پچھلے دو دن میں بطور رپورٹر دو ایسی اہم جگہوں پر موجود تھا جہاں ایسی ایسی باتیں سننے کو ملیں کہ میرے ذہن میں بار بار ایک ہی سوال ابھرا کہ پاکستانیوں کو لوٹنا اور خریدنا کتنا آسان ہے؟ پہلی جگہ پارلیمنٹ کی پریس گیلری تھی‘ جہاں نیچے فلور پر وزیر دفاع خواجہ آصف دھواں دھار تقریر اور خوفناک انکشافات کررہے تھے۔ میری خواجہ آصف سے آخری دفعہ بات شاید برسوں پہلے ہوئی تھی کہ وہ میری کچھ خبروں پر ناراض ہو گئے تھے (سیاستدانوں؍ حکمرانوں کی اکثریت مجھ سے ناراض ہی رہتی ہے) ۔ خواجہ آصف صاحب کا ہارو سکوپ سائن لیو (Leo) ہے اور ان کے اندر لیو والی خوبیاں اور خامیاں بھی موجود ہیں۔ میرا اپنا سٹار لیو ہے اس لیے میں انہیں دوسروں کی نسبت بہتر سمجھ سکتا ہوں۔ اگرچہ دنیا میں آسٹرولوجی کے حوالے سے بہت سوالات ہیں۔ کچھ لوگ اسے سائنس مانتے ہیں‘ کچھ فضول گردانتے ہیں تو کچھ اسے مذہب کے خلاف سمجھتے ہیں۔ خیر دنیا میں کب کسی بات یا نظریے پر اتفاق ہوا ہے اور اگر کسی بات پر اتفاق ہو جائے تو لوگ کوئی اور متنازع بات ڈھونڈ کر اس پر اختلاف شروع کر دیتے ہیں۔
خیر بات خواجہ آصف کی ہو رہی تھی جن کا مزاج اسی طرح آتشی ہے جیسے اس لیو سائن کے زیادہ ترلوگوں کا ہوتا ہے۔ خواجہ آصف تو اس طرح کے بندے ہیں کہ انہوں نے اپنے والد کی غلطی پر پوری پارلیمنٹ کے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی تھی کہ انکے والد نے جنرل ضیا کا ساتھ دے کر غلطی کی تھی۔ اگرچہ جنرل ضیا کا ساتھ دینے کی وجہ یہ تھی کہ بھٹو صاحب نے انہیں جیل میں ڈالا تھا لیکن خواجہ صاحب کا کہنا تھا کہ وجہ کوئی بھی ہو‘ ایک جمہوری فرد ہونے کے ناتے ان کے والد کا ایک آمر کا ساتھ دینا بنتا نہیں تھا۔ یہ ہے خواجہ صاحب کا اصل مزاج۔ لہٰذا اب جب انہوں نے سیالکوٹ میں اقبال سنگھیڑا کے ایشو پر اپنی پارٹی قیادت کے ساتھ کھل کر اختلاف کیا تو کم از کم مجھے حیرانی نہ ہوئی۔ وہی بات کہ جو اپنے والد کے سیاسی فیصلوں پر انہیں غلط سمجھتا ہو وہ بھلا پھر کسی دوسرے کو کیا رعایت دے گا۔ اگرچہ میں بعض ایشوز پر خواجہ صاحب کا ناقد رہا ہوں اور اب بھی ان پر تنقید کرتا رہتا ہوں اور انہوں نے کبھی میری باتوں پر سخت ردِعمل نہیں دیا حالانکہ ان جیسے مزاج کے بندے کیلئے کسی کی تنقید نظر انداز کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ شاید اس کی وجہ میری وہ خبر ہو گی جو میں نے عمران خان کے دورِ وزارتِ عظمیٰ میں ایکسکلوسِو دی تھی کہ خواجہ آصف کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کی منظوری دی گئی ہے اور پھر اپنے شو میں عمران خان کے اس فیصلے پر تنقید کی تھی۔
عمران خان کو جن چند سیاستدانوں پر ذاتی غصہ تھا ان میں میاں نواز شریف‘ آصف علی زرداری اور خواجہ آصف شامل تھے۔ میاں نواز شریف سے ذاتی غصہ کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو انہوں نے عمران خان کی جمائما خان سے شادی کے بعد جو سیاسی اور میڈیا مہم چلائی تھی‘ وہ اس سے آج تک ہرٹ ہیں۔ آپ اگر عمران خان کی کتاب پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی شادی ناکام ہونے میں اپنے سے زیادہ قصور شریف خاندان کی ان کے خلاف چلائی گئی مہم کا سمجھتے ہیں‘ جس میں سیتا وائٹ کا ایشو بھی شامل تھا۔ پھر عمران خان پر بیرونی سپورٹ اور لابنگ کے الزامات اور رہی سہی کسر اس وقت پوری ہو گئی جب میاں نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں عمران خان کی ساس مسز جیمز گولڈ سمتھ اور شاید جمائما پر بھی پاکستان سے نایاب ٹائلز سمگل کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا‘ یہ ایک طرح سے اونٹ کی کمر پر آخری تنکا تھا۔ اس لیے جب پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کا تختہ الٹا تو عمران خان ان چند پہلے سیاستدانوں میں سے تھے جنہوں نے جنرل مشرف کے ہاتھ پر بیعت کی۔ عمران خان نے مشرف کو صدارتی ریفرنڈم میں سپورٹ کیا بلکہ اپنا ووٹ بھی ڈالا کہ خان کو امید تھی کہ جیسے جنرل ضیا نے میاں نواز شریف کو وزیراعلیٰ بنا کر نوازا تھا اسی طرح جنرل مشرف انہیں وزیراعظم بنائیں گے۔ لیکن جنرل مشرف جنرل ضیا سے زیادہ سمجھدار نکلے اور عمران خان کو مکھن سے بال کی طرح نکال کر پہلے میر ظفر اللہ جمالی‘ پھر چودھری شجاعت حسین اور آخر میں شوکت عزیز کو وزیراعظم بنایا‘ جنہوں نے توشہ خانے سے 1126تحائف لوٹے‘ جن کی مالیت 2007ء میں پچیس سے تیس کروڑ لگائی گئی تھی۔ شوکت عزیز سب کچھ سمیٹ کر لندن لے گئے اور پھر کبھی واپس نہ آئے۔ شوکت عزیز کی لوٹ مار کی جو تفصیلات میں نے بریک کی تھیں ان کو پڑھ کر آپ کو ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے لارڈ کلائیو جیسے کردار یاد آجاتے ہیں جو اسی طرح ہندوستان سے صندوق بھر کر لندن لے گئے تھے۔
خان صاحب نے اپنی کتاب میں آصف علی زرداری سے نفرت کی وجہ یہ لکھی کہ جب وہ بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت میں شوکت خانم ہسپتال کی مشینری کی درآمد پر کچھ رعایت لینے کیلئے بینظیر بھٹو سے ملے تو زرداری صاحب نے روایتی مسکراہٹ کے ساتھ اپنی چونچ گیلی کرنے کی فرمائش کر دی تھی۔ خان صاحب کی خواجہ آصف سے نفرت کی وجہ بھی کچھ ذاتی نوعیت کی تھی۔ خواجہ آصف وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے خان صاحب پر شوکت خانم ہسپتال کے ڈونرز کے دیے گئے ملین ڈالرز عطیات بیرون ملک کسی کام میں ضائع کرنے کا الزام لگایا تھا۔ خان صاحب کیلئے یہ ناقابلِ برداشت تھا کہ جس ہسپتال پر ان کی ساری سیاست کھڑی تھی اس پر ایسے سنگین الزامات لگیں۔ پھر سیالکوٹ سے عمر ڈار کے ساتھ الیکشن تنازع بھی کھڑا ہو گیا۔ عمران خان کو یقین تھا کہ خواجہ آصف یہ الیکشن ہار گئے تھے لیکن جنرل باجوہ نے انہیں جتوا دیا تھا لہٰذا عمران خان اور خواجہ آصف ایک دوسرے پر ہمیشہ ذاتی حملے کرتے آئے ہیں۔ وہی خواجہ آصف اب فلور پر کھڑے ہو کر کچا چٹھا کھول رہے تھے کہ کیسے سیالکوٹ میں ایک ارب پتی ٹھیکیدار نے سارا شہر تباہ کرا دیا۔ وہ کہنے لگے: اس ملک کی تباہی میں سب شریک ہیں۔ ان کا اشارہ سیاستدانوں کی طرف تھا جنہیں کوئی ٹھیکیدار‘ ہاؤسنگ سوسائٹی کا مالک یا بلڈر خرید لیتا ہے۔ انہوں نے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کیلئے کہا: جس بلوچستان کی کنسٹرکشن کمپنی کو سیالکوٹ اور ملک کے دیگر شہروں میں اہم ٹھیکے دیے گئے تھے اور اس نے انتہائی ناقص کام کیا تھا‘ اس کا مالک اس وقت سینیٹ میں پہنچ چکا ہے۔ وہ حیران ہوئے کہ ایک ٹھیکیدار کیسے سینیٹر بن گیا‘ جو نہ کسی پارٹی میں ہے‘ نہ اسے عوام جانتے ہیں اور نہ ہی اس کی سیاسی سپورٹ ہے۔ خواجہ صاحب کا مطلب تھا کہ اس نے صوبائی اسمبلی سے ایم پی ایز کے ووٹ خریدے اور پیسے دے کر سینیٹر بن گیا اور اب وہ اربوں کے ٹھیکے لے کر ناقص کام کرکے ملک کو تباہ کررہا ہے۔ یہ سب کچھ سن کر خیال آیا کہ ہمارے سیاستدانوں اور ایم پی ایز کو خریدنا کتنا آسان ہے کہ ایک نیم خواندہ ٹھیکیدار پوری اسمبلی خرید لیتا ہے۔
دوسری جگہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس تھا جہاں ڈی جی نیشنل کرائمز ایجنسی وقار الدین سید سائبر کرائمز پر اپنی ٹیم کے ساتھ بریفنگ دے رہے تھے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں جس پیمانے پر کال سنٹرز آن لائن فراڈ کر رہے تھے‘ اس سے دنیا بھر سے فراڈیوں نے پاکستان کا رخ کر لیا۔ اب تک وہ 259غیرملکی گرفتار کر چکے ہیں جو ان فراڈ میں ملوث ہیں۔ ایک بندے کو تو اس طرح بیوقوف بنایا گیا کہ اس نے اپنے ہاتھوں سے فراڈیوں کو اپنے فون پر آیا ہوا OTPآٹھ دفعہ بار بار شیئر کیا اور 14کروڑ روپے گنوا بیٹھا۔ وقارالدین اور ان کی ٹیم کی دی ہوئی بریفنگ یقینا خوفناک تھی کہ کیسے ہزاروں پاکستانی لالچ یا خوف کے ہاتھوں لٹ رہے تھے۔ میں حیرانی سے سنتا اور سوچتا رہا کہ اگر خواجہ آصف کی بات پر یقین کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں کو خریدنا کتنا آسان ہے اور اگر ڈی جی وقارالدین کی بات سنیں تو لگتا ہے پاکستانی عوام کو لوٹنا کتنا آسان ہے۔