"RKC" (space) message & send to 7575

عمران خان امریکہ کا بندہ ہے؟

امریکہ سے دلچسپ خبر آئی ہے‘ جہاں سب سے بڑے اخبار‘ نیویارک ٹائمز میں فل پیج اشتہار چھپا ہے کہ عمران خان کو رہا کرو۔ چلیں‘ رہا کرنے کی باتیں تو سب کرتے ہیں۔ ماضی میں بہت سے کانگریس مین اور سینیٹر بھی ٹویٹس کرتے رہے ہیں‘ اب بھی کوئی نہ کوئی سینیٹر اُن پاکستانیوں کے کہنے پر ٹویٹ کر دیتا ہے جو اسے ڈونیشن دینا افورڈ کر سکتے ہیں۔ اگرچہ امریکہ میں پاکستانیوں نے بڑے عرصے سے مہم چلائی ہوئی ہے کہ خان کو رہا کرا لیں اور اس کام کے لیے وہ سمجھتے ہیں کہ امریکی صدر ہی کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اگرچہ جو بائیڈن سے لے کر اب ٹرمپ تک ان کی کوششیں کامیاب نہیں ہوئیں لیکن ہمت انہوں نے نہیں ہاری اور ہر دفعہ وہ کوئی نہ کوئی نئی کوشش کرتے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے امریکی کانگریس سے قرارداد تک منظور کرا ئی تھی اور کانگریس کمیٹیوں کی سماعت بھی ہوئی بلکہ امریکی سفارتکار ڈونلڈ لُو کو کمیٹی کے سامنے پیش ہونا پڑا تھا لیکن ان اقدامات کے باوجود خان صاحب کو جیل میں دو سال ہو گئے ہیں۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر امریکہ گئے تو ان افراد نے مظاہرے بھی کیے لیکن بات بنی نہیں۔ اب وہاں اخبار میں اشتہار دینے کی دلچسپ کہانی ہے۔
بتایا گیا ہے کہ اس اشتہار پر تقریباً دو لاکھ ڈالرز کا خرچہ آیا‘ جو پاکستانی تقریباً پانچ‘ چھ کروڑ روپے بنتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہم پاکستانیوں کو ایک دن کی ایکٹویٹی کیلئے دو لاکھ ڈالرز بہت بڑی رقم لگتی ہو لیکن امریکہ سے ہمارے صحافی دوست انور اقبال بتا رہے تھے کہ امریکہ میں جو پاکستانی عمران خان کی رہائی کی مہم چلا رہے ہیں ان کیلئے یہ معمولی رقم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں دس ہزار کے قریب پاکستانی ڈاکٹرز ہیں جن میں سے کئی تو ایک دن کے پندرہ ہزار ڈالرز تک کما لیتے ہیں۔ ان سب کیلئے ہزار‘ دو ہزار ڈالرز کا چندہ اکٹھا کر کے اخبار میں اشتہار لگوانا یا کانگریس مین اور سینیٹرز کو عطیات دینا کون سا بڑا مسئلہ ہے۔ انور اقبال کا کہنا تھا کہ یہاں تو کوئی بھی امریکن پاکستانی کسی سینیٹر کو اپنے گھر بلا کر اس کے ساتھ چند تصویریں کھنچوا کر دو لاکھ ڈالرز کا عطیہ دے دیتا ہے۔ چلیں یہ بات تو طے ہوئی کہ پاکستانیوں نے چندہ اکٹھا کر کے اشتہار دیا۔ اس اشتہار میں ایک طویل چارج شیٹ جاری کی گئی اور پاکستانی حکومت اور مقتدرہ کے خلاف پوائنٹس دیے گئے ہیں۔ زیادہ تر اس اشتہار میں وہی باتیں تھیں جو عمران خان جیل میں میڈیا یا اپنے پارٹی لیڈروں سے کرتے رہتے ہیں۔ البتہ اس اشتہار میں کچھ نیا تھا تو وہ اور قسم کی باتیں تھیں‘ ایک تو پہلی دفعہ کسی پاکستانی وزیراعظم کی تصویر اشتہار کی شکل میں نیویارک ٹائمز میں چھپی ہے‘ خصوصاً جب وہ جیل میں ہے اور اس کی رہائی کیلئے اشتہار چھپا ہے۔ امریکی عوام کو بتایا گیا ہے کہ عمران خان کے ساتھ کیا ظلم و زیادتی ہو رہی ہے۔ تاہم اس پورے اشتہار میں ایک چیز ایسی ہے جو آپ کو حیران کر دیتی ہے اور میں خود اس پر شدید حیران ہوا ہوں کہ واقعی اس اشتہار کی منظوری عمران خان نے دی تھی یا جس کسی نے بھی اس اشتہار کے متن کی منظوری دی‘ اس نے وہ چند سطریں اپنی طرف سے جان بوجھ کر اس میں شامل کر دی تھیں۔ اشتہار میں صدر ٹرمپ‘ امریکی انتظامیہ‘ کانگریس مین‘ سینیٹرز‘ میڈیا اور امریکی عوام کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ عمران خان جب وزیراعظم تھے تو وہ امریکی مفادات کا خیال؍ تحفظ کر رہے تھے یا ان مفادات کو لے کر چل رہے تھے۔ وہ امریکی مفاد کیلئے علاقائی سکیورٹی میں بھی فائدہ دے رہے تھے۔ آپ اس لائن پر حیرانی سے رک جاتے ہیں کہ یہ کیا لکھا ہے۔ بھلا عمران خان کب امریکی مفادات کا تحفظ کر رہے تھے؟ عمران خان نے تو اپنے بارے میں برسوں سے یہ تاثر بنا رکھا ہے کہ وہ امریکہ کے مخالف ہیں اور انہوں نے کبھی اپنے نظریات کو نہیں چھپایابلکہ انہوں نے پختونوں میں اسی بنیاد پر اپنا ووٹ بینک بنایا اور عوام کو یہی تاثر دیا کہ وہی امریکہ مخالف ہیں اور باقی سب امریکی پٹھو ہیں۔ وہ ایک آزاد منش انسان ہیں جو کسی سپر پاور سے نہیں صرف اللہ سے ڈرتے اور اسی سے مدد مانگتے ہیں۔ اب امریکہ میں چھپنے والے اشتہار میں امریکیوں کو بتایا جا رہا ہے کہ عمران خان تو امریکی مفادات کا تحفظ کر رہا تھا اور یہ سب کچھ امریکی صدر اور امریکی عوام کو مخاطب کر کے لکھا گیا ہے۔ یہ سب کچھ پڑھ کر آپ کا دماغ چکرا جاتا ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ خان صاحب تو مسلسل امریکہ کی مخالفت کا دعویٰ کرتے رہے لیکن اب پتا چل رہا ہے کہ نہیں‘ خان صاحب تو امریکی مفادات کا تحفظ کر رہے تھے۔
یہ اشتہار پی ٹی آئی کی طرف سے نہیں دیا گیا لہٰذا انہیں شک کا فائدہ دیا جا سکتا ہے کہ ان کا اس معاملے سے کچھ لینا دینا نہیں۔ یہ جو کچھ لکھا گیا ہے اس کا ان سے تعلق نہیں‘ لیکن اگر ایسی بات ہے تو پھر پی ٹی آئی پاکستان یا پی ٹی آئی امریکہ نے اس اشتہار سے لاتعلقی کا اظہار کیوں نہیں کیا؟ اس سے ان کے مخالف یہی سمجھیں گے کہ پی ٹی آئی نے پیچھے بیٹھ کر اس اشتہار کو اون کیا ہے اور نہ ہی ڈِس اون کیا ہے۔ لگتا ہے اس اشتہار کے ذریعے ایک تیر سے کئی شکار کیے گئے ہیں۔ ایک طرف امریکی صدر اور عوام کو یقین دلایا گیا ہے کہ عمران خان ان کا اپنا بندہ ہے‘ اس نے ہمیشہ امریکی مفادات کا خیال رکھا اور اسے ناحق جیل میں رکھا ہوا ہے۔ اگر اس بات پر تنقید ہو تو پی ٹی آئی کہہ دے گی کہ اس نے اشتہار نہیں دیا۔ تو کیا امریکی اور پاکستانی عوام اب یہ سمجھیں کہ عمران خان کا اسامہ بن لادن کو بطور وزیراعظم پاکستان قومی اسمبلی میں ' شہید‘ کہنا امریکی مفادات کا حصہ تھا؟ طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد عمران خان کا طالبان کو امریکی فوجوں کو شکست دینے پر مبارکباد دینا اور یہ کہنا کہ انہوں نے غیر ملکی غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالی ہیں‘ کیا یہ بھی امریکی مفادات میں تھا؟کیا طالبان کی فتح کے بعد امریکی اخبار میں عمران خان کے نام سے ایک مضمون چھپنا بھی امریکی مفادات کے ساتھ جڑا ہوا تھا جس میں انہوں نے امریکی انتظامیہ اور دیگر اداروں کی افغان پالیسی کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے لکھا تھا کہ امریکیوں کو افغانستان کا کچھ بھی علم نہیں‘ عمران خان کو سب پتا ہے۔ تو کیا یہ سب کچھ امریکہ کے کہنے پر لکھا گیا تھا یا پھر وزیراعظم بننے سے پہلے ڈرون حملوں کے خلاف عمران خان کی جارحانہ مہم بھی ٹوپی ڈرامہ تھا اور امریکی چاہتے تھے کہ عمران خان ان کے خلاف جلسے جلوس نکالیں اور اپنا نام بنائیں کیونکہ یہی امریکی مفادات تھے؟
دیکھا جائے تو بھٹو سے لے کر عمران خان تک اینٹی امریکہ سیاست ہی ہوتی رہی ہے۔ امریکہ میں لکھی گئی کتابوں میں بھٹو صاحب کے بارے بھی یہی آیا ہے کہ انہیں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد پاکستان کا اقتدار سونپنے میں امریکہ کا ہاتھ تھا۔ ہاتھ کیا تھاوہ تو امریکی حکام خصوصاً ہنری کسنجر سے مل کر آئے تھے اور امریکیوں کی جانب سے جنرل یحییٰ خان کو کہا گیا تھا کہ اب وہ بھٹو کو موقع دیں۔ بقول بروس ریڈل‘ جنہوں نے کلاسیفائیڈ دستاویزات کی مدد سے معتدد کتابیں لکھی ہیں‘ بھٹو نے ان ملاقاتوں میں امریکہ کو گوادر دینے تک کی پیشکش کی تھی‘ لیکن امریکہ نے دلچسپی نہ دکھائی۔ وہی بھٹو جو امریکہ کی مدد سے اقتدار میں آئے تھے‘ چند سالوں بعد امریکہ کے دشمن ہو گئے اور یہ کہتے سنے گئے کہ امریکی انہیں مروانا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف عمران خان جو بھٹو کی طرح اینٹی امریکن کے طور پر ابھرے‘ اب ان کے حامی امریکی اخبار میں دو لاکھ ڈالرز دے کر پورے صفحے کا ا شتہار چھپوا رہے ہیں کہ خان تو امریکہ کا اپنا بندہ ہے۔ وہ وزیراعظم بن کر امریکی مفادات کا خیال کر رہا تھا۔ انقلابات ہیں زمانے کے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں