مجھے رشک آرہا ہے عمران خان‘ زرداری اور شریف خاندان پر۔ آپ ان تینوں کی حکومت‘ گورننس‘ نااہلی یا تباہ کن فیصلوں پر بات کریں تو ہزاروں کی تعداد میں ان کے چاہنے والے آپ پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ آپ ایک کی بات کریں تو سب پل پڑیں گے کہ ہمارے لیڈر کی گستاخی کی ہے تو فلاں کی کیوں نہیں کی۔ مطلب پہلے سب کو رگڑا دیں اور آخر پر اس لیڈر پر اعتراض کر سکتے ہیں جو اُن کا پسندیدہ لیڈر ہے تو پھر شاید آپ کو کچھ رعایت مل جائے کہ چلو یار اس بندے نے سب پر تنقید پہلے کی ہے اور پھر میرے پسندیدہ لٹیرے کی طرف آیا ہے تو اسے کچھ مارجن دے دیتے ہیں۔ اس سے زیادہ اچھے فالورز اور عوام دنیا میں کم ہی ملتے ہیں خصوصاً بڑے جمہوری ملکوں میں۔ اپنے لیڈروں کو بھگوان سمجھ کر پوجا کرنے کا رواج ہمارے خطے میں بہت ہے‘ خصوصاً پاکستان اور ہندوستان میں عوام کا یہی مزاج ہے۔ یہ خطہ ہزاروں سال سے پانچ طبقات میں بٹا ہوا تھا‘ شودر سے برہمن تک۔ آج بھی ہزاروں سال بعد برہمن کی برتری ہے‘ وقت کے ساتھ صرف ان کا لباس اور رہن سہن بدلا ہے۔ پھر اس خطے پر بہت حملے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے مزاج اور ڈی این اے میں بیٹھ گیا ہے کہ جو بھی بندہ خوبصورت ہے‘ گھوڑے پر سوار ہے اور ہاتھ میں تلوار ہے اس کے سامنے جھک جانا ہے اور جان بچانی ہے۔ بلکہ کسی طرح اس برہمن سے ہاتھ ملانے کا سبب بن جائے تو پورے گاؤں میں عزت بن جائے گی۔ آپ نوٹ کریں کہ گاؤں میں آپ نے ووٹ لینا ہے تو ایم این اے یا ایم پی اے یا وزیر کو اس ووٹر کے بیٹے‘ بیٹی کی شادی پر پانچ چھ باڈی گارڈز لے کر ہر صورت لینڈ کروزر پر جانا پڑے گا۔ اگر اس ووٹر کے گھر فوتگی ہو گئی ہے تو بھی تعزیت کے لیے جانا ہو گا پھر ہی آپ اس سے الیکشن پر بڑے فخر کے ساتھ ووٹ مانگ سکتے ہیں۔ اکثر ان امیدواروں کو ووٹ نہیں ملتے جو خوشی غمی پر نہیں جاتے‘ چاہے وہ ایماندار‘ کام کرنے والے ہوں اور علاقے کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہو۔ علاقے کو پیرس بھی بنا دیں تو بھی ان کی بلا سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اکثر پہلا گلہ یہی سننے کو ملتا ہے کہ میری ماں یا باپ فوت ہوئے تو آپ سے اتنا نہ ہو سکا کہ فاتحہ کیلئے آ جاتے۔ ووٹ کی ضرورت پڑی تو فوراً آ گئے ہیں۔ اس بندے کے گھر جا کر فاتحہ پڑھنے کا مقصد یہ نہیں کہ اس کی دعا سے بخشش ہو جائے گی بلکہ اس بندے نے برادری کو بتانا ہوتا ہے کہ دیکھو میں کتنا اہم ہوں کہ لینڈ کروزر پر سوار ایم این اے اپنے چار پانچ گارڈز یا پولیس کے ڈالے کے ساتھ میرے گھر فاتحہ کیلئے آیا ہے۔
اسی طرح شادی کا سین ہوتا ہے‘ لہٰذا اس کلچر اور عادت کے ساتھ پاکستان میں سیاست کرنا اور ووٹ لینا اتنا مشکل نہیں۔ ایک وفاقی وزیر سے پوچھا کہ آپ ناراض ووٹرز کو کیسے راضی کرتے ہیں؟ ہنس کر کہنے لگا: بڑا آسان کام ہے۔ چار پانچ سال بعد اس ناراض بندے کو‘ جس کے پاس تگڑے ووٹ ہوتے ہیں‘ الیکشن کے قریب فون کرتا ہوں۔ اؤے میں اسلام آباد سے چل پڑا ہوں۔ آج رات کا کھانا تیرے ڈیرے پر۔ زرا دیسی مرغی پکا لینا اور چند بندے بھی بلا لینا۔ کنجوسی نہ کرنا۔ وزیر کہنے لگا‘ بس میرے فون کے بعد اس کے پاؤں زمین پر نہیں ٹکتے اور وہ شام تک پورے گاؤں کو خوشی سے بتاتا پھرتا ہے کہ فلاں وزیر کا فون آیا تھا۔ کہتا تھا آج رات کا کھانا میرے گھر۔ پھر وہ ایک بڑی دعوت کر کے گاؤں کے بیس تیس لوگ بلا کر دو تین دیگیں پکوا لیتا ہے اور بس ناراضگی ختم اور وہ اب اس کے گن گائے گا۔ آپ کہیں گے وقت بدل گیا ہے‘ آج کا نوجوان ان چکروں میں نہیں آتا‘ وہ سمجھدار اور باشعور ہے۔ اسے سب سمجھ ہے۔ وہ فاتحہ اور شادی ولیمہ پر حاضری کے چکر سے نکل آیا ہے۔ چلو مان لیا وہ اس چکر میں نہیں ہے جس میں اس کے باپ دادا کی نسل تھی جو ان سیاستدانوں کے چکر میں آجاتی تھی۔ تو کیا یہ نوجوان کسی لیڈر کے چکر میں نہیں پھنستا؟ اسے لیڈروں نے اب عظمت کے چکر میں ڈال دیا ہے۔ تم بہت عظیم تھے دوبارہ بناؤں گا۔ جب عظیم بننے کا وقت آتا ہے تو عثمان بزدار‘ محمود خان اور علی امین گنڈاپور نکال کر دکھا دیے۔ کیا وہ نوجوان اتنا آزاد ذہن کا ہو چکا ہے کہ وہ اب کسی لیڈر کی چکنی چپڑی باتوں میں نہیں آتا؟ کیا اسے بھی اپنے محبوب لیڈر کے تمام کام اچھے اور دوسروں کے برے نہیں لگتے؟ اگر کوئی انہیں ان کے لیڈر کی خامیاں گنوائے تو وہ کہے گا دوسرے بھی تو یہی کرتے ہیں۔ یوں باپ دادا کی نسل اگر فاتحہ یا شادی بیاہ پر کمپرومائز ہو جاتی تھی تو یہاں سوشل میڈیا پر لیڈروں نے مختلف طریقوں سے گھیر لیا ہے۔
جمہوریت کا مقصد تھا لیڈر اپنے فالورز یا حمایتوں کو جواب دہ ہوں گے۔ وہ ان کی کارگردگی اور نالائقی کا احتساب کریں گے۔ یہاں ہمارے ہاں سب کچھ الٹا چل رہا ہے۔ یہاں لیڈر کا دفاع اس کے فالورز کرتے ہیں۔ لیڈر کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ جو دل کرے کرتا رہے‘ یہی نوجوان اس کا دفاع کریں گے۔ دوسرے کی آنکھ کا بال پکڑ لیں گے لیکن اپنی دفعہ شہتیر نظر نہیں آئے گا۔ سوشل میڈیا ٹیمیں بنا کر مخالفوں پر حملے کرنے کا رواج پی ٹی آئی نے ڈالا۔ مریم نواز نے جواباً وزیراعظم ہاؤس میں میڈیا سیل بنایا اور عمران خان اور صحافیوں پر وہی حملے شروع ہو گئے جو عمران خان کی ٹیم کر رہی تھی۔ یوں دو بڑی پارٹیوں نے اپنے اپنے حامی بھرتی کیے جنہیں اپنے لیڈر کے علاوہ سب کرپٹ نظر آتے تھے اور جو صحافی ان کے دیوتا یا مہاتما کی بیعت نہیں کرتا تھا اس کی خیر نہیں تھی۔ یوں جنہوں نے ان سیاسی لیڈروں کی جواب طلبی کرنی تھی وہ الٹا لیڈروں کے محافظ بن گئے۔ ابھی ہمارے ہاں سیلاب پر دیکھ لیں‘ خیبرپختونخوا میں درختوں کی بے رحمانہ کٹائی اور سوات میں دریا کے اندر اور کناروں پر پی ٹی آئی وزیروں کی مدد سے بنائے گئے ہوٹل پر کمنٹس کیے گئے تو وہاں کے لوگوں نے اپنی حکومت کی جواب طلبی کرنے کے بجائے الٹا ان صحافیوں کو برا بھلا کہا جو سوال اٹھا رہے تھے۔
اسی طرح سیلاب کے دنوں میں مریم نواز صاحبہ اتنا بڑا وفد لے کر جاپان پہنچ گئیں۔ ان پر اعتراض ہوا اور ان کے برانڈڈ کپڑے جوتوں پر تو عظمیٰ بخاری صاحبہ نے ان سب کو سخت برا بھلا کہا جنہوں نے سوالات اٹھائے تھے۔ مریم صاحبہ کی سوشل میڈیا ٹیمیں بھی شامل ہو گئیں۔ اس طرح دریائے راوی میں روڈا پراجیکٹ میں سوا لاکھ ایکڑ اراضی دس بلڈرز کو دینے کی بات ہوئی تو عمران خان کے حامیوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا کہ خان کا نام کیوں لیا کہ وہ دس بڑے بلڈرز اور ڈونرز کو راوی کنارے پہنچ کر قبضہ لے کر دے رہا تھا۔وہ کہتے ہیں کہ علیم خان کی ہاؤسنگ سوسائٹی کا ذکر کرو۔ وہی علیم خان جن کی شان میں خان صاحب نے لمبا چوڑا وڈیو بیان جاری کیا تھا کہ دیکھو کتنا زبردست سیلف میڈ بندہ ہے؟وہی علیم خان جو ہاؤسنگ سوسائٹی سے پیسہ کما کر خان کو دے رہا تھا؟ وہی علیم خان جو اپنے چارٹڈ جہاز پر عمران خان‘ بشریٰ صاحبہ اور زلفی بخاری کو عمرہ کرانے لے گیا؟علیم خان پر سوال کرو تو وہ ناراض ہو کر کہتے ہیں کہ آپ میڈیا والے جان بوجھ کر بحران پیدا کرتے ہیں۔ علیم خان کے حامی ان کا دفاع کرتے ہیں۔ جب عمران خان‘ مریم نواز‘ شہباز شریف‘ بلاول یا علیم خان کے حامی ان کے محافظ ہیں تو پھر وہ خود کو کیوں جواب دہ سمجھیں؟ جن عوام نے ان کی جوابدہی کرنی ہے وہ تو اپنے اپنے بھگوان کو پوجنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان سب کو اپنا اپنا بھگوان پسند ہے اور وہ سب لوگ برے ہیں جو ان کے بھگوان کی نہ پوجا کرتے ہیں نہ اسے بھگوان مانتے ہیں۔