سوات میں اٹھارہ افراد کے سیلابی ریلے میں بہہ جانے کے واقعہ نے پورے ملک کو غمزدہ کر دیا ہے۔ سیالکوٹ کا یہ خاندان وہاں سیر کیلئے گیا ہوا تھا‘ جیسے پنجاب اور سندھ سے اکثر لوگ گرمیوں میں جاتے ہیں۔ سیاحت وہاں کے مقامی لوگوں کی روزی کا بڑا ذریعہ ہے‘ لیکن ہر سال کوئی نہ کوئی ایسا دل خراش واقعہ پیش آتا ہے جس میں انسانی جانیں ضائع ہوتی ہیں اور سوشل میڈیا پر ایک بحث شروع ہو جاتی ہے۔ سیاح کا قصور تھا یا پھر حکومتی اداروں کا‘ جن کی نااہلی سیاحوں کو بچا نہ سکی۔
اس ضمن میں یقینی طور پر پہلی ذمہ دار تو مقامی انتظامیہ کی بنتی ہے کہ وہ حرکت میں آئے اور سیاحوں کے تحفظ کی کوشش کرے‘ اور اگر اسے لگے کہ یہ کام اُس کے بس سے باہر ہے تو وہ فوراً دیگر اداروں کی مدد لے۔ لیکن دیکھا گیا ہے کہ اس سلسلے میں کوئی کام بروقت نہیں ہوتا۔ سیلابی ریلے میں پھنسے بے بس لوگ انتظار کرتے رہتے ہیں۔ وڈیوز کے ذریعے پوری دنیا کو پتہ چل جاتا ہے لیکن مقامی انتظامیہ سے لے کر صوبائی اور وفاقی حکومت تک کو اس کی خبر نہیں ہوتی اور اگر خبر ہو بھی جائے تو ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اگر آپ کو یاد ہو تو شاید 2022ء کے سیلاب میں بھی یہیں سوات کے قریب ہی چار پانچ نوجوان گھنٹوں سیلابی ریلے میں پھنسے رہے۔ انہیں بھی بروقت ریسکیو نہیں کیا گیا تھا اور بالآخر وہ سیلاب کی نذر ہو گئے۔ سب نے بڑا غم منایا۔ اُس وقت کے وزیراعلیٰ کا تعلق بھی سوات سے تھا۔ تب یہ تصور کر لیا گیا تھا کہ شاید اس انسانی المیے سے سبق سیکھ کر آئندہ کیلئے بہتر انتظامات کر لیے جائیں لیکن اب تین سال بعد اُس سے بھی تین گناہ زیادہ انسانی جانیں اُسی انداز میں ضائع ہوئی ہیں۔اور اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد سوشل میڈیا پر صوبائی حکومت کا دفاع کر رہی ہے۔ سیاحوں کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ سیاح بھی اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں جس سے ایسے ناخوشگوار واقعات جنم لیتے ہیں لیکن ان سیاحوں کو روکنا یا انہیں آگاہی دینا حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ سخت گرمی کے مہینوں میں ملک بھر سے لاکھوں افراد ان علاقوں کا رُخ کرتے ہیں۔ سیاحت سے ہی ان علاقوں کی معیشت چلتی ہے۔ سارا سال کا خرچہ اکٹھا ہو جاتا ہے‘ لہٰذا یہ تین‘ چار مہینے بہت اہم ہوتے ہیں۔ کیا آپ کو کبھی لگا کہ اس سیاحتی سیزن کیلئے صوبائی یا مرکزی حکومتوں نے کوئی تیاری کی ہو‘ سیاحوں کو شعور دینے کی کوشش کی ہو کہ انہوں نے کون کون سی احتیاطی تدابیر اپنانی ہیں۔ کیا سیاحوں کے احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے کی صورت میں مقامی پولیس یا اداروں کو کوئی الرٹ جاری کیا گیا کہ اس صورت میں انہیں کیا کارروائی کرنی ہے؟ اس سے بڑھ کر کیا کبھی کوئی ایمرجنسی رسپانس فورس تیار کی گئی کہ اس خطرنا ک صورتحال میں کس ادارے نے کیا کرنا ہے اور ان اداروں کا آپس میں رابطے کا کیا سلسلہ ہو گا؟کیا اس سیاحتی سیزن کے دوران صوبائی یا مرکزی حکومت یا ریسکیو ادارے تین‘ چار ہیلی کاپٹرز سوات یا دیگر سیاحتی مقامات پر پارک کرکے انہیں الرٹ نہیں رکھ سکتے یا پھر ریسکیو کیلئے بڑی کشتیوں کا انتظام نہیں کیا جا سکتا؟ جب ان علاقوں میں سیاحت سے پیسہ اکٹھا کیا جاتا ہے تو پھر مقامی معیشت اور سیاحوں کو بچانے کیلئے ادارے اور حکمران کیوں کوشش نہیں کرتے؟ سیاحت سے صوبائی حکومت کو بھی اربوں روپے ٹیکس ملتا ہے جس پر اعلیٰ حکام کی عیاشیاں چل رہی ہیں۔ اگر سیاح محفوظ ہو گا‘ سیاحت کو فروغ ملے گا تو ہی مقامی آبادی اور حکومت کے خرچے چلیں گے۔
یہ بات طے ہے کہ اکثر حکمرانوں کے دلوں میں مشکل میں گھرے عوام کیلئے ہمدردی کم ہی ہوتی ہے۔ یہ سب ڈرامے اور اداکاری ہوتی ہے کہ چند لمحوں کیلئے ایسا منہ بنا لیا کہ ہمیں بڑا دکھ ہے۔ دکھ تبھی ہوتا ہے جب اُن کا کوئی اپنا کسی تکلیف میں ہو‘ وہ عوام کی تکلیف محسوس نہیں کرتے۔ اگر آپ کو عوام کا درد ہو تو آپ انہیں لانگ مارچ یا دھرنوں میں سروں پر کفن باندھ کر جانے کا ہدایات دیں؟ کتنے سیاستدان یا حکمران اپنے بچوں کو سر پر کفن باندھ کر دھرنوں میں لے کر گئے ہیں یا ان کے ہاتھ میں بندوق دے کر بھیجا ہے؟ ملک میں جتنے بھی دھرنے یا لانگ مارچ ہوئے آپ کو کسی لیڈر کا کوئی اپنا بچہ فرنٹ سے لیڈ کرتا نظر آیا؟ کسی کے بچے نے سینے پر گولی کھائی کہ اقتدار کا سب سے بڑا فائدہ تو اس کے خاندان کو ہی ملنا ہے‘ سب ٹھاٹ باٹ تو ان کے حصے میں آنی ہے‘ تو پھر دوسروں کے بچوں کو کیوں مرنے کے لیے آگے کرتے ہیں؟
اگر آپ کو یاد ہو تو 2014ء میں جب آرمی پبلک سکول میں 140سے زائد بچے شہید کر دیے گئے تو وزیراعظم نواز شریف اور عمران خان اکٹھے پشاور گئے تھے۔ وہ دونوں ایک اجلاس میں شریک تھے کہ اب کیا کرنا ہے۔ ابھی بچوں کی لاشیں ہسپتال میں رکھی تھیں اور والدین پاگل ہو کر اپنے بچوں کو ڈھونڈ رہے تھے تو وہاں سیاستدان جگتیں لگا رہے تھے۔ قہقہے لگا رہے تھے۔ یقین نہیں آتا تو یوٹیوب پر جا کر وہ وڈیو دیکھ لیں۔ اُس دن مجھے احساس ہوا کہ اپنے بچوں اور دوسروں کے بچوں کے غم میں کتنا فرق ہوتا ہے۔ اس طرح یاد ہو تو اکتوبر 2014ء میں عمران خان کے ملتان جلسے میں بھگدڑ مچنے سے سات نوجوان جاں بحق ہو گئے تھے لیکن خان صاحب نے تقریر جاری رکھی۔ ان سیاستدانوں کیلئے عوام چارہ ہوتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ ایک سیڑھی جس پر چڑھ کر انہوں نے اقتدار تک پہنچنا ہوتا ہے۔
سوات سانحے میں صوبائی حکومت کا دفاع کرنے والوں سے یاد آیا کہ لندن کالج میں ہماری کلاس میں میڈیا کے پروفیسر نے ایک سروے رپورٹ بانٹی جس میں بتایا گیا تھا کہ برطانیہ جیسے پڑھے لکھے باشعور معاشرے میں بھی لوگ اپنی سیاسی وفاداریاں نہیں بدلتے۔ صرف دس‘ بیس فیصد لوگ ہی اپنی سوچ بدلتے ہیں۔ باقی اسی فیصد اپنی پسندیدہ پارٹی یا لیڈر کے فیصلے پر قائم رہتے ہیں۔ لہٰذا اٹھارہ افراد کی موت پر بھی کچھ لوگ خیبرپختونخوا حکومت کا دفاع کر رہے ہیں کہ حکومت کا کیا قصور ہے۔ قصور تو کسی کا بھی نہیں۔ اس کا بھی نہیں جس نے 22سال میرٹ میرٹ کا نعرہ لگا کر پہلے پنجاب میں عثمان بزدار‘ خیبرپختونخوا محمود خان اور اب علی امین گنڈاپور کو وزیراعلیٰ لگایا ہے۔
علی امین گنڈاپور کو یہ داد تو دیں کہ انہوں نے منافقت نہیں کی۔ انہوں نے افسردہ ہونے کا ڈرامہ نہیں کیا نہ ہی مگرمچھ کے آنسو بہائے اور اداکاری کی۔ انہوں نے سیدھی بات کی کہ وہ اب کیا کریں۔ کیا وہ وہاں جا کر تمبو لگائیں؟ کیا تمبو لگانا گنڈاپور کا کام ہے؟ ذہن میں رکھیں کہ تمبو ہمارے ہاں فوتگی والے گھر میں لگائے جاتے ہیں۔ ویسے اگر میرٹ پر لگنے والے عوامی وزیراعلیٰ کو اس سانحے پر تمبو لگاتے دیکھا جاتا تو وہ اس عمل سے سب کے دل جیت لیتے لیکن اُن کے لہجے پر غور کریں تو لگتا ہے جیسے یہ کوئی گھٹیا کام ہے جو ان کے رتبے سے بہت نیچا ہے۔ عوام کیلئے تمبو لگانا چھوٹا کام لگتا ہے لیکن انہی عوام کے ووٹوں سے وزیراعلیٰ بننا اچھا لگتا ہے۔
ویسے علی امین گنڈاپور صاحب کو جس شخصیت نے وزیراعلیٰ چنا تھا‘ وہ اپوزیشن کے دنوں میں اپنی دھواں دھار تقریروں میں بتاتے تھے کہ کوریا میں سمندر میں کشتی ڈوب گئی جس میں بچے سوار تھے تو کورین وزیراعظم نے خود کو اس سانحے کا ذمہ دار سمجھ کر استعفیٰ دے دیا تھا۔ آج میرٹ اور فارم 45کے وزیراعلیٰ سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ دو دن سے اسلام آباد میں کیا کررہے ہیں‘ ان کے صوبے میں سیلاب نے تباہی مچائی ہوئی ہے تو وہ غصے میں جواب دیتے ہیں کہ کیا انہوں نے اپنے صوبے میں جا کر تمبو لگانے ہیں؟