"RKC" (space) message & send to 7575

چند متاثر کن ممبرانِ پارلیمنٹ

قومی اسمبلی میں بدھ کے روز بڑی اہم بحث ہو رہی تھی۔ نفیسہ شاہ اور سید نوید قمر نے نوجوان وزیر علی پرویز ملک سے کچھ مشکل سوالات کر ڈالے تھے۔ یہ سوالات صدر ٹرمپ کے ٹویٹس کے بارے میں تھے‘ جو انہوں نے پاکستان اور امریکہ کے تجارتی معاہدے اور پاکستان میں تیل کے ذخائر سے متعلق کیے تھے کہ پاکستان شاید اتنا زیادہ تیل پیدا کر سکتا ہے کہ ایک دن بھارت بھی اس سے تیل خریدے گا۔ نفیسہ شاہ پوچھنا چاہ رہی تھیں کہ جن تیل ذخائر کا پاکستانیوں کو علم نہیں‘ امریکی صدر کو ان کا کیسے علم ہو گیا‘ اور وہ ذخائر کہاں ہیں۔ ایک ایم این اے کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ نے جو یہ کہا ہے کہ پاکستان ہر سال امریکہ سے ایک ملین بیرل تیل امپورٹ کرے گا‘ ہزاروں میل دور سے تیل منگوانے پر جو خرچہ آئے گا اس کے بعد یہ تیل بہت مہنگا ہو گا۔ بلاشبہ بہت مناسب لیکن مشکل سوالات پوچھے گئے لیکن مجھے نوجوان وزیر علی پرویز ملک کو داد دینے دیں جنہوں نے ان سوالوں کے بڑے بہترین جواب دیے اور بڑی حد تک سب کو مطمئن کیا۔
کچھ عرصہ پہلے تک میرا خیال تھا کہ ہمارے نوجوان سیاستدان شاید اتنے ذمہ دار اور قابل نہیں ہوں گے لیکن چند پارلیمنٹرینز اور نوجوان وزیروں کی گفتگو سن کر میں متاثر ہوا ہوں۔ موجودہ پارلیمنٹ میں جن چند ناموں نے مجھے اپنے علم اور موضوع پر گرفت سے متاثر کیا ہے‘ ان میں علی پرویز ملک‘ بلال اظہر کیانی اور مخدوم سید مصطفی محمود شامل ہیں۔ یہ وہ نوجوان ایم این ایز ہیں جن کو میں نے ہاؤس یا قائمہ کمیٹیوں میں ہمیشہ بڑی تیاری کے ساتھ شریک ہوتے دیکھا۔ مخدوم سید مصطفی کو میں نہیں جانتا تھا۔ وہ ایک کمیٹی اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ اُس نوجوان نے جس طرح وہ اجلاس چلایا اور وزارت کے سینئر افسران کو لاجواب کیا‘ وہ میرے لیے خوشگوار حیرت کا باعث تھا۔ اکثر بیوروکریٹس ان سیاستدانوں کو بڑے آرام سے چونا لگا جاتے ہیں لیکن اس نوجوان نے انہیں اپنے سوالات اور اس موضوع کے بارے علم سے باندھ کر رکھ دیا۔ میں نے کسی سے پوچھا کہ یہ نوجوان ایم این اے کون ہے؟ پتا چلا کہ وہ سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود کا بیٹا ہے‘ اور فارن کوالیفائیڈ ہے۔ اس طرح بلال اظہر کیانی کو فنانس کمیٹی کے اجلاسوں میں دیکھا تو انہیں بھی ہر بات اور سوال کے جواب کیلئے تیار پایا۔ مجال ہے کہ کسی سینیٹر‘ ایم این ایز یا پھر چیمبر کے ممبر نے کوئی سوال کیا ہو اور بلال اظہر کیانی کے پاس اس کا منطقی یا مناسب جواب موجود نہ ہو۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ وہ انتہائی قابلِ احترام ہارٹ سپیشلسٹ جنرل اظہر کیانی کے بیٹے ہیں۔ جنرل اظہر کیانی ماضی میں سابق وزرائے اعظم کے فزیشن رہ چکے ہیں اور اس کے علاوہ وہ آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (AFIC) اور پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی راولپنڈی کے سربراہ بھی رہے ‘ اور ان اداروں کو بڑے مقام پر لے گئے۔ ڈاکٹر جنرل اظہر کیانی کے بیٹے کی کمیٹی اجلاسوں میں وزیر کے طور پر قابلیت دیکھ کر خوشی ہوئی کہ نوجوان نے اپنے باپ کی عزت میں اضافہ کیا ہے‘ کمی نہیں کی۔ ورنہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بڑے لوگوں کی اولاد والدین کی عزت سے زیادہ بدنامی کا سبب بنتی ہے۔
دیگر جماعتوں میں بھی نوجوان پارلیمنٹرینز ہیں جن کی قابلیت کبھی کبھی ابھر کر سامنے آ جاتی ہے۔ دانیال عزیز بھی کبھی اجلاسوں میں پوری تیاری اور گھن گھرج کے ساتھ آتے تھے۔ دانیال عزیز سے لوگوں کو بہت اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن میں جن چند لوگوں کی ذہانت اور قابلیت سے متاثر ہوں ان میں دانیال عزیز چودھری بھی شامل ہیں۔ وہ ایک بڑے بندے انور عزیز چودھری کے بیٹے ہیں جو اپنی کلاس کی الگ شخصیت تھے جنہوں نے بڑے بڑے لوگوں کو متاثر کیا۔ دانیال عزیز کی سیاسی باتوں پر اعتراضات اپنی جگہ لیکن جب وہ ٹھنڈے دماغ سے گفتگو کر رہے ہوں تو ان جیسی گفتگو بہت کم لوگ کر سکتے ہیں۔ اگر خواتین پارلیمنٹرینز میں سے کسی کا نام لینا ہو تو میں مولانا فضل الرحمن کی پارٹی کی عالیہ کامران کا نام لوں گا۔ وہ پردہ دار نوجوان خاتون ہاؤس کے اندر وقفہ سوالات یا توجہ دلاؤ نوٹس یا پھر آئینی بلز پر کیا کمال گفتگو کرتی ہیں۔ وہ پوری تیاری کے ساتھ ہاؤس میں موجود ہوتی ہیں۔ ان کے پاس دلائل کے انبار ہوتے ہیں جنہیں رد کرنا آسان نہیں ہوتا۔ وہ جس طرح بلوچستان اور دیگر مسائل پر بات کرتی ہیں‘ وہ قابلِ داد ہے۔ عالیہ کامران صاحبہ ان چند ایم این ایز میں سے ہیں جو ہاؤس میں ریگولر موجود ہوتے اور اپنی تنخواہ اور مراعات کو حلال کرتے ہیں۔ اس ہاؤس میں نوے سے زیادہ خواتین پارلیمنٹرینز ہیں لیکن بہت چند ہیں جو واقعی پارلیمنٹ کے ممبر ہونے کا حق ادا کررہی ہیں یا جنہیں لگتا ہے کہ ہمیں اپنا چوائس درست ثابت کرنا ہے۔ ان میں ایک اور نام شرمیلا فاروقی صاحبہ کا ہے جو بہت متحرک ہیں۔ چاہے کمیٹی اجلاس ہوں یا پھر قومی اسمبلی کا اجلاس‘ وہ بہت جوش سے اس میں حصہ بھی لیتی ہیں اور اپنے مؤقف کے حق میں دلائل بھی بہت اچھے دیتی ہیں۔ وقفہ سوالات میں ان کے سوال بہت اہم ہوتے ہیں اور وہ بھی ہاؤس میں ریگولر موجود ہوتی ہیں۔ وزیروں کے ساتھ ان کے سینگ بھی اَڑ جاتے ہیں۔ سینگ تو ان کے کمیٹی اجلاس میں اپنی پارٹی کے ممبران سے بھی ٹکرا جاتے ہیں‘ جیسے پچھلے ہفتے داخلہ کی کمیٹی کے اجلاس میں شرمیلا فاروقی کی پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اور ایم این اے عبدالقادر پٹیل سے تلخی کی حد تک بحث ہوگئی۔ یہ بحث دراصل کراچی میں بڑھتے ٹریفک حادثات اور ان حادثات کے نتیجے میں ڈمپر ڈرائیورز کی لاپروائی سے ہونے والی اموات کے حوالے سے بل میں ترمیم کے بارے تھی۔ شرمیلا فاروقی صاحبہ ان حادثوں کے ذمہ دار ڈرائیورز کی غفلت کو ناقابلِ ضمانت جرم بنوانے کے حق میں تھیں۔ ایم این اے قادر پٹیل کے پاس بھی ان تجاویز کی مخالفت کرنے کی بہت اہم وجوہات تھیں اور پٹیل صاحب نے بھی بہت خوبصورت گفتگو کی۔ اس اہم ایشو پر ان دونوں کی بحث اور دلائل سن کر بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ نبیل گبول بھی کمیٹی اجلاسوں اور سیشن میں بہت اہم ایشوز اٹھاتے ہیں۔
سینیٹ کی بات کریں تو وہاں سینیٹر انوشہ رحمن ہیں۔ جتنی تیاری کے ساتھ وہ اجلاسوں میں آتی ہیں‘ خصوصاً سینیٹ کی فنانس کمیٹی کے اجلاسوں میں‘ جہاں ان کا میچ فنانس یا ایف بی آر کے افسران سے پڑتا ہے۔ پچھلے دنوں بجٹ کے موقع پر ہونے والے کمیٹی اجلاسوں میں انوشہ رحمن کی کارگردگی اور گفتگو واقعی کمال تھی۔ اس طرح سینیٹر شیری رحمن بھی بہت متحرک ہیں۔ وہ بہت اہم مسائل اجاگر کرتی ہیں‘ جن پر دیگر لوگ بات کرنا شاید اپنی توہین سمجھتے ہوں‘ خصوصاً انسانی حقوق کی خلاف وزریوں‘ خواتین کے خلاف تشدد‘ آنر کلنگ کے واقعات کے خلاف ان کی آواز اور کوشش بہت مؤثر ہے۔ وہ پورے قد کے ساتھ ہاؤس میں کھڑی ہو کر بات کرتی ہیں۔ اس طرح سینیٹ میں کبھی عائشہ فاروق نے بھی اپنی قابلیت سے عزت کمائی تھی۔ وہ ایک نجی یونیورسٹی میں پڑھاتی تھیں اور جب وہ فنانس کمیٹی کے اجلاسوں میں بات کرتی تھیں تو لگتا تھا کہ واقعی ایک قابل اور پڑھا لکھا انسان گفتگو کر رہا ہے۔ میں سابق سینیٹر صغریٰ امام کو بھی نہیں بھول سکتا‘ جو سینیٹ میں چھ سال رہیں اور اپنا انتخاب اور تنخواہ حلال کی۔ ان کے پاس علم بھی تھا اور وہ اپنے علم کو استعمال کرنا بھی جانتی تھیں۔ رہی بات ہمارے علاقے کی حنا ربانی کھر صاحبہ کی تو مجھے اب یہ بھی یاد نہیں کہ آخری دفعہ انہیں کب اسمبلی یا کسی کمیٹی کے اجلاس میں دیکھا تھا حالانکہ ان کی قابلیت پر کوئی شک نہیں لیکن جہاں قابلیت دکھانی ہو‘ وہاں آپ موجود ہی نہ ہوں تو پھر وہی بات کہ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں