ہمارے ملتان کے پیارے ڈاکٹر انوار احمد نے اپنی فیس بک پر کینیڈا میں مقیم اپنی ڈاکٹر بیٹی کو لکھا کہ آپ نے ابھی تک مجھے میرے کالم کا لنک نہیں بھیجا جو اخبار میں چھپا ہے تاکہ میں اسے اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کر سکوں‘ جو پڑھنا چاہتے ہیں۔ مجھے یہ پڑھ کر اپنا وہ وقت یاد آ گیا جب میں بھی نئی ٹیکنالوجی کے استعمال کیلئے اپنے بچوں کا محتاج تھا اور پھر میں نے اس محتاجی سے کیسے چھٹکارا پایا۔ انوار صاحب اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھنا یا لکھوانا پسند نہیں کرتے۔ ساری عمر انہوں نے اپنی تحریروں اور کتابوں پر صرف انوار احمد ہی لکھا۔ شاید اب جس طرح ہزاروں کی تعداد میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر بن گئے ہیں‘ انہیں لگتا ہے کہ اب اس لفظ ''ڈاکٹر‘‘ کی وہ اہمیت نہیں رہی۔ اگرچہ وہ اُس دور میں ڈاکٹر بنے تھے جب واقعی پی ایچ ڈی کی اہمیت تھی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب 1991ء میں میرا ملتان یونیورسٹی میں داخلہ ہوا تھا تو اردو ڈپارٹمنٹ گراؤنڈ فلور پر اور ہمارا انگریزی ڈپارٹمنٹ فرسٹ فلور پر تھا‘ لہٰذا آتے جاتے اردو کے اساتذہ کے دفاتر کے باہر لگی نیم پلیٹ پر نظر پڑتی تھی۔ انتہائی پیارے استاد صاحبان‘ جن کے نام اب تک یادوں میں ہیں‘ ان میں انوار احمد‘ نجیب جمال‘ علمدار بخاری اور ساجد خان ہیں۔ یاد پڑتا ہے کہ ڈاکٹر روبینہ ترین صاحبہ بھی اس وقت وہیں پڑھاتی تھیں۔ مجھے حیرانی ہوئی تھی کہ وہاں شعبہ اردو کے سابق چیئرمین ڈاکٹر اے بی اشرف کی نیم پلیٹ بھی چیئرمین آفس پر لگی ہوئی تھی۔ پتہ چلا وہ تو انقرہ میں اردو چیئر پر چلے گئے تھے اور اب ڈاکٹر انوار احمد ان کی جگہ چیئرمین ہیں۔ میرے لیے یہ ایک بڑا سبق تھا کہ انوار احمد نے اے بی اشرف کے نام کی پلیٹ ہٹا کر وہاں اپنی نہیں لگائی کہ اب وہ چیئرمین ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب میں 1993 ء میں یونیورسٹی سے فارغ ہوا تب بھی ڈاکٹر اے بی اشرف کی نیم پلیٹ وہاں موجود تھی۔ یہ وہ ظرف اور بڑا پن تھا جو ڈاکٹر انوار احمد سے سیکھا کہ جہاں یونیورسٹی کالج میں پروفیسرز اور استاد ایک دوسرے کی جگہ لینے کیلئے مہا بھارت لڑتے ہیں وہاں ایک چیئرمین اپنی پروموشن پا کر بھی اپنے سے پہلے چیئرمین کا نام دوستی یا احترام میں وہاں سے نہیں ہٹاتا۔ انوار احمد چاہتے تھے کہ ان کے دوست یا استاد محترم اے بی اشرف کا نام وہیں اس ڈپارٹمنٹ میں سب کو نظر آتا رہے۔ یقینا ہر سال نئے طالبعلم ڈپارٹمنٹ آتے ہوں گے اور پوچھتے ہوں گے کہ یہ کون سے اے بی اشرف ہیں جن کا نام تو چیئرمین آفس پر لکھا ہے لیکن وہ نظر نہیں آتے۔ اور پھر انہیں کوئی نہ کوئی ڈاکٹر اے بی اشرف کا پورا تعارف کراتا ہوگا۔ ممکن ہے ڈاکٹر انوار احمد کا مقصد بھی یہی ہو کہ جہاں وہ ہمارے ساتھ ہر وقت اپنی نیم پلیٹ کے ساتھ موجود رہیں گے وہاں نئے طالبعلموں کو بھی ان سے آشنا ہونے کا موقع ملے گا۔ ویسے تو جو خاکہ اصغر ندیم سید نے ہمارے ملتان کے ہی ادیب‘ صحافی اور شاعر رضی الدین رضی کے ڈاکٹر اے بی اشرف پر اپنے خصوصی شمارے ''گردوپیش ‘‘میں لکھا ہے وہ ایک کلاسک تحریر ہے۔ ایسے خاکے اور تحریریں بہت کم لکھی جاتی ہیں۔ ویسے تو بہت اچھے خاکے لکھے گئے ہیں لیکن میں ذاتی طور بھارت کے لکھاری جاوید صدیقی‘ ملتان کے انوار احمد اور اصغر ندیم سید کے لکھے خاکوں سے بہت متاثر ہوں۔ کبھی سوچا تھا کہ میں بھی شاید دوستوں کے خاکے لکھوں گا لیکن جب ان تینوں کو پڑھا تو احساس ہوا کہاں اس طرح لکھا جائے گا لہٰذا ہمت نہ رہی۔ خیر بات شروع ہوئی تھی انوار احمد کی فیس بک پر ایک کمنٹ سے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی بیٹی کو اخبار کی ویب سائٹ سے ان کے کالم کا لنک کاپی کر کے بھیجنے کو کہا تھا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ عمر کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نے اس نئی ٹیکنالوجی کو سیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ یوں وہ بچوں پر زیادہ انحصار کرتے ہیں کہ وہ انہیں یہ کام کر کے دیں۔ یہ پڑھ کر میں حیران نہیں ہوا کیونکہ چند برس پہلے میں اس کیفیت سے گزر چکا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کی عمر تو اس وقت ماشاء اللہ 78 برس کی ہونے والی ہے۔ اس عمر میں نئی باتیں یاچیزیں سیکھنے کی خواہش کم ہو جاتی ہے۔ مجھے بھی یہی لگا تھا شاید یہ نئی چیزیں ہمارے دور کی اگلی نسل کی ہیں۔ ان میں کیا سر کھپانا۔ یاد پڑتا ہے مجھے فیس بک اکاؤنٹ لندن میں میری کالج کی دوست کیٹ نے بنا کر دیا تھا۔ مجھے علم تک نہ تھا کہ فیس بک نام کی کوئی چیز بھی دنیا میں آچکی ہے۔ یہ 2007 ء کا سال تھا اور شاید کچھ عرصہ پہلے ہی فیس بک لانچ کی گئی تھی۔ برسوں بعد میرے پیارے ارشد شریف نے یکم اپریل 2013ء کو میرا ٹوئٹر پر اکاؤنٹ زبردستی بنایا تھا۔ میں ایک دفعہ پھر اس سے بچنا چاہ رہا تھا لیکن ارشد مجھے نے بنا کر دیا۔ خیر میری روایتی سستی میرے ساتھ رہی۔ گھر پر کوئی بھی مسئلہ ہوتا تو میں اپنے بچوں کو کہتا‘ یار یہ ٹھیک کر دو۔ وائی فائی کا مسئلہ ہے‘ ٹی وی یا ویڈیوز چینلز‘ فون اَپ ڈیٹس‘ فون نمبرز ٹرانسفر کرنے ہیں یا کوئی آن لائن مسئلہ ہے۔ دونوں فورا ًمیرا کام کر دیتے اور یوں میں ان پر انحصار کرتا چلا گیا۔ ایک دن مجھے احساس ہوا کہ میرے بچے والد ہونے کی وجہ سے مجھ سے پیار اور میرا احترام تو کرتے ہیں لیکن اب انہیں لگتا ہے کہ ان کا باپ ذہنی طور پر بہت پیچھے ہے۔ میری ذہنی قابلیت پر انہیں شک ہے اور وہ میری کہی ہوئی بہت سی باتوں کو سیریس نہیں لے رہے۔ وہ اگنور کرتے ہیں کہ جو باپ وائی فائی کو نہیں سمجھتا وہ ہمیں کیا سمجھائے گا۔ میں نے اس دن فیصلہ کیا کہ آج کے بعد بچوں کو موقع نہیں دینا۔ اب مجھے کوئی بھی مسئلہ ہوتا تو بچوں کو کہتا یار ذرا بتانا۔ انہوں نے کہنا‘ بابا فون مجھے دیں میں کر دیتا ہوں۔ میں کہتا‘ ناں بیٹا مجھے گائیڈ کرو کیسے کرنا ہے‘ کروں گا میں خود۔ وہ کہتے‘ بابا ایک منٹ کی بات ہے ہم کر دیتے ہیں۔ میں جواب دیتا نہیں چندا مجھے بتائو کیسے کرنا ہے۔ بادل ناخواستہ وہ مجھے گائیڈ کرتے اور میں اپنے فون یا دیگر ٹیکنالوجی کے متعلق کام خود کرنے لگا۔ باقی کا کام میں نے گوگل اور یوٹیوب سے سیکھنا شروع کیا۔ دھیرے دھیرے میرا بچوں پر انحصار کم ہوتا گیا اور اب سارے کام خود کرتا ہوں۔ مجھے لگا میں دوبارہ بیس سال کا ہوگیا ہوں جسے سب کچھ پڑھنے اور سیکھنے کا شوق ہے اور اسے اپنے بچوں سے نہیں پوچھنا پڑتا۔ بچوں کو بھی کچھ عرصے بعد احساس ہوا کہ باپ تو ہماری طرح ہی ٹیکنالوجی کا استعمال جان چکا ہے اور میری وہ عزت بحال ہوئی جو ہر وقت ان سے ہر بات پوچھنے کی وجہ سے خطرے میں پڑ چکی تھی۔ یہ سب کچھ سیکھ کر مجھے دنیا نئی لگنے لگی اور میں اس عمر کے فیز کو انجوائے کرنے لگ گیا ہوں۔
سوال یہ ہے کہ ہم کب خود کو بوڑھا سمجھ کر ہر نئی چیز کو سیکھنا بند کر دیتے ہیں کہ ہم تو old timer ہیں؟ یہی احساس آپ کو بوڑھا کرتا ہے اور آپ تنہا رہ جاتے ہیں۔ ہوسکتا ہے ڈاکٹر انوار کہیں کہ وہ اب ریٹائرڈ ہوچکے‘ انہیں سب سیکھ کر کیا کرنا ہے‘ تو ان کیلئے عرض ہے کہ لندن گولڈ سمتھ کالج میں ایک بوڑھا انگریز استاد میرا کلاس فیلو تھا جو سکول سے ریٹائرڈ ہو کر اب برٹش ہسٹری کی کلاس لیتا تھا۔ ایک دن میں نے پوچھا: آپ ریٹائرمنٹ کے بعد ماسٹرز ڈگری کیوں لے رہے ہیں؟ وہ بولا :میرے سب شاگرد ماسٹرز کر گئے تھے لیکن میں نے گریجوایشن کررکھی تھی۔ میں نے سوچ رکھا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد داخلہ لے کر ایک دن ماسٹرز کروں گا حالانکہ اس ڈگری نے اس کی پروموشن یا تنخواہ نہ بڑھانی تھی۔ مجھے لندن کی میڈم لُوسی بھی یاد آتی ہے جو رات کے بارہ بجے ٹرین میں مجھے ملی تھی ۔وہ ایک ہوٹل پر شیف تھی اور اس کی عمر چوراسی برس تھی۔ وہی بات کہ ہم بوڑھے کب ہوتے ہیں۔ جس دن ڈاکٹر انوار احمد کینیڈا میں اپنی بیٹی کو بار بار یاد دہانی کراتے ہیں کہ میرے کالم کا لنک کاپی کر کے بھیجو میں نے فیس بک پر لگانا ہے۔