"RKC" (space) message & send to 7575

کسانوں کی باری آئی ایم ایف نہیں مانتا

مزے کی خبر ہے کہ شہباز شریف حکومت ابھی تک سیلاب زدگان اور کسانوں کیلئے کسی بڑے ریلیف کا اعلان نہیں کر سکی۔ پوچھنے پر جواب ملا ہے کہ پہلے آئی ایم ایف سے پوچھیں گے کہ آیا ہم اپنے تباہ حال کسانوں کی مالی امداد کر سکتے ہیں یا نہیں؟ اگر انہوں نے اجازت نہ دی تو پھر کیا کریں گے‘ اس کا جواب کسی نے نہیں دیا۔ اگرچہ اس بات میں بھی وزن ہے کہ ابھی سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ ابھی تو سیلاب وسطی پنجاب سے ملتان‘ مظفرگڑھ‘ بہاولپور تک پہنچا ہے۔ ابھی وہاں سے ستلج کے ذریعے یہ بہاولپور اور دیگر اضلاع کی جانب جا رہا ہے جہاں سے یہ سندھ میں داخل ہو گا۔ اس لیے ہمیں ابھی کچھ انتظار کرنا ہو گا‘ جب تک سیلاب پوری طرح تھم نہ جائے۔ پھر ہی بربادی کا حساب کتاب ہو گا اور پتہ چلے گا کہ سیلاب اپنے ساتھ کیا کچھ بہا کر لے گیا ہے۔ کیا صرف سڑکیں‘ گھر‘ جانور اور فصلیں ہی سیلاب میں بہہ گئی ہیں یا انسان بھی۔ اگرچہ ابھی سے خبریں آرہی ہیں کہ خاصا جانی نقصان ہوا ہے اور ہو رہا ہے لیکن ابھی صحیح تعداد کا علم نہیں ہے۔ اس کا علم اس وقت ہو گا جب سیلاب کہیں تھمے گا اور جب ان علاقوں میں لوگ واپس جائیں گے۔ اس لیے حکومت اس وقت زیادہ سے زیادہ ریلیف کا کام کر سکتی ہے یا ریسکیو آپریشن کر سکتی ہے۔ اس میں بھی سوالات اُٹھ رہے ہیں کہ پنجاب حکومت واقعی اس بڑے چیلنج سے نبرآزما ہو رہی ہے یا نہیں۔ بہت سے لوگ یہ بھی اعتراض کر رہے ہیں کہ شاید جنوبی پنجاب اور سرائیکی علاقوں میں وہ دلچسپی اور تیزی نہیں دکھائی گئی جس کی توقع وہاں کے سیلاب میں گھرے لوگوں کو تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیلاب بھارتی پنجاب میں شدید بارشوں کی وجہ سے شروع ہوا اور ہمارے پنجاب میں بھی بارشیں ہو رہی تھیں۔ مان لیا سب کچھ اچانک ہوا اگرچہ حکومت یہ بہانہ نہیں کر سکتی کہ اس کے پاس موسمیاتی حوالے سے کوئی پیشگوئی نہ تھی۔ اب جدید دور میں ایسے بہانے نہیں چلتے۔ چلیں مان لیا کہ پتہ نہیں چلا اور لاہور اور وسطی پنجاب کے علاقوں اور دیہات میں بڑا نقصان ہوا لیکن اس کے بعد آپ کو علم تھا یا ہونا چاہیے تھا کہ یہ پانی اب صرف وسطی پنجاب یا لاہور میں دریائے راوی میں نہیں کھڑا رہے گا۔ اس نے آگے بڑھنا ہے۔ چناب‘ راوی اور ستلج کا پانی سفر کرتے ہوئے جھنگ ‘ مظفرگڑھ‘ ملتان ‘خانیوال‘ کبیروالا اور بہاولپور کی جانب جانا تھا۔ ابھی صوبائی یا وفاقی محکموں کے پاس کافی دن تھے کہ ان علاقوں کو محفوظ کر سکتے تھے یا اس دوران آبادیوں کا انخلا کر سکتے تھے لیکن اس معاملے میں دو بڑی سستیاں ہوئیں۔ ایک عام لوگوں نے دکھائی کہ سیلاب کو سنجیدہ نہ لیا اور گھر نہ چھوڑے جس سے جانی نقصان ہورہا ہے۔ پنجاب حکومت اور ضلعی افسران نے بھی بڑی سستی دکھائی کہ چلیں لاہور کا خطرہ ٹل گیا‘ اب اگلے اضلاع جانیں‘ یوں جب پانی کچھ دن بعد سرائیکی علاقوں میں پہنچا تو وہاں آپ کو کوئی تیاری نظر نہ آئی۔ تیاری کا یہ عالم تھا کہ پاسکو اور محکمہ خوراک کے گندم کے گودام‘ جن میں ہزاروں بوریاں رکھی تھیں‘ وہ سب سیلاب میں بہہ گئیں۔ اگر افسران اور ضلعی انتظامیہ سنجیدہ انداز میں ان ایشوز کو ہینڈل کر رہے ہوتے تو ان گوداموں کو بچاتے یا گندم شفٹ کراتے۔ خصوصاً جب پہلے ہی گندم کا بحران سر اٹھاچکا ہے اور سیلاب کی وجہ سے گندم کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ لیکن اس طرف کسی کا دھیان نہ گیا کہ جن علاقوں میں سیلاب کا پانی جا رہا ہے‘ وہاں گندم کے گودام بھی ہیں۔ خیر پاسکو حکام ہوں یا صوبائی محکمے کے اہلکار‘ اس سیلاب سے خوش ہوئے ہوں گے کہ وہ سب ریکارڈ اور سب گڑبڑ جو بھی ہوئی ہو گی‘ اپنے ساتھ لپیٹ کر لے گیا۔ اب کون سا ریکارڈ اور کون سی گندم۔ ابھی سے وفاق میں بیٹھے بڑے بڑے افسران اور بابوز اور امپورٹرز نے گندم درآمد کرنے کیلئے تیاری پکڑ لی ہو گی کہ لمبا مال کمانے کا موقع مل رہا ہے‘ جیسے نگران دورِ حکومت میں 2023ء میں ملا تھا اور نگران حکومت کے اس بدترین فیصلے کے نتیجے میں کسانوں کو اربوں روپوں کا نقصان بھگتنا پڑا۔ مجھے بتائیں دنیا میں کون سیانا یہ فیصلہ کرتا ہے کہ آپ کی گندم کی فصل سندھ میں مارچ اور پنجاب میں اپریل میں آتی ہے اور انہی دنوں بیرونِ ملک سے غیرملکی کسانوں کو ڈالرز دے کر گندم سے بھرے جہازوں سے بوریاں اُتر رہی تھیں۔ جنہوں نے جہاز بک کرائے ان کی گندم پاکستان میں مئی تک آتی رہی کیونکہ اس میں سب مل کر مال کما رہے تھے۔ اس پورے سکینڈل میں چند حکومتی حکام اور درآمد کنندگان نے بڑا مال کمایا اور ان میں میرا ایک جاننے والا بھی تھا۔ اس نے ایک دن مجھے جو نام بتائے کہ انہوں نے کیسے کیسے کس سے کیا فیصلہ کرایا کہ گندم کی درآمد روکنی نہیں ہے‘ وہ نام لینے کی جرأت میرے اندر بھی نہیں۔ میں صدمے سے سنتا رہا تھا کہ یار خدا نے ان لوگوں کو کہاں سے اٹھا کر کہاں پہنچا دیا لیکن لالچ اور حرص نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا۔ خدا کا فرمان یاد آیا کہ کثرت کی خواہش آخر انہیں قبروں تک لے گئی۔ قبر کی مٹی ہی انسان کا منہ بھرے تو بھرے ورنہ انسانی منہ نہیں بھرتا۔ یوں ان لاڈلے نگرانوں نے جو اَت مچائی اور گندم کا بحران کھڑا کیا اس نے کسانوں کو مالی طور پر برباد کر دیا۔ جب سندھ پنجاب کی گندم مارکیٹ میں آئی تو پہلے سے درآمد کی گئی گندم موجود ہونے کی وجہ سے اسے خریدار نہ ملے تو گندم کی قیمت چار ہزار سے تین ہزار تک آ گئی اور کسانوں کو اربوں کا نقصان ہو گیا۔ نگرانوں سے اس بارے پوچھا گیا تو وہ دانت نکال کر چلتے بنے۔ مجھے اپنے امپورٹر دوست کی بات یاد آئی کہ یہ نگران معصوم نہیں تھے نہ ہی سادہ کہ انہیں علم نہ تھا کہ گندم کے وہ جہاز بھی بُک ہو رہے تھے جنہوں نے مئی میں پاکستان پہنچنا تھا۔ پھر تو کسانوں کی گندم ٹکے ٹوکری ہی بکنی تھی۔ مال بٹورنے والے مال بٹور کر نکل گئے کہ پھر چانس بنا تو وہیں سے شروع کریں گے جہاں چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ اپنے ایک پاؤ گوشت کیلئے نگران حکومت کے چند بڑوں نے کسانوں کا پورا اونٹ ذبح کر دیا۔ اس سال خیال تھا کہ کسانوں کے پچھلے سال کے نقصان کا کچھ مداوا ہو گا۔ الٹا پنجاب حکومت نے چھکا مارا اور گندم کی سرکاری قیمت چار ہزار سے سیدھی بائیس سو روپے کر دی۔ یوں ان دو سالوں میں کسان کا بیڑا پہلے نگران حکومت کے چند بڑوں نے درآمد کنندگان کے ساتھ مل کر غرق کیا تو رہی سہی کسر پنجاب حکومت نے پوری کر دی۔ اب سیلاب تباہیاں پھیلا گیا ہے اور بیس تیس لاکھ کسان اپنا گھر بار چھوڑ کر بپھرے دریاؤں کے کنارے آن بیٹھے ہیں جبکہ شہباز شریف صاحب ڈرتے ڈرتے کہتے ہیں کہ وہ آئی ایم ایف سے بات کر کے دیکھیں گے۔ ہمارے ہاں ابھی آئی ایم ایف سے بات ہونی ہے جبکہ بھارت میں وفاقی حکومت نے بھارتی پنجاب کے کسانوں اور عام لوگوں کی بحالی کیلئے 26ہزار کروڑ کی گرانٹ دے دی ہے۔ ویسے یہ بات میں بار بار پوچھ رہا ہوں سکiورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے چار افسران نے 38کروڑ تنخواہ بڑھانی ہو‘ نیشنل انشورنس کے چیف ایگزیکٹو نے اکیلے 34کروڑ لینا ہو‘ سپیکر اور چیئرمین نے 25‘25 لاکھ تنخواہ کرنی ہو یا ایم این ایز awr وزیروں نے دو سے سات لاکھ تنخواہ کرنی ہو تو اُس وقت بھی شہباز شریف‘ وزیرخزانہ اورنگزیب یا دیگر حکام آئی ایم ایف سے پوچھتے ہیں؟ یا پھر آئی ایم ایف اور حکام کا دبدبہ ان بے چارے کسانوں اور دیہاتیوں پر ہی چلتا ہے جنہیں پہلے نگران حکومت کے چند بڑے لوٹ لیتے ہیں‘ پھر پنجاب حکومت ان پر دو ہزار فی من کا ڈاکہ مار لیتی ہے تو اب سیلاب سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے؟ اگر کچھ مانگا جائے تو آگے سے حکمران ہنس کر آئی ایم ایف نکال کر دکھا دیتے ہیں کہ وہ نہیں مانتا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں