"RKC" (space) message & send to 7575

موضع گھلو سے پرتگال تک

بعض باتوں کا پتا چلتا ہے تو افسوس ہوتا ہے کہ ان کا علم کیوں ہوا۔ تب لاعلمی ایک نعمت لگتی ہے۔ اپنے گاؤں کا برسوں پہلے کا ایک اَن پڑھ لڑکا یاد آتا ہے‘ جب میں شاید مڈل سکول میں تھا اور وہ بھیڑ بکریاں چراتا تھا۔ سکول پڑھ کر مجھے لگتا تھا کہ اب مجھے بہت ساری باتوں کا علم ہے لہٰذا شیخی بگھارنے یا اپنے علم کا رعب جھاڑنے کیلئے میں نے اس نوجوان گڈریے کا انتخاب کیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ بتاؤ ہمارے وطن کا کیا نام ہے؟ برسوں گزر گئے لیکن اس کا جواب مجھے آج تک نہیں بھولا۔ اس نے بڑی معصومیت سے ہمارے گاؤں کا نام لے کر کہا تھا کہ اپنا وطن یہی ہے۔ اس نے پاکستان کا نام نہیں لیا تھا۔ اس نے عمر بھر گاؤں کا نام ہی سنا تھا لہٰذا اس کے نزدیک وہی اس کا وطن تھا اور وہی ملک۔ اس کی ساری زندگی گاؤں کے اردگرد گھومتی تھی‘ اور وہ اپنا سارا دن ان بکریوں کے ساتھ اپنے چھوٹے سے وطن میں گزار کر مطمئن اور خوش رہتا تھا۔ اسے نہ اس گاؤں سے باہر کی دنیا کا علم تھا‘ نہ وہ رکھنا چاہتا تھا۔ شاید اس وقت میں نے اس جواب پر کہا ہو گا کہ دیکھو اس گڈریے کو اپنے ملک کا نام بھی نہیں آتا۔ شاید میں نے اس کا مذاق اڑایا ہو گا لیکن آج اندازہ ہوتا ہے کہ وہ گڈریا اپنے وطن میں کتنا خوش تھا۔ لاعلمی کبھی کبھار دکھ سے زیادہ سکھ دیتی ہے۔
برسوں بعد جب گارشیا کا شہرہ آفاق ناول ''تنہائی کے سو سال‘‘ پڑھا‘ جس کا میرے بڑے بھائی ڈاکٹر نعیم کلاسرا نے اردو ترجمہ بھی کیا تھا‘ تو مجھے سمجھ آئی وطن کیا ہوتا ہے۔ صرف اینٹ کی دیواریں کھڑی کر لینا یا کسی جگہ خاندان بنا کر رہنا یا کھیتی باڑی شروع کر دینا ہی وطن نہیں ہوتا۔ اس ناول میں ایک خاندان مسلسل ہجرت کر رہا ہوتا ہے۔ ایک جگہ وہ چند دن گزارتے ہیں۔ ایک رات خاتون کا شوہر کہتا ہے کہ کل ہم یہاں سے آگے چلیں گے۔ بیوی کہتی ہے کہ نہیں ہم اب یہیں رہیں گے‘ بس یہی ہمارا وطن ہے۔ خاوند جواب دیتا ہے کہ نہیں یہ ہمارا وطن نہیں ہے‘ اس مٹی میں ہمارے پیارے دفن نہیں ہیں۔ وطن وہ ہوتا ہے جہاں آپ کے پیارے دفن ہوں۔ بیوی جواب دیتی ہے کہ اگر یہ بات ہے تو میں آج رات مر جاؤں گی‘ تم مجھے اسی مٹی میں دفن کردینا پھر یہ میرے بچوں کا وطن ہو گا اور وہ یہیں رہیں گے۔
میں آج تک گارشیا کے ناول کی ان چند سطروں کے رومانس میں مبتلا ہوں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ لندن میں دو سال پڑھنے اور اخبار کی رپورٹنگ کرنے کے بعد اخبار کے مالک کی پیشکش کے باوجود کہ تین سال کا ورک پرمٹ لے کر مستقل یہیں سے رپورٹنگ کرو‘ میں پاکستان لوٹ آیا ۔ میرا وہاں دل نہیں لگتا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ میرا سب کچھ تو اُس گاؤں میں ہے جہاں میں پلا بڑھا‘ یا پھر اس قبرستان میں ہے جہاں میرے والدین اور دیگر رشتہ دار دفن ہیں۔ میں نے اس وقت تک گارشیا کا ناول نہیں پڑھا تھا اور نہ ہی مجھے وطن کی تعریف آتی تھی۔ شاید ہر انسان کیلئے وطن وہی ہوتا ہے جہاں اس کے پیارے دفن ہوتے ہیں‘ وہ مسافر پرندوں کی طرح روزگار کی تلاش میں ٹھکانے تو بدلتا رہتا ہے لیکن وطن اس کا اپنا گاؤں اور گاؤں کا قبرستان ہی ہوتا ہے۔ اس لیے وہ گڈریا مجھ سے زیادہ بہتر جانتا تھا کہ وطن کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ اُس وقت میں اُس پر ہنسا تھا لیکن آج خود پر ہنس رہا ہوں کہ جو بات مجھے لندن میں دو سال گزار کر اور گارشیا کا ناول پڑھ کر سمجھی آئی‘ وہ بھیڑ بکریاں چراتے گڈریے کو برسوں پہلے معلوم تھی۔
یہ سب باتیں مجھے آج کیوں یاد آ رہی ہیں؟ اس کی وجہ ایک وڈیو کلپ بنا ہے جو سیلاب کی کوریج کرنے والے ایک رپورٹر دانیال ہاشمی نے علی پور کے ایک علاقے سے بنایا ہے‘ جسے دیکھ کر میں کل رات سے سو نہیں پایا۔ میں اس کوشش میں تھا کہ اپنا دھیان کسی اور طرف کروں تو آج ایک سرکاری افسر سے ملاقات ہو گئی جو میرے علاقے کا ہے۔ پتا چلا وہ آج کل او ایس ڈی ہے۔ باتوں باتوں میں علم ہوا کہ جس بیورو کریٹ کے بارے میں خواجہ آصف نے کہا تھا کہ اس نے بیٹیوں کی شادی پر چار ارب روپے سلامی اکٹھی کی تھی اور وہ پاکستان سے مفرور ہو کر آج کل پرتگال میں اپنی ہاؤسنگ سوسائٹی لانچ کیے ہوئے ہے اور بہت سے پاکستانی بیورو کریٹس اس کے کلائنٹس ہیں۔ کہنے لگا کہ وہ گیارہ ایسے افسران کو ذاتی طور پر جانتا ہے جنہیں اس بیوروکریٹ نے پرتگال میں زمین یا پلاٹ لے کر دیا ہے۔ سات ڈی ایم جی افسران‘ دو پولیس افسران اور دو آفس مینجمنٹ گروپ کے افسران ہیں۔ کہنے لگا: اب تقریباً سارے بیورو کریٹس یہی کام کررہے ہیں۔ پیسہ بنا رہے ہیں اور بیرونِ ملک خصوصاً پرتگال میں جائیدادیں؍ شہریت خرید رہے ہیں اور وہی صاحب اس کام میں سب کی مدد کررہے ہیں۔ مدد کیا کررہے ہیں‘ یوں کہیں کہ اپنا کاروبار کررہے ہیں۔ وہ افسر بتانے لگا کہ پنجاب میں صوبائی سول سروس کے افسران بھی اب ڈی ایم جی افسران کو ٹکڑ دے رہے ہیں اور ان کی کمائی بھی کم نہیں ہے۔ پہلی دفعہ صوبائی سروس کے افسران کو بھی ضلع کے ڈپٹی کمشنرز لگایا گیا ہے۔ لگے تو پہلے بھی تھے لیکن پہلے صرف چند ایک ہی تھے۔ میں نے وجہ پوچھی تو جو کہانی اس نے سنائی وہ حیرت انگیز تھی کہ کیسے چند ڈی ایم جی افسران پر کرپشن مقدمے درج ہوئے اور انہیں بدنامی کا ڈر ہوا تو بارگین کے طور پر اب صوبائی سروس کو بھی چانس دیا گیا ہے یا دلوایا گیا ہے۔میں نے کہا: چلیں ڈی ایم جی یا پولیس یا صوبائی سول سروس کی کمائی سمجھ آتی ہے اور وہ پرتگال میں جائیدادیں خرید سکتے ہیں لیکن یہ آفس مینجمنٹ گروپ کے بیچارے تھکے ہارے‘ سارا دن رولز اینڈ ریگولیشنز اور فائلوں میں سر دیے افسران بھلا کہاں سے کروڑوں کما کر پرتگال میں جائیداد خرید رہے ہیں؟ وہ ہنس کر بولا: تسی بھولے او۔ وہ اچھی اچھی‘ مال والی سیٹوں پر ڈیپوٹیشن کراتے ہیں اور پیسہ بناتے ہیں۔ میں کچھ دیر دکھی بیٹھا سنتا رہا۔ خواجہ آصف کی بات مجھے گھر کے اس بھیدی سے سُن کر سچی لگنے لگی۔ میں نے صدمے سے پوچھا: یہ سب وہاں جائیدادیں لے کر کیا کریں گے‘ جس ملک میں پیدا ہوئے‘ جس ملک سے حلال حرام کمایا‘ یہ اگر اس کے وفادار نہیں تو پرتگال کے کیا وفادار ہوں گے؟ جہاں نہ کوئی آپ کو جانتا ہو نہ آپ کسی کو جانتے ہوں‘ وہاں پلاٹس یا گھر لے کر کیا کر لیں گے؟
پھر مجھے وہ سیلاب والا وڈیو کلپ اور پانی کنارے بیٹھی چھ چھوٹی چھوٹی بچیاں یاد آئیں جن کی ماں سیلاب کے پانی میں بہہ گئی۔ وہ روتی ہوئی چھ دن سے پانی کنارے اپنی بوڑھی نانی کے ساتھ انتظار کر رہی ہیں کہ شاید ماں پانی پر چلتی زندہ باہر نکل آئے۔ ان بچیوں کے پھٹے کپڑے اور خستہ حالی دیکھ کر عجیب سی حالت ہو گئی کہ اتنی غربت بھی ہو سکتی ہے۔ ملک کا وہ پیسہ جو آج ان چھ بچیوں اور ان جیسی لاکھوں بچیوں پر خرچ ہو سکتا تھا‘ وہ چند افسران لوٹ کر اس سے باہر جائیدادیں بنا رہے ہیں۔ جن کے ذمہ یہ ڈیوٹی لگی تھی کہ انہوں نے ان چھ بچیوں کی قسمت بدلنی ہے‘ وہ اپنے بچوں کی قسمت بدلنے کے چکر میں ان کے حصے کا رزق بھی لوٹ گئے۔ وہ خود کو بہت ہوشیار چالاک سمجھتے ہوں گے کہ کیسے سول سروس میں شامل ہو کر ہماری زندگیاں بدل گئیں۔
مجھے نوجوانوں کا ایک گروپ یاد آیا جو میرے دفتر کے روز چکر لگاتا تھا کہ سی ایس ایس رولز کا مسئلہ تھا۔ ان لڑکیوں اور لڑکوں کی بے چینی دیکھ کر میں نے حیرانی سے پوچھا تھا کہ اگر سی ایس ایس نہ ہوا تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی؟ اب جو کچھ اس سرکاری دوست سے سنا تو اندازہ ہو رہا ہے کہ ہماری نوجوان نسل سول سروس یا سرکاری نوکری کیلئے اتنی بے چین کیوں ہے۔ ان سب کو علی پور میں سیلاب کے کنارے ماں کی لاش کے انتظار میں بیٹھی پھٹے پرانے کپڑے پہنے‘ پیروں سے ننگی روتی ہوئی چھ چھوٹی بچیاں نظر نہیں آتیں‘ انہیں اب پرتگال میں جھیل کنارے شاندار جائیدادیں اور شہریت نظر آتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں