"RKC" (space) message & send to 7575

22 کروڑ روپے کا ایک ووٹ

حافظ حمداللہ کو ایک ٹی وی شو میں سنُن رہا تھا۔ ان کا کہنا تھا اس وقت خیبر پختونخوا میں سینیٹ کے الیکشن کیلئے ایک ایم پی اے کے ووٹ کا ریٹ 22 کروڑ روپے ہے۔ 22 کروڑ دو اور ووٹ لو۔ مان لیا ووٹوں کی خرید وفروخت نئی نہیں ہے‘ ہر دفعہ سینیٹ کے الیکشن کے موقع پر الزام لگتا ہے کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ووٹ خریدے جاتے ہیں۔ راتوں رات کہیں سے ارب پتی اٹھتے ہیں اور سینیٹر بننے کیلئے جتنے ووٹ درکار ہوتے ہیں‘ خرید لیتے ہیں۔ ایم پی ایز کے سامنے بریف کیس رکھ دیتے ہیں کہ اٹھا لو۔ اب ایک ووٹ کا ریٹ ہے 22 کروڑ روپے۔ اس پورے قضیے میں دو تین باتیں اہم ہیں۔ سینیٹ میں ووٹ بکنے یا بیچنے کا معاملہ سب سے زیادہ خیبر پختونخوا ہی میں کیوں سامنے آتا ہے؟ بلوچستان میں بھی ہے لیکن زیادہ کہانیاں کے پی کی مشہور ہیں۔ پنجاب اور سندھ میں بھی شاید ووٹ بکنے کی بات ہوتی ہو۔ کبھی ڈیرہ اسماعیل خان کے دو بھائی اس کام کیلئے مشہور تھے کہ نوٹوں سے سینیٹر بن جاتے تھے۔ بعد میں ان میں سے ایک تو وزیر خزانہ بھی بننا چاہتا تھا اور اس نے خاصا پیسہ بھی خرچ کیا۔ اس کے ہاتھ اور کچھ نہ لگا تو نجکاری کا وزیر بن گیا اور وہاں بھی پانچ سو کروڑ روپے کے سکینڈل میں پھنس گیا۔ کیس نیب تک گیا مگر پھر کچھ پتا نہ چلا کہ اس کیس کا کیا بنا۔ جب نیب قانون میں تبدیلی کی گئی تھی تو شاید وہ بھی بچ نکلا ہوگا۔ کبھی سینیٹ میں ایک مخصوص کلاس کے لوگ آتے تھے۔ سیاسی پارٹیاں اہم اور پڑھے لکھے لوگوں کو سینیٹ میں بھیجتی تھیں اور کاروباری افراد یا ٹھیکیداروں کو ٹکٹ نہیں ملتے تھے۔ بڑے بڑے اچھے مقرر اور ٹیکنو کریٹس سینیٹ میں نظر آتے‘ جب تقریر کرتے تو انہیں سُن کر مزہ آتا تھا۔ ایک دور وہ بھی تھا کہ ہمارے جیسے صحافی قومی اسمبلی سے زیادہ سینیٹ کی پریس گیلری میں وقت گزارتے تھے کہ وہاں تقریروں اور گفتگو کا معیار بہت اعلیٰ تھا۔ کوئی شور شرابہ‘ ہنگامہ‘ گالی گلوچ یا دھکم پیل نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی اسمبلی ااراکین کی طرح تقریروں میں اپنی پارٹی لیڈروں کی پوجا کی جاتی تھی۔ پارٹی لیڈرز بھی سینیٹرز کی عزت کرتے تھے اور اکثر پارٹی سربراہان خود ایسے قابل لوگوں کو درخواست کر کے سینیٹ لاتے تھے۔ لیکن دھیرے دھیرے پڑھے لکھے سینیٹرز کا دور ختم ہوا اور پھر پتا چلا کہ اب وہی سینیٹر بنے گا جس کے پاس پیسے ہوں گے۔ ایم پی اے بھی کہنے لگے کہ اگر پارٹی سربراہان کسی بلڈر‘ ٹھیکیدار‘ فیکٹری مالک یا بڑے برنس مین سے پارٹی فنڈ کے نام پر کروڑوں روپے لے کر اسے ٹکٹ دیتے ہیں تو وہ کیوں پیچھے رہیں؟ یوں ایم پی ایز نے بھی اپنا ریٹ لگوانا شروع کر دیا کہ جناب الیکشن میں اصل خرچہ تو ہم کر کے آتے ہیں۔ اگر ہمیں خرچہ نہیں ملے گا تو ہم کیوں ووٹ ڈالیں۔ آپ کو یاد ہو تو کچھ برس قبل پی ٹی آئی کے 20 کے قریب ایم پی ایز کی وڈیوز سامنے آئی تھیں جن میں وہ پیسے لے کر ووٹوں کی خرید وفروخت کا معاملہ طے کر رہے تھے۔ جیسے پہلے کہا تھا کہ یہ کوئی انہونی بات نہیں لیکن پی ٹی آئی کے اراکین کا اس طرح ووٹ بیچنا یقینا پریشان کن امر تھا کیونکہ عمران خان تو کہتے تھے کہ ان کی پارٹی ایماندار لوگوں پر مشتمل ہے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ آپ لوگ مجھ پر اعتبار کریں‘ میں جن لوگوں کو ٹکٹ دوں گا وہ اچھے اور ایماندار ہوں گے۔ اس وقت پی ٹی آئی کا یہ بھی نعرہ بڑا مقبول تھا کہ ٹاپ پر بندہ اگر ایماندار ہو تو نیچے تک ایمانداری پھیل جاتی ہے۔ ویسے بھی اُس صوبے میں اس طرح ووٹ بیچنا زیادہ حیران کن ہے‘ جہاں پی ٹی آئی آئی تیسری دفعہ حکومت کر رہی ہے اور ریاستِ مدینہ کا نعرہ بھی وہیں مقبول ہوا‘ جو بعد میں دیگر صوبوں میں پھیلا۔
سیاست میں کرپشن کا آغاز 1985ء میں جنرل ضیا دور سے ہوا تھا‘ جب ترقیاتی فنڈز کے نام پر پیسہ ارکانِ اسمبلی کی جیبوں میں جانا شروع ہوا۔ اس سے پہلے سیاستدانوں پر اگر الزامات لگتے بھی تھے تو وہ زیادہ سے زیادہ الاٹمنٹ یا راشن ڈپو سے متعلق ہوتے کہ فلاں نے الاٹ کرا لیا۔ ورنہ کسی بڑے سیاستدان کے بارے آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ وہ مالی کرپشن کر رہا ہے یا رشوت دے کر ٹھیکے لے رہا یا دلوا رہا ہے۔ اب سیاست صرف طاقت کا محور نہیں بلکہ یہ ایک کاروبار ہے۔ اب یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ آپ نے اپنے کاروبار کا تحفظ کرنا یا ٹھیکے لینے ہیں تو آپ کو پارلیمنٹ میں پہنچنا ہوگا۔ اب براہِ راست الیکشن لڑنا آسان نہیں لہٰذا شارٹ کٹ آپ کے پاس سینیٹ ہے کہ وہاں کی سیٹ خرید لو۔ سینیٹر بننے کے بعد اگلا مرحلہ آتا ہے کہ وزارت لینے کی کوشش کی جائے جو ایک مشکل کام ہے۔ پھر اس کے بعد جو اصل لڑائی ہے وہ کمیٹیوں کے چیئرمین بننے پر ہوتی ہیں۔ چند قائمہ کمیٹیاں تو وزارتوں سے بھی بہت زیادہ اہم ہیں اور ان کیلئے سینیٹرز ایک دوسرے سے لڑتے ہیں۔ اگر کمیٹی چیئرمین کی پوسٹ نہ ملے تو پھر کمیٹیوں کی ممبرشپ پر لڑائی ہوتی ہے۔ اکثریت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اُس کمیٹی کا ممبر بنے جو اس کے کاروبار سے متعلق ہے۔ یوں اکثریت کمیٹیوں کے ارکان آپ کو ٹھیکیدار اور بلڈرز ہی نظر آئیں گے اور ان اجلاسوں میں ان سینیٹرز کی لڑائیاں وزیروں یا وزارت کے سیکرٹریز اور بیورو کریٹس سے ہوتی ہیں۔
میں کئی کمیٹیوں میں ممبران اور بیورو کریٹس کی لڑائیوں کا گواہ ہوں۔ اکثر بیورو کریٹس یہ شکایت کرتے پائے جاتے ہیں کہ ان کو اجلاس میں جان بوجھ کر ذلیل کیا جاتا ہے تاکہ وہ کمیٹی ممبران کے ناجائز کام کریں۔ جب وہ کام نہیں کرتے تو پھر سارا غصہ اجلاسوں میں نکلتا ہے۔ یقینی طور پر سارے سینیٹرز نہ ووٹ خرید کر آتے ہیں اور نہ ہی ان کے کاروباری مفادات ہوتے ہیں۔ ایماندار سینیٹرز بھی ہیں لیکن اب کچھ برسوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ کمیٹی اجلاسوں میں زیادہ تر ممبر کاروباری ہیں‘ بلڈرز اور ٹھیکیدار ہیں جو اپنے کاروبار کی پروموشن کیلئے کوشاں رہتے ہیں اور اس کے مطابق ہی قوانین میں رعایتیں یا تبدیلیاں چاہتے ہیں۔ لہٰذا پاکستان میں سیاست اب کاروبار سے جڑ گئی ہے۔ ہر بڑے کاروباری گروپ کو اپنا بندہ پارلیمنٹ اور کابینہ میں چاہیے۔ اگر کچھ گروپ خود سیاست میں داخل نہیں ہو سکتے تو وہ پارٹیوں کو چندہ اور مالی امداد‘ گاڑیاں اور دیگر سپورٹ فراہم کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل خبر آئی تھی کہ الیکشن سے قبل نواز شریف کو لاہور میں چند بڑے کاروباریوں نے ایک ارب روپے پارٹی فنڈ کے نام پر دیے تھے۔ اس طرح عمران خان کو بھی بڑے بڑے بزنس مین اور دیگر لوگ چندہ اور پیسہ دیتے آئے ہیں۔ اگرچہ بیرونی دنیا میں سیاسی پارٹیوں کو چندہ دینا عام بات ہے لیکن ہمارے ہاں اس چندے کو چھپایا جاتا ہے کہ کس نے کتنے پیسے دیے‘ اور یہ بھی کہ کاروباری گروپس کی کسی سیاستدان سے کیا توقعات ہیں اور کل کلاں وہ ان پارٹیوں سے کیا کام لیں گے۔ دوسرا‘ ہمارے ہاں اس چندے کی قیمت عوام ہی کو چکانا پڑتی ہے‘ جب وہ ٹھیکیدار یا امپورٹر ٹیکس؍ ڈیوٹی میں چھوٹ اور دیگر سرکاری مراعات لیتا ہے۔ یہاں کوئی کسی کا سگا نہیں۔ جو آپ کو پیسے دے رہا ہے‘ اس نے اس کی ریکوری بھی کرنی ہے۔ آپ کو بھی علم ہوتا ہے کہ یہ عنایت کسی نہ کسی شکل میں واپس کرنی ہے۔ بہرحال ہر تین سال بعد سینیٹ الیکشن ایک موقع ہوتا ہے‘ خصوصاً بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں کہ وہاں کے ایم پی ایز کروڑوں کما سکیں۔ اب وہ موسم آن پہنچا ہے‘ جب کچھ ایم پی ایز کے ووٹ بکیں گے اور ووٹ بیچ کر وہ عمران خان کو رہا کرانے کیلئے سروں پر کفن باندھ کر اسلام آباد کی طرف مارچ بھی کریں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں