"RKC" (space) message & send to 7575

فرعون‘ موسیٰ اور خدا

کچھ عرصہ پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایک ڈاکیومنٹری ریلیز کی گئی تھی۔ اس شاندار ڈاکیومنٹری سے میں بہت متاثر ہوا اور اس سے چند سبق سیکھے بلکہ یوں کہوں کہ میں نے اسے دیکھ کر خود کو ٹھیک یا بہتر کرنے کی کوشش کی‘ تو یہ غلط نہ ہو گا۔
باقی کہانی ایک طرف رکھتے ہیں۔ محض ایک سین پر توجہ دیتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کی لڑائی عروج پر ہے۔ خدا اب تک چند عذاب مصر پر بھیج چکا ہے لیکن فرعون اب بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بات سننے یا ماننے کو تیار نہیں کہ وہ اس کی قوم کو رہا کر دے۔ خدا اب فرعون کو بربادکرنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کو راضی کرنے کی آخری کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ بربادی سے بچ جائے۔ وہ فرعون سے ملنے جاتے ہیں۔ اسے سمجھاتے ہیں کہ اب کی بار کتنا بڑا عذاب آنے والا ہے لیکن فرعون کی سوچ نہیں بدلتی۔ وہی تکبر‘ وہی غرور اور پہاڑ جتنی اَنا۔ فرعون کو اس کی بہن‘ اس کے جنرل‘ اس کے مشیر اور درباری سبھی سمجھاتے ہیں کہ موسیٰ سے لڑائی نہ لڑے۔ اس کے ساتھ کچھ ایسی طاقتیں ہیں جو ہمارے قابو سے باہر ہیں۔ یہ سمجھداری نہیں ہے کہ چند ہزار لوگوں کی خاطر سلطنتِ مصر کو تباہ کرا لیا جائے۔ فرعون کا کہنا ہے کہ اگر اس نے آج موسیٰ علیہ السلام کی بات مان کر اُن کی قوم کو اُن کے حوالے کر دیا تو پھر پوری ریاست میں ہر قبیلہ اپنی قوم کو لے کر الگ ہو جائے گا۔ سب نے سمجھا کر دیکھ لیا لیکن فرعون ٹس سے مس نہ ہوا۔اَنا اور تکبر نے اس پر غلبہ پا لیا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام کی آخری کوشش بھی کامیاب نہ ہو سکی۔
جب اس ملاقات کے بعد موسیٰ علیہ السلام خدا سے ملنے گئے تو پوچھا: میں حیران ہوں جو بات فرعون کی بہن‘ اس کے جنرل‘ مشیر اور درباریوں کو سمجھ آرہی ہے کہ سامنے بربادی کا راستہ ہے‘ مصر پہلے ہی تباہ ہو چکا ہے‘ عذاب پر عذاب اُتر رہے ہیں‘ وہی سادہ سی بات فرعون کی سمجھ میں کیوں نہیں آرہی؟ خدا کی جانب سے جواب ملتا ہے: موسیٰ میں جس بندے کو برباد کرنا چاہتا ہوں اس پر عقل اور ہدایت کے راستے بند کر دیتا ہوں۔ میں نے فرعون کو برباد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اب اسے کوئی عقل کی بات سمجھ نہیں آئے گی۔ وہ ہٹ دھرمی کرے گا اور یہی چیز اسے برباد کر دے گی۔ اس سین پر میں رُک گیا۔ مجھے یوں لگا کہ یہ بات صرف فرعون کے بارے میں نہیں کہی گئی۔ یہ ہم سب کے بارے میں ہے جنہوں نے اپنے اندر چھوٹے چھوٹے فرعون پال رکھے ہیں‘ جو ہر ضد کو فخر سے اپنی ڈھال بنا لیتے ہیں۔ ہم تکبر اور غرور میں قید ہو جاتے ہیں۔ ہمیں کوئی سمجھا رہا ہو تو بھی ہم اپنی اَنا میں قید رہتے ہیں۔
اس سین سے میں نے یہ سبق سیکھا کہ اگر مجھے زندگی میں دو تین لوگ کسی بات سے منع کر رہے ہوں اور میں ان کی بات سے قائل نہ بھی ہوں تو پھر بھی مجھے خود پر زور جبر کرکے وہ بات مان لینی چاہیے۔ خدا اپنے بندوں کے ذریعے ہی ہمیں سمجھاتا ہے۔ مجھے اس حد تک نہیں جانا چاہیے کہ خدا مجھ پر ہدایت یا عقل کا راستہ بند کر دے اور مجھے اپنے تکبر اور غرور میں یہ احساس ہی نہ ہو کہ مجھ پر ہدایت کا راستہ بند ہو چکا ہے۔ میں جس ضد اور ہٹ دھرمی کو اپنی فتح یا عقل سمجھ رہا ہوں وہ دراصل میری بربادی کا راستہ ہے۔ خدا مجھے اب بھی موقع دے رہا ہے کہ میں ہدایت کا راستہ کھلا رکھوں۔ لوگوں کی بات سن لوں‘ چند مشوروں پر غور کر لوں۔ خود کو عقلِ کل نہ سمجھ لوں۔
یہ بات طے ہے کہ انسان خود کو کئی طریقوں سے برباد کر سکتا ہے لیکن میرے خیال میں انسان کو جتنا جلدی تکبر اور اَنا بربادی کی طرف لے کر جاتے ہیں‘ شاید ہی کوئی اور جبلت لے کر جاتی ہو۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب میں برسوں پہلے خدا کے گھر گیا تھا تو وہاں جو چند دعائیں مانگی تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ خدایا مجھے عمر بھر تکبر اور غرور سے بچانا۔ میں جن انسانی جبلتوں سے سب سے زیادہ ڈرتا ہوں اور اس حوالے سے اپنی مسلسل کونسلنگ کرتا رہتا ہوں وہ تکبر‘ غرور اور اَنا ہے۔ اَنا سب سے زیادہ خطرناک جبلت ہے۔ آپ تکبر اور غرور کے ساتھ لڑ سکتے ہیں۔ خود کو انکساری اور عاجزی کی طرف لے جا سکتے ہیں لیکن اَنا پر قابو پانا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ اَنا وہ جبلت ہے جو آپ کو اس طرح برباد کر سکتی ہے کہ آپ نے سوچا تک نہیں ہوتا۔ ہم بہت سے کام نہیں کرنا چاہتے لیکن ہماری اَنا ہمیں مجبور کر دیتی ہے۔ جب ہم اس چکر میں پھنس جاتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے کہ ہم بزدل ہیں‘ یا ڈر گئے ہیں تو پھر ہم جانتے بوجھتے اس چکر سے نہیں نکلنا چاہتے۔ ہم اکثر کام دوسروں کو متاثر کرنے کیلئے کرتے ہیں۔ ہم دوسروں پر اپنا اچھا تاثر چھوڑنا چاہتے ہیں۔ خود کو دوسروں سے مختلف ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم وہ مخلوق ہیں جسے خدا نے کسی خاص مقصد کیلئے پیدا کیا ہے اور ہمارا عام لوگوں سے کوئی مقابلہ نہیں۔ ہم تو کچھ بڑا کرنے کو پیدا ہوئے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اَنا انسان کی ترقی میں بھی بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جب آپ زندگی میں ترقی کرنا چاہتے ہیں‘ یہ اَنا آپ کے اندر ایک نئی قوت بھر دیتی ہے کہ میں نے اپنی زندگی بہتر کرنی ہے۔ میں نے خود کے یا خاندان یا ملک یا قوم کے حالات بدلنے ہیں یا میں نے کوئی ایسی ایجاد کرنی ہے جو انسانیت کی بھلائی کے کام آئے۔ لوگوں کو میرے کام اور ذہن سے فائدہ ہو۔ میں انسانیت کے کام آؤں اور ایسے ایسے کام کروں جو مجھ سے پہلے کسی نے نہ کیے ہوں۔ ہم انسانوں کو دوسروں سے غیرمعمولی لگنے کا شوق کہیں ٹکنے نہیں دیتا۔ اس جبلت کے تحت اکثر لوگ اچھے کام کرتے ہیں تاکہ لوگ ان کی تعریف کریں۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کیلئے ایسی ایسی حرکتیں کرتے ہیں کہ آپ حیران رہ جاتے ہیں۔ کوئی موٹر سائیکل کا سائیلنسر نکلوا دے گا تاکہ جب اس کا موٹر سائیکل شور کرتا گزرے تو سب اس کی طرف دیکھیں۔ وہ نوجوان جو ون ویلنگ کرتے ہیں ان کے اس عمل کے پیچھے بھی یہی خواہش ہے کہ ہم کچھ ایسا کام کریں جو ہر کوئی نہیں کر سکتا۔ ہم خاص ہیں‘ لوگ ہمیں دیکھیں اور سراہیں۔ جو انسان پہاڑ فتح کرتے ہیں ان کے اس عمل کے پیچھے بھی یہی جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔ ہماری اَنا ہمیں پہاڑ پر چڑھا دیتی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ میرے پیارے ڈاکٹر ظفر الطاف کہا کرتے تھے کہ پتا ہے شعیب اختر کی 160کلو میٹر فی گھنٹہ کی سپیڈ کے آگے بیٹسمین کو کیا چیز کھڑا رہنے کا حوصلہ دیتی ہے؟ میری آنکھوں میں سوالیہ نشان دیکھ کر کہتے تھے: اس کی اَنا اور خود پر فخر! اس کے بغیر وہ بیٹسمین کھڑا نہیں رہ سکتا۔ وہ جان داؤ پر لگا دے گا لیکن مجمع کے سامنے یہ ظاہر نہیں ہونے دے گا کہ وہ ڈرا یا سہما ہوا کھڑا ہے۔ یہی اَنا جب قوموں اور ملکوں کی زندگی میں داخل ہوتی ہے تو ان کا بھی یہی انجام ہوتا ہے۔ یہی اَنا ملکوں کو ترقی کے سفر پر بھی لے جاتی ہے کہ وہ دنیا میں دوسری قوموں سے بہتر ہیں۔ لیکن پھر کچھ قومیں اور ملک یا ان کے لیڈرز ایسے بھی ہوتے ہیں جو تکبر اور غرور کا راستہ لیتے ہیں۔ اپنی قوم اور ملک کو دنیا کی بہترین قوم سمجھ کر خود بھی برباد ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی کرتے ہیں۔ وہی بات کہ جب خدا کسی کو برباد کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے اس پر ہدایت یا عقل کے دروازے بند کرتا ہے۔ جب کوئی انسان یا ملک کسی کا وہ مشورہ سننے سے انکاری ہو جاتا ہے جو اس کے علاوہ سب کو اچھا اور مناسب لگ رہا ہوتا ہے تو سمجھ لیں کہ وہ خدا کو اپنے خلاف کر بیٹھا ہے۔
میرے دماغ میں ہر وقت وہی سین چلتا رہتا ہے کہ چھوڑ دو موسیٰ! اب فرعون کسی کی نہیں سنے گا۔ ہدایت کا دروازہ بند۔ اب فیصلہ ہو چکا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں