئے ہیں۔ ٹی وی شوز میں ماتم ہوتا ہے اور پورا ملک انہیں برا بھلا کہہ رہا ہوتا ہے۔لیکن اگر دنیا ہمیں گلے سے لگائے اور عزت یا پیار کے دو بول بولے تو ہم پھر چھلانگ لگا کر اُلٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور رولا ڈال دیتے ہیں کہ خیال کرنا‘ بچ کر رہنا‘ ہم پھر سے پھنسنے والے ہیں۔ اگر کوئی ہمیں عزت دے کر کھانے کی میز پر بٹھا دے تو ہمیں لگتا ہے کہ ہمیں زہر دیا جا رہا ہے۔ فوراً یہ مثالیں سنائیں گے کہ دنیا میں کوئی فری لنچ نہیں ہوتا۔ مطلب اگر کوئی کھانا نہ پوچھے تو بھی وہ برا اور اگر کھانا کھلا دے تو بھی ہم رولا ڈال دیتے ہیں۔ یہ ہمارا کیسا مائنڈ سیٹ اور اپروچ ہے؟ آپ پوچھیں گے کہ میں آج ایسی بہکی بہکی باتیں کیوں کر رہا ہوں۔
یہ ساری باتیں مجھے اس لیے یاد آرہی ہیں کہ امریکی ہمیں اپنے سے دور کر لیں تو ہم انہیں طعنے مار مار کر بے حال کر دیتے ہیں۔ اگر وہ قریب کر لیں تو ہم پھر بھی پہاڑ پر چڑھ کر مرغ کی طرح بانگیں دینا شروع کر دیتے ہیں کہ مارے گئے۔ آخر ہم امریکہ سے کیا چاہتے ہیں؟ ہمارا جواب ہو گا کہ ہم برابری چاہتے ہیں۔ مجھے اکثر محسوس ہوتا ہے کہ ہماری قوم کے اندر ضرورت سے زیادہ ہوا بھر دی گئی ہے اور بھرنے والے ہمارے سیاسی حکمران‘ دانشور‘ صحافی یا کالم نگار ہیں جو ہمیں ایسے بانس پر چڑھا دیتے ہیں کہ اس سے ہم اترنا بھی چاہیں تو نہیں اتر سکتے۔
یہی وجہ ہے کہ سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے پاکستانیوں کے طعنوں سے زچ ہوکر کہا تھا کہ اگر تم نے ہماری جنگ لڑی تو ہم پر احسان کیا تھا؟ اس کے ہر سال ڈیڑھ ارب ڈالرز لیا کرتے تھے اور تمہیں کل 32ارب ڈالرز کی ادائیگی کی گئی تھی۔ جب سے امریکہ نے وہ ڈیڑھ ارب ڈالرز دینا بند کیے ہیں اس کے بعد ہم کبھی چین‘ کبھی سعودی عرب تو کبھی دبئی سے ڈالرز کمرشل ریٹ پر قرض لے کر اپنی درآمدات کا بل دیتے ہیں‘ اور ہر سال ان تین چار ارب ڈالرز کے قرض کو رول اوور کرا کے قوم کو خوشخبریاں سناتے ہیں۔ معذرت کے ساتھ وہ سب دوست ممالک ہمیں کمرشل قرض دیتے ہیں اور اس پر تگڑا سود لیتے ہیں۔ دو تین سال پہلے بجٹ میں سود کی ادائیگی کیلئے جو سالانہ 3200ارب روپے رکھے جاتے تھے‘ اس سال ہم نے اس مد میں آٹھ ہزار ارب روپے ادا کرنے ہیں۔ آپ حساب کتاب کریں گے تو پتا چلے گا کہ جب سے امریکیوں نے سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالرز دینا بند کیے ہیں اس کے بعد سعودی عرب‘ دبئی‘ آئی ایم ایف اور چینی قرضوں اور سود کا حجم بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ امریکی آپ کو قرض نہیں دے رہے تھے‘ امداد دے رہے تھے۔ اگرچہ بہت سے لوگ کہیں گے کہ وہ ایسا اس لیے کر رہے تھے کیونکہ ہم ان کی جنگ لڑ رہے تھے۔ کیا یہ جنگ امریکی سرحدوں پر لڑی جارہی تھی یا ہماری سرحدوں پر؟ طالبان ہم نے خود کھڑے کیے تھے اور ان کے گاڈ فادر کہلوا کر خوش ہوتے تھے۔ افغانستان میں بیس سال میں دو تین ہزار امریکی فوجی ہلاک ہوئے ہوں گے۔ روزانہ کا ایک سپاہی بھی نہیں بنتا۔ اتنی اموات تو بیس سال میں ایک بڑی فوج کی معمول کی مشقوں میں ہو جاتی ہیں۔ امریکی اپنی مرضی سے افغانستان میں رہے۔ اپنے مشن پورے کیے اور پھر اپنی مرضی سے کابل کو طالبان کے حوالے کر کے لوٹ گئے۔
ابھی ٹرمپ کو دیکھ لیں جو آج کل اپنے امریکی مفادات کو ایک طرف رکھ کر بھارت کے ساتھ تعلقات کو وہ اہمیت نہیں دے رہا جتنی امریکہ پچھلے 77برس سے دیتا آیا ہے۔ دیکھا جائے تو بھارت امریکہ کیلئے زیادہ اہم ملک ہے۔ صدر نکسن کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ شاید واحد صدر ہیں جنہوں نے پاکستان کو اتنی اہمیت دی ہے جس پر پورے بھارت میں ماتم ہورہا ہے۔ بھارتی اینکرز پاگل ہو گئے ہیں کہ پاکستان نے آخر ٹرمپ پر کیا جادو کر دیا ہے کہ وہ پاکستان اور پاکستانی عوام کا دیوانہ ہو گیا ہے۔ اب بھارتی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نے ٹرمپ کو رشوت کے طور پر کرپٹو کرنسی معاہدے اور منرلز ٹھیکوں کی پیشکش کی ہے جس میں ٹرمپ خاندان کو ذاتی دلچسپی ہے۔ چلیں بھارت کا رونا پیٹنا یا چیخنا چلانا سمجھ میں آتا ہے لیکن پاکستان کے اندر بیٹھے رودالی کیوں رونا شروع ہو گئے ہیں؟ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا ہمارے لاڈ اٹھائے اور ہمارے سب کام مفت کرے۔ دنیا ہمیشہ سے مفادات پر چلتی آئی ہے‘ چاہے وہ انسانوں کے ایک دوسرے سے ذاتی تعلقات ہوں یا قوموں کے۔ ابھی نیٹو کے معاملے پر یورپ اور امریکہ میں کیا ہوا ہے‘ نیٹو ممالک بھی تو اپنے مفادات کیلئے امریکہ کے ساتھ کھڑے تھے یا امریکہ ان کے ساتھ کھڑا تھا۔ جب مفادات کا ٹکراؤ ہوا تو دونوں پیچھے ہٹ گئے۔ کسی ملک نے ہماری طرح رولا نہیں ڈالا کہ امریکہ نے دھوکا دے دیا۔
ہمیں بھارت کے خلاف جنگ کے بعد امریکہ کی حمایت درکار تھی۔ چین کی حمایت اپنی جگہ لیکن امریکہ کا اس جنگ میں نیوٹرل ہونا بھی ہمارے لیے خطرناک تھا۔ ہمیں ہر قیمت پر امریکی حمایت درکار ہے۔ ہم تو خوش قسمت ہیں کہ چین کے مفادات بھی ہمارے مفادات کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اس طرح اگر امریکہ جیسی پاور کو بھی پاکستان میں کرپٹو کرنسی یا منرلز ٹھیکوں میں دلچسپی ہے تو اس پر ہمیں رونے دھونے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ شکر کریں کہ اب تک ہم امریکہ کے پاس کچھ نہ کچھ مانگنے جاتے تھے اور پہلی دفعہ امریکی کہہ رہے ہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ تجارتی معاہدہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمارا رونا دھونا ختم نہیں ہورہا۔
جو کام آپ کو کرنا ہے وہ ان تجارتی معاہدوں میں اپنے ملک کیلئے بہترین ڈیل ہے۔ ایک طرف آپ کو بیرونی سرمایہ کاری درکار ہے تاکہ ڈالروں میں قرض نہ لیں اور دوسری طرف اگر آپ کے پاس کچھ ہے‘ جو دنیا خریدنا چاہتی ہے‘ تو ہم نے اس پر بھی شور ڈال دیا ہے۔ ہم لوگ امداد اور قرض کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ اب ہم تجارت کے نام سے بھی بدک جاتے ہیں۔ اس وقت بھارت جس طرح کی بدترین عالمی تنہائی کا شکار ہوا ہے اور پاکستان کو امریکی حمایت ملی ہے‘ ہمیں اس پر ذرا حوصلہ دکھانا ہے۔ آپ تصور کریں کہ اس وقت اگر صدر ٹرمپ بھارت کے بیانیے کے ساتھ کھڑے ہوتے اور پاکستان کو روزانہ برا بھلا کہہ رہے ہوتے تو ہم نے پھر ستتر سالہ تاریخ میں سے امریکی بے وفائی کی مثالیں نکال نکال کر رونا تھا۔ شکر کریں کہ ہمارے پاس کچھ ہے جو چین کو بھی ہمارے قریب لاتا ہے اور امریکہ کو بھی۔ اس سے بڑی خوش قسمتی اس ملک کی کیا ہو گی کہ دنیا کے دو بڑے طاقتور ملک‘ جن کی آپس میں نہیں بنتی لیکن پاکستان کے ساتھ ان دونوں کے تعلقات اچھے ہیں۔ اگر ٹرمپ ہماری بجائے بھارت کے ساتھ کھڑے ہوتے تو کچھ اندازہ ہے کہ ہمارا اب تک کیا حشر ہو چکا ہوتا؟
بعض اوقات مجھے لگتا ہے کہ ہم وہ بہو بن چکے ہیں جسے جوانی میں ساس اچھی نہ ملی اور بڑھاپے میں بہو۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں