"RKC" (space) message & send to 7575

زیلنسکی کے کارنامے

انسانی تاریخ میں جتنی جنگیں اور قتل و غارت پاپولسٹ لیڈر شپ نے کرائی ہے‘ اتنی کوئی سیاستدان‘ مذہبی رہنما یا قوم پرست بھی نہ کرا سکا ہو گا۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ سیاستدان‘ مذہبی رہنما یا قوم پرست جنگوں سے دور رہتے ہیں یا انہوں نے جنگیں نہیں کرائیں‘ یقینا کرائی ہیں‘ لیکن پاپولسٹ لیڈر اس میں زیادہ حصہ ڈالتے ہیں۔یہ پرانا انسانی کھیل ہے جو ہر دور میں نئے چہروں کے ساتھ کھیلا جاتا رہاہے۔ اب آپ کہیں گے کہ ہر دور میں یہ سب ہوتا چلا آیا ہے تو پھر عوام کیوں ان لوگوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں‘ جبکہ انہیں علم ہے کہ یہ لوگ عوام کو مروا دیتے ہیں۔ یہی ان کا شغل اور یہی کھیل ہے۔ وہ تو اپنے خونیں کھیل سے باز نہیں آئیں گے لیکن عوام کو ان سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ لیکن یہ ہر ایک کے بس میں نہیں ہوتا کہ وہ ان چالاک اور چرب زبان لوگوں سے خود کو بچا سکے۔ یہ پاپولسٹ لیڈر لوگوں کو بانس پر اتنا اونچا چڑھا دیتے ہیں کہ وہ پھر وہاں سے نیچے نہیں آتے بلکہ سیدھے اوپر ہی جاتے ہیں۔
انسانی تاریخ ایسے کرداروں سے بھری ہوئی ہے جنہیں انسانی سروں کی کمی کبھی محسوس نہ ہوئی اور جو اس بانس پر چڑھتے گئے وہ یہ سوچ کر مرتے گئے کہ وہ اپنی قوم ‘ وطن یا مذہب کیلئے دوسروں کی جان لے رہے تھے اور اپنی جان دے رہے تھے۔ یہ کردار ہر دور میں اس لیے بڑے پیمانے پر لوگوں کو گھیر کر اپنے پیچھے لگا لیتے ہیں کہ لوگوں کی اکثریت تاریخ نہیں پڑھتی کہ پہلے زمانوں میں اس طرح کے خطرناک کردار اپنی عظمت کے چکر میں کیسا گھناؤنا کھیل کھیلتے رہے ہیں۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے تو اس کے پیچھے چند وجوہات ہوتی ہیں جن میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے سے پہلے زمانوں کے معاشروں کی بربادی کے قصے نہیں پڑھتے۔ ہم صرف اپنے دور میں زندہ رہتے ہیں۔ اپنے سے پہلے کی دنیا کو نہ جانتے ہیں اور نہ اس کے اپنی زندگی میں اثرات محسوس کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ خود کو دہراتی رہتی ہے۔ کیا روس یوکرین جنگ سے پہلے یورپ کو علم نہیں تھا کہ ان کی اپنی تاریخ میں جان آف آرک کی طرح کے کردار گزرے ہیں جنہوں نے اپنی قوموں کو اپنے خواب سنا سنا کر لاکھوں افراد جنگوں میں مروا دیے۔ یہ دوسری عالمی جنگ سے ایک ہزار سال پہلے کے کردار تھے لیکن پھر بھی لوگ ہٹلر کے پیچھے لگ گئے کہ ہم جرمن عظیم قوم اور نسل ہیں اور دوسروں سے برتر ہیں۔ یہی جنون فرانس پر سوار ہوا جب نپولین نے بادشاہ بن کر سوچا کہ یہ کافی نہیں ہے۔ اسے شہنشاہ بننا چاہیے جو پورے یورپ کو آزاد کرائے۔ فرانس نپولین کیلئے چھوٹا پڑ گیا تو وہ روس میں گھسا اور پھر انگلینڈ فتح کرنے واٹر لُو تک پہنچ گیا اور آخر گرفتار ہو کر ایک جزیرے پر تنہا مرا۔ اس کے آخری سالوں کا احوال ایک نئی کتاب میں پڑھیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ ایک دور تھا جب پورا یورپ اس ایک جنرل سے ڈرتا تھا اور پھر وہ دور بھی آیا جب وہ ایک قیدی تھا اور اپنے بستر سے بغیر سہارے اٹھ نہیں سکتا تھا۔ لیکن تب بھی وہ خود کو شہنشاہ سمجھتا تھا اور وہی استحقاق مانگتا تھا۔ انسان کب سیکھتا ہے؟ سیکھتا ہوتا تو یوکرین کا زیلنسکی صرف اَسّی سال پہلے کے جاپان سے نہ سیکھ لیتا اور روس کے ساتھ ٹکراؤ سے گریز کرتا۔ جاپان بھی اس ٹرانس میں تھا جس میں تین سال پہلے زیلنسکی اور یوکرین تھا کہ ہم کسی کے غلام تھوڑی ہیں۔ ہم روس سے ٹکرا جائیں گے۔ جاپان بھی دوسری عالمی جنگ میں اس سوچ کا شکار ہوا کہ ہم امریکہ تک کو ٹکر دے سکتے ہیں۔پھر ان جاپانیوں نے اپنے بادشاہ؍ وزیراعظم کے حکم پر امریکی اڈے پرل ہاربر پر حملے کیے اور تین ہزار امریکی مار ڈالے۔ جواباً امریکہ نے جاپان پر دو ایٹم بم مارے اور لاکھوں لوگ مارے گئے۔ آٹھ دہائیوں بعد بھی جاپان ان اثرات سے نہیں نکل سکا۔ ایسی ہزاروں مثالیں دی جا سکتی ہیں جب چند چرب زبان لوگوں نے بانس پر چڑھا کر اپنی قوم اور ملک کو مروا دیا‘ محض ذاتی اَنا اور خود کو قوم کا عظیم رہنما اور لیڈر بنانے کے لیے۔
آپ میں سے اکثر یہ کہیں گے کہ آپ قوموں اور ملکوں کو بزدلی سکھا رہے ہیں‘ کیا یوکرین کو روس کے سامنے مزاحمت نہیں کرنی چاہیے تھی‘ کیا وہ غلامی قبول کر لیتا؟ ایسی بات نہیں ہے! میرے خیال میں یوکرین کو روس کے ساتھ جنگ سے بچنا چاہیے تھا‘ اور وہ بچ سکتا تھا۔ دی آرٹ آف وار کا مصنف اور مشہور چینی فلاسفر Sun Tzu لکھتا ہے کہ بہادر جنرل وہ ہے جو جنگ سے بچتا ہے۔ وہ بہادر نہیں جو جنگ لڑتا ہے۔ اس میں عقل والوں کے لیے کئی نشانیاں ہیں۔
یوکرین کو چھوڑیں‘ ذرا اپنے ہمسائے میں وزیراعظم مودی کو ہی دیکھ لیں۔ سات مئی کی جنگ سے پہلے کا بھارت اور آج کا بھارت دیکھ لیں۔ سات مئی سے پہلے پوری دنیا میں بھارت کا رعب و دبدبہ تھا‘ ٹہکا تھا‘ عزت تھی۔ آج پوری دنیا بھارت پر ہنس رہی ہے۔ مودی نے ایک ایسی جنگ چھیڑ لی جس کی ضرورت نہ تھی۔ شایداس لیے چینی فلاسفر نے کہا تھا کہ جنگ نہ لڑنے والا بہادر ہوتا ہے کہ نہ صرف وہ اپنی قوم اور ملک کو تباہی سے بچاتا ہے بلکہ اس کی قوم اور فوج کا ایک بھرم بھی قائم رہتا ہے۔ بھارتی فوج کا بھی ایک بھرم تھا لیکن مودی نے اپنے تکبر‘ احساسِ برتری اور پاپولسٹ سوچ کے زیر اثر ایک فیصلے سے خود کو زیرو کر لیا۔ پاپولسٹ لیڈر کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ اسے ہر وقت اپنی عظمت اور شان کی فکر ہوتی ہے۔ اس کے فالوورز اسے انسان نہیں بھگوان سمجھ کر پوجا کریں اور وہ روز ایسے کارنامے سرانجام دے کہ سب واہ واہ‘ بلّے بلّے کریں‘ چاہے اس واہ واہ کے چکر میں پاکستان سے جنگ لڑنی پڑے یا روس سے ٹکرانا پڑے۔
یوکرین میں سب کو علم تھا کہ روس اسے نیٹو کا ممبر نہیں بننے دے گا۔ چند ذہین امریکی بھی اپنے کالموں میں یہی بات یوکرین کو سمجھا رہے تھے کہ تم لوگ امریکہ اور یورپ کی کہانیوں میں نہ آنا‘ روس کبھی برداشت نہیں کرے گا کہ یوکرین میں امریکی‘ جرمن یا فرانسیسی میزائل فٹ ہوں جن کا رخ روس کی طرف ہو‘ لہٰذا اس خطرناک کھیل سے دور رہو۔ لیکن کیا کریں کہ یوکرینی کامیڈین نیا نیا صدر بنا تھا۔ عوام میں بہت مقبول بھی تھا تو اس نے نعرہ مارا کہ ہم روس کے غلام تھوڑی ہیں‘ ہم نیٹو میں شامل ہوں گے۔ روس روک کر دکھائے۔ آج تین سال بعد یہ حالت ہے کہ یوکرین کے بڑے حصے پر روسی افواج کا قبضہ ہے۔ 18ہزار یوکرینی فوجی اور سویلین مارے گئے ہیں۔ فصلیں‘ کھیت‘ عمارتیں اور شہر تباہ ہو گئے ہیں۔ وہی زیلنسکی جو روس کے پوتن کو سبق سکھانے کے خواب دیکھ رہا تھا‘ آج یورپ کے لیڈروں کے ساتھ وائٹ ہاوس میں بیٹھا سیز فائر اور امریکی سکیورٹی کی گارنٹی کی بھیک مانگ رہا ہے۔ یہ انجام ہوتا ہے ان لیڈروں کا جو عوام کو بانس پر چڑھا دیتے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہ تھا کہ یوکرین روس کے ساتھ تعلقات بہتر رکھتا اور نیٹو کے چکر میں نہ پڑتا۔ نیٹو اور امریکہ نے ایک بھی فوجی یوکرین میں روس کے خلاف لڑنے نہیں بھیجا‘ صرف اسلحہ دیا جیسے افغانستان میں افغانوں کو دیا تھا۔ یورپ اور امریکہ کو 45سال بعد ایک نئے افغانستان کی ضرورت تھی تاکہ روس کی ابھرتی ہوئی طاقت کو کچلا جا سکے‘ لیکن الٹا یوکرین اور یورپ کچلا گیا ہے۔ کیا عبرتناک منظر تھا۔ یورپین لیڈر‘ جنہوں نے زیلنسکی کو بانس پر چڑھایا تھا‘ وہ امریکی صدر کے دفتر کے باہر کورویڈو میں انتظار کر رہے تھے کہ اندر ٹرمپ اور پوتن کی فون کال کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ یہ ہوتا ہے پاپولسٹ لیڈروں کے خطرناک کھیل کا نتیجہ‘ جو نعرے مار کر مقبول ہو جاتے ہیں کہ ہم غلام تھوڑی ہیں اور پھر پوری قوم کو مودی اور زیلنسکی کی طرح سرعام شرمندہ کراتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں