"RKC" (space) message & send to 7575

لاہور کا اولڈ پیپلز ہوم

بعض تحریریں ایسی ہوتی ہیں جو آپ کو اپنی قید میں کر لیتی ہیں۔ عرفان جاوید بھی ان لکھاریوں میں سے ایک ہیں جن کو پڑھ کر آپ پر کئی دن تک ان کی تحریروں کا نشہ طاری رہتا ہے۔ ان کی ایک نئی تحریر پڑھی تو بھارت کے ایک شہر کی تازہ وڈیو یاد آئی۔ دو خواتین اور ایک نوجوان کسی بوڑھی خاتون کو رکشے پر لاتے ہیں اور اسے سڑک کنارے چھوڑ کر نکل جاتے ہیں۔ انہیں علم نہ تھا کہ سی سی ٹی وی کیمرہ ریکارڈ کر رہا ہے۔ پہلے انہوں نے اس بوڑھی خاتون کو سڑک کنارے لٹایا اور پھر ایک خاتون نے چادر ڈال دی۔ چادر اس کے سر سے منہ تک تھی اور منہ بھی ڈھانپ دیا۔ وہ عورت چادر ڈال کر واپس جانے کو مڑی تو اسے خیال آیا کہ شاید اس بوڑھی خاتون کو سانس لینے میں کوئی مسئلہ ہو تو وہ لوٹی اور منہ سے چادر تھوڑی سی ہٹا دی۔ اب یہ نہیں پتہ کہ اس بوڑھی عورت کا ان سے کیا رشتہ تھا۔ کیا وہ لڑکے کی ماں تھی اور اب بیوی کے ساتھ گھر سے نکال کر سڑک کنارے ڈالنے آیا تھا۔ اگر وہ لڑکے کی ماں تھی تو پھر وہ دوسری خاتون کون تھی۔ یا یہ تینوں بہن بھائی تھے جو اپنی ماں کو مزید اپنے گھر رکھنے کو تیار نہ تھے؟ اس خاتون کو وہاں پڑے دیکھ کر کوئی سروس انہیں ہسپتال لے گئی اور وہ چل بسی۔ پتہ نہیں بیماری سے یا دکھ سے۔ پورے بھارت میں سوشل میڈیا پر رولا ہے کہ کبھی ہم اپنے بزرگوں‘ ماں باپ یا بڑوں کا اپنے گھر میں کتنا احترام اور خیال رکھتے تھے‘ آج کی نئی نسل صرف اپنے فوائد اور آرام کو دیکھتی ہے۔ جوں جوں اس خطے میں تعلیم عام ہوتی گئی تعلیم یافتہ جوڑوں کو اپنے والدین بوجھ لگنا شروع ہوئے۔ شادی سے پہلے ہی لڑکی والوں نے شرائط رکھ دینی ہوتی ہیں کہ ہماری بیٹی الگ گھر میں رہے گی۔ یہ الگ بات کہ وہ گھرانہ چاہتا ہے کہ اس کی بہو ان کے ساتھ رہے۔ اب کل کلاں اگر ان دو خواتین اور مرد کو ان کے بچے ان کے بڑھاپے میں بوجھ سمجھ کر سڑک کنارے چھوڑ جائیں اور منہ سے چادر ہٹانا نہ بھولیں تو کیا انہیں مظلوم سمجھا جائے گا یا پھر وہی کارما کا کرتب کہ جو آپ آج کریں گے وہی آپ کے ساتھ کل ہو گا؟ پچھلے ماہ بھارت میں ایک اور وڈیو بھی آئی تھی جس میں ایک نوجوان سکوٹر پر اپنے بوڑھے باپ اور ماں کو بٹھا کر ایک جگہ سڑک کنارے رکتا ہے۔ ماں باپ کو اتار کر ان کا سامان سائیڈ پر رکھ کر سکوٹر بھگا کر لے جاتا ہے۔ وہ منظر دل کو دہلا دیتا ہے جب وہ بوڑھے ماں باپ بے بس اپنے بیٹے کو سکوٹر بھگاتے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ آپ کا دل چھلنی ہو جاتا ہے۔ خیر عرفان جاوید نے لاہور کے ایک اولڈ ہوم پر لکھا ہے اور کیا شاندار لکھا ہے۔ شاید اب ہمارے معاشرے کو بھی جدید دور میں اولڈ ہوم درکار ہوں گے۔ عرفان جاوید لکھتے ہیں ''شمائل ہم چار بھائیوں میں سب سے چھوٹا اور میں سب سے بڑا ہوں۔ وہ حد درجہ حساس‘ نیک دل اور خیر خواہی کے جذبے سے معمورہے۔ جب ابھی وہ پرائمری کلاسوں میں پڑھ رہا تھا تو ایک روز ریاضی کے سوالوں کے حل نکالتے ہوئے وہ گہری سوچ میں گم ہو گیا۔ سب اہلِ خانہ ایک کمرے میں بیٹھے تھے۔ اُسے خیال میں ڈوبا دیکھ کر میری ماں نے اُس سے پوچھا کہ وہ کیا سوچ رہا ہے۔ وہ انتہائی معصومیت سے کچھ یوں بولا: ''امی جان میں بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ مجھے زندگی میں آپ کے اور ابو جان کے ساتھ دوسرے بھائیوں کی نسبت کم وقت گزارنے کا موقع ملے گا‘‘۔ ہمیں اس سے ایسے ذہین اور دل کو چھُو لینے والے نازک خیال کی توقع نہ تھی۔ میری ماں نے اُسے اپنے ساتھ لپٹا لیا اور اُس کا چہرہ چومتے ہوئے بولیں: ''بیٹا ہم آپ کو باقی سب سے اتنا زیادہ پیار دیں گے کہ ساری کسر نکل جائے گی‘‘۔ اور یہ شمائل ہی ہے جس نے چند برس قبل عید کے روز‘ عیدالفطر کے دن جب عید کی نماز اور قبرستانوں میں فاتحہ پڑھنے‘ اگر بتیاں سلگانے‘ گلاب کی پتیاں نچھاور کرنے کے بعد مرد‘ خواتین اور بچے زرق برق ملبوسات میں ایک دوسرے کے ہاں شیرینی کھانے بانٹنے جارہے تھے‘ مجھے کہا: ''بھائی جان عید کے دن نیک لوگ یتیم خانوں اور ہسپتالوں میں پیسے اور تحفے تحائف بانٹنے جاتے ہیں‘ اولڈ پیپلز ہوم شاید کوئی نہ جاتا ہو۔ کیوں نہ ہم چند تحائف لے کر اُدھر جائیں‘‘۔ میں نے اُس کی جانب دیکھا۔ اُس کی آنکھوں میں ہمدردی اور انسان نوازی کے جذبات موجزن تھے۔ معلوم کرنے پر لاہور چھاؤنی میں اپنے گھر کے قریب ایک اولڈ پیپلز ہوم کا معلوم ہوا۔ جب ہم اُس عمارت میں داخل ہوئے تو پتا لگا کہ کسی آدمی کی زندگی میں 'اُجاڑ پڑنا‘ کی معنویت کیا ہے۔ غالباً فیلڈ مارشل ایوب خان کے دورمیں سروس گروپ آف انڈسٹریز کے نیک دل لوگوں نے کئی کنال پر محیط اولڈ پیپلز ہوم قائم کیا تھا۔ لاہور ائیر پورٹ سے بھٹہ چوک کی جانب جاتے ہوئے یہ رستے میں پڑتا ہے۔ دہائیوں پہلے جب وہ عمارت قائم کی گئی تھی اور اُس کے سامنے اور پشت پر باغات سینچے گئے تھے تو یقینا وہ دیدہ زیب نظارہ دیتی ہو گی۔ تب بھی اُس کا ذمہ دار نگران اور چوکس عملہ اس امر کے غماز تھے کہ سروس گروپ کی بعد کی نسلوں نے بھی اس نیک کام کو قرینے سے سنبھال رکھا ہے۔ داخلی گیٹ سے ملحقہ باغیچے میں ایک چارپائی دھری تھی۔ جب ہم نے مہتمم سے پوچھا کہ باغیچے میں چارپائی کیوں رکھی ہے تو اُس نے بتایا کہ اُس چارپائی پر ایک میّت رکھی تھی۔ وہ میّت پنجاب یونیورسٹی کے انگریزی کے پروفیسر ارشد یا راشد کی تھی جو ہوم کی تنہائی میں وفات پا گئے تھے۔ مہتمم نے بتایا کہ عید کی وجہ سے قریبی مارکیٹیں بند تھیں‘ سو عملے کا ایک آدمی جنازے کے لیے لوگ اکٹھے کرنے نکلا ہوا تھا۔ معلوم ہوا کہ مرحوم ایک قابلِ قدر پروفیسر اور ثقہ دانشور تھے جنہوں نے شادی نہ کی تھی اور اپنی زندگی تعلیم و تدریس کے لیے وقف کردی تھی۔ دل دہلا دینے والا منظر تھا‘ عید کی صبح‘ اولڈ پیپلز ہوم کا باغیچہ اور تنہا میّت۔ ہوم کے رہائشیوں کے لیے کیرم بورڈ‘ ٹی وی اور دیگر دلچسپیوں کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اُس کے مرکزی کمرے میں چند بوڑھے ویران نظروں سے ادھر اُدھر دیکھ رہے تھے۔ خواتین کا وِنگ علیحدہ تھا۔ جب مختلف بزرگ خواتین سے ہوتے ہوئے ہم نے بالائی منزل کے ایک کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے ایک انتہا درجے کی گریس فُل بزرگ خاتون برآمد ہوئیں۔ انہوں نے ہمیں اور مہتمم کو استفسارانہ نظروں سے دیکھا۔ شمائل نے بہت احترام سے ایک تحفہ ان کے ہاتھوں میں تھما دیا۔ انہوں نے جس خاموشی سے دروازہ کھولا تھا‘ تحفہ تھام کر اُسی خاموشی سے دروازہ بھیڑ دیا۔ ''کتنی گریس فل عورت ہے‘‘۔ شمائل نے اتنا کہا تو مہتمم نے اس کی روداد ہمارے سامنے کھول کر رکھ دی۔ وہ غالباً جرمن نژاد پاکستانی خاتون تھی۔ اُس کی ماں جرمن تھی اور باپ پاکستانی۔ اُسے اپنے باپ سے عشق تھا۔ ماں کے مرنے کے بعد وہ اپنے باپ کی ماں‘ بہن اور بیٹی سب کچھ بن گئی۔ اُس سے بڑا ایک بھائی تھا جو شادی شدہ تھا اور ایک اہم عہدے پر فائز تھا۔ اُس کی رہائش قریب ہی ڈیفنس کے ایک بنگلے میں تھی اور وہ سال میں ایک آدھ مرتبہ بہن کو ملنے اولڈ پیپلز ہوم آجاتا تھا۔ اس خاتون نے اپنے باپ کی خاطر شادی نہ کی تھی۔ جب باپ بوڑھا ہو گیا تو وہ اپنے ہاتھوں سے لقمے بنا کر باپ کو کھلاتی تھی‘ اُس کا بول و براز صاف کرتی تھی اور اس کی دیکھ بھال میں کوئی کمی نہ آنے دیتی تھی۔ باپ کی وفات کے بعد وہ اکیلی رہ گئی اور لاہور میں سروس گروپ کا اولڈ پیپلز ہوم اُس کا مقدر ٹھہرا۔ مہتمم کی آنکھیں نم تھیں۔ ''کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ خاتون اپنا آدھا کھانا کھا کر بقیہ ٹرے میں رکھ کر لے آتی ہیں اور کہتی ہیں ''یہ پاپاکودے دیں‘ وہ بھوکے ہوں گے‘‘۔ ایسے میں یہ بھول جاتی ہیں کہ ان کے پاپا فوت ہو چکے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں