"RKC" (space) message & send to 7575

کتنا پیسہ ہے ہمارے پاس

کچھ سال پہلے پاکستان نے سالانہ بجٹ میں سے 3200 ارب کُل قرضوں کے سود کی مد میں ادا کرنا تھے۔ اس سے تھوڑا سا مزید پیچھے جائیں تو 1200 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ اس سال بجٹ میں آٹھ ہزار ارب روپے سود کی ادائیگی کی مد میں رکھے گئے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ چند سالوں میں قرض لینے کی رفتار خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ آدھے سے زیادہ بجٹ ان قرضوں کے سود پر لگ رہا ہے۔ ان حالات میں آپ کیا توقع رکھتے ہیں کہ ملکی ترقی کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا۔ ہو سکتا ہے کہ بہت سے لوگ کہیں کہ یہ قرضے ملکی ترقی کے لیے تھے۔ اب یہ نہیں پتا کہ پھر وہ قرضے خرچ کہاں ہوئے۔ پچھلے چند برس میں تو کوئی بڑا پروجیکٹ بھی نظر نہیں آیا۔ نئے موٹر ویز یا ایئرپورٹ بن رہے ہوں تو سمجھ میں آتا ہے۔ ایئرپورٹ نئے بننا چھوڑیں‘ اب تو پرانے بھی بند ہو رہے ہیں۔ بلکہ جہاز تک نہیں ہیں۔ یہی حال موٹر ویز کا ہے۔ پھر بینکوں سے قرض لے کر تنخواہیں دی جارہی ہیں۔ ایک طرف قرض کی یہ حالت ہے کہ آٹھ ہزار ارب روپے سود کی مد میں ادا کرنے ہیں اور دوسری طرف جو لُٹ مچی ہوئی ہے اس کا کوئی حساب نہیں۔ پہلے وزیراعظم شہباز شریف نے اپنی کابینہ کے ارکان کی تعداد بڑھائی۔ نئے نئے وزیر اور مشیر رکھ لیے۔ پھر ان سب کی مراعات اور تنخواہیں بڑھائی گئیں۔ اور تو اور قومی اسمبلی کے ارکان نے بھی اپنی تنخواہیں خود ہی چھ‘ سات لاکھ روپے کر لیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پھر بھی یہ ممبران ہائوس میں موجود نہیں ہوتے اور تقریباً ہر روز ایوان میں یہ آواز ضرور گونجتی ہے کہ کورم پورا نہیں ہے۔ مطلب تین سو چالیس ایم این ایز میں سے ایوان میں ایک وقت میں 80 کے قریب ممبران بھی نہیں ہوتے۔ ان کے خوب مزے ہیں! تنخواہ پورے ماہ کی ملتی ہے‘ اس کے ساتھ سرکاری پاسپورٹس پر فیملی ممبران کے ساتھ دنیا کے ساٹھ‘ ستر ممالک میں ویزہ فری انٹری ہے۔ باقی مراعات گنوائوں تو پورا کالم اسی میں ختم ہو جائے۔ لیکن ایوان کے اندر سو سے زیادہ ممبران نہیں ہوتے۔ اپوزیشن ارکان کو تو ان برسوں میں اسمبلی کے اندر نعرے بازی‘ شور شرابہ کر کے بائیکاٹ کر کے نکلتے ہی دیکھا ہے‘ لیکن تنخواہ وہ بھی پورے ماہ کی لیتے ہیں۔ میں اکثر ارکان کو دیکھ کر حیران ہوتا ہوں کہ کیا یہ لوگ اپنے گھریلو ملازمین یا کاروبار اور فیکٹری میں یہی سہولت اپنے ورکرز کو بھی دیں گے ؟ میں کم از کم 2002ء کی اسمبلی سے یہی کچھ ہوتا دیکھ رہا ہوں۔ کبھی نواز شریف‘ کبھی آصف زرداری تو کبھی عمران خان کی جماعت کے ایم این ایز ہائوس کے اندر کرپشن مقدمات پر رولا ڈالے ہوتے ہیں۔ ان تئیس برسوں میں مجھے‘ ایک سال چھوڑیں ایک ماہ یا ایک اجلاس بھی ایسا نظر نہیں آتا جب اسمبلی کے اندر سکون ہو اور واقعی لگا ہو کہ یہ ایک جمہوری پارلیمنٹ ہے۔ دوسری طرف ایسے ایسے کارنامے ہو رہے ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے کہ اس ملک کے ساتھ کیسا کھلواڑ ہو رہا ہے۔
پاکستان کو گرمیوں کے موسم میں پچیس ہزار میگا واٹ بجلی کی ضرورت ہوتی ہے اور سردیوں میں یہ طلب گھٹ کر دس ہزار میگا واٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ لیکن اس ملک کے حکمرانوں اور بیورو کریسی نے مل کر اکتالیس ہزار میگا واٹ یعنی سولہ سترہ ہزار اضافی بجلی پیدا کرنے کے کارخانے لگا دیے۔ اب اندازہ کریں کہ پورے ملک کو ضرورت پچیس ہزار میگاواٹ کی ہے لیکن اکتالیس ہزار کے کارخانے لگا دیے گئے اور پھر سونے پہ سہاگا یہ کہ ان کے ساتھ معاہدے کر لیے کہ آپ سے پیداواری استعداد کے مطابق بجلی ضرور خریدی جائے گی‘ چاہے اس کی ہمیں ضرورت ہو یا نہ ہو‘ اور اگر بجلی استعمال نہ ہوئی تو آپ لوگوں کو اس بجلی کے پیسے دیے جائیں گے۔ کیا یہ حکام ایسا معاہدہ اپنے ذاتی کاروبار کے لیے کر سکتے ہیں کہ کسی پاور پلانٹ سے ڈیل کر لیں کہ ہم آپ کو بجلی کے پورے بل کی ادائیگی کرتے رہیں گے‘ چاہے بجلی استعمال ہو یا نہ ہو۔ اس ساری کارروائی کے لیے ایک نیا لفظ ایجاد کیا گیا؛ Capacity Charges۔ یعنی ہم آپ کی بجلی استعمال کریں یا نہ کریں لیکن آپ کو پیسے پورے ملتے رہیں گے۔
ایک دن تو کمال ہو گیا۔ واٹر اینڈ پاور کے ایک وفاقی سیکرٹری نے قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف کیا کہ انہوں نے بجلی پیدا کرنے والے چھ کارخانوں کو کہا ہے کہ وہ بجلی پیدا نہ کریں‘ ان کو معاہدے کے تحت پورے پیسے ملتے رہیں گے۔ اب کارخانے بند پڑے ہیں لیکن پیسے مل رہے ہیں۔ وجہ پوچھی گئی تو پتا چلا کہ اگر ان سے بجلی خریدی جاتی تو وہ مہنگی پڑتی اور اگر بغیر بجلی خریدے انہیں معاہدے کے تحت کپیسٹی چارجز ادا کرتے رہیں تو وہ سستے پڑتے ہیں۔ اس جواب پر سب شرکا حیران رہ گئے۔ بتایا گیا کہ دراصل معاہدے کے تحت بجلی پیدا کرنے کے لیے فیول بھی حکومتِ پاکستان نے خرید کر فراہم کرنا ہوتا ہے‘ لہٰذا اس فیول کا خرچہ بچایا جا رہا ہے‘ ورنہ فیول خریدنے پر الگ سے ڈالرز خرچ کرنا پڑیں گے۔ کیا کوئی ایسا ظالمانہ معاہدہ ہو سکتا ہے کسی پرائیوٹ پارٹی کے ساتھ کہ پہلے جان بوجھ کر ملک میں بجلی کی گنجائش سے زیادہ بجلی گھر لگوائے جائیں‘ پھر ان سے فی یونٹ ریٹ ڈالروں میں طے کیا جائے‘ پھر کہا جائے کہ حکومت آپ کو فیول بھی خرید کر دے گی اور پھر یہ معاہدہ کیا جائے کہ آپ جتنی بجلی پیدا کریں گے وہ سب کی سب خرید لی جائے گی اور ساتھ یہ بھی کہ فکر نہ کریں‘ اگر بجلی نہ خرید سکے تو آپ کا نقصان نہیں ہونے دیں گے اور کپیسٹی کے مطابق آپ کو پوری ادائیگی کی جائے گی۔ اگر ادائیگی میں کچھ تاخیر ہو گئی تو آپ کو سٹیٹ بینک ریٹ پر سود بھی ادا کیا جائے گا۔ اور ہاں! ہم ایک اور کام بھی کر سکتے ہیں کہ آپ اپنا بجلی کا کارخانہ بند رکھیں‘ ہم آپ کو ویسے ہی ہر ماہ ادائیگی کرتے رہیں گے۔
اب نئی واردات سن لیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے آئندہ چند روز میں قطر جانا ہے اور وہاں ایک مسئلہ ان کا منتظر ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ نواز شریف کے تیسرے دورِ حکومت میں قطر کے ساتھ ایل این جی کی خرید کا معاہدہ ہوا تھا‘ جس کے تحت قطر نے ہر ماہ پاکستان کو ایل این جی کے پانچ کارگو شپس فراہم کرنے تھے۔ 2019ء میں عمران خان کی حکومت میں ان کے مشیرِ توانائی ندیم بابر نے قطر جا کر دس سال کا ایک نیا معاہدہ کر لیا کہ پاکستان اگلے دس سال تک پانچ کے بجائے نو کارگو شپس لے گا۔ اب پتا چلا ہے کہ پاکستان میں ایل این جی کی کھپت کم ہے اور قطر سے اگلے پانچ سالوں میں 177 کارگو شپس لینے ہیں‘ جن کی پاکستان کو ضرورت نہیں ہو گی لیکن پاکستان معاہدے کے تحت یہ 177 ایل این جی کارگو شپس لینے کا پابند ہے‘ چاہے انہیں لا کر صحرا یا سمندر میں بہا دے۔ اس وقت ایک کارگو شپ کی عالمی مارکیٹ میں قیمت پاکستانی روپوں میں نو ارب روپے ہے۔ بتایا جا رہا ہے یہ کہ کل رقم پانچ ارب ڈالر بنتی ہے۔ سوال یہ ہے اس ملک میں گندم ایک ماہ ایکسپورٹ ہوتی ہے تو دوسرے ماہ امپورٹ ہو رہی ہوتی ہے‘ چینی بھی اسی طرح کبھی ایکسپورٹ اور کبھی امپورٹ۔ اب 177 کارگو شپس فالتو ہیں‘ تو یہ حساب کتاب کون رکھتا ہے کہ ہمیں کب کتنی چینی یا کتنی گندم مقامی سطح پر دستیاب ہو گی لہٰذا ایکسپورٹ مت کریں یا ہمیں اگلے پانچ سالوں میں کتنے ایل این جی کارگو شپس کی ضرورت ہو گی۔ دس‘ پندرہ یا بیس جہازوں کا حساب کتاب آگے پیچھے ہو جائے تو بات سمجھ آتی ہے لیکن یہاں تو 177 جہازوں کی بات ہو رہی ہے۔ اور ایک ایک کارگوشپ نو ارب روپے کا ہے۔ کیا ہم اتنے نالائق ہیں کہ ہمیں علم ہی نہیں کہ ہماری ضرورت کیا ہے یا ہم جان بوجھ کر اس میں پیسہ بنا رہے ہیں؟ ندیم بابر یہ معاہدہ کر کے امریکہ نکل گئے‘ اب آپ جانیں‘ قطر جانے اور یل این جی کے 177 فالتو کارگو شپس۔ اور ہاں! یہ نہ بھولیں کہ ایک شپ کی قیمت نو ارب روپے ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں