اینکرز اور صحافیوں کو اپنی باتوں سے مطمئن کرنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ 23 سال کا صحافتی تجربہ یہی ہے۔ اس دوران درجن بھر وزرائے اعظم سے صحافیوں اور اینکرز کے ساتھ ملاقاتوں میں شریک رہا ہوں۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ میر ظفراللہ جمالی‘ شوکت عزیز‘ یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف‘ نواز شریف‘ شاہد خاقان عباسی‘ عمران خان اور شہباز شریف تک کوئی وزیراعظم اینکرز کو اپنی گفتگو سے مطمئن کر سکا ہو۔ یوسف رضا گیلانی کی عادت تھی کہ وہ مشکل سے مشکل سوال سے بھی نہ پریشان اور نہ ہی ناراض ہوتے تھے۔ اگر کسی کو وزرائے اعظم کی ان کے ظرف کے حوالے سے رینکنگ کرنی ہو تو وہ یوسف رضا گیلانی کو پہلے نمبر پر رکھے گا کہ وہ تمام تر تنقید کے باوجود صحافیوں کو عزت واحترام سے ملتے تھے اور کوئی گلہ نہ کرتے کہ اُس نے ان کے خلاف کتنی سخت خبریں لگائی تھیں۔
وزیراعظم عمران خان میں یہ خوبی تھی کہ وہ اینکرز اور صحافیوں کے ساتھ گھنٹوں گفتگو اور بحث مباحثہ کر سکتے تھے۔ ان کے پاس بھی کافی دلائل ہوتے تھے۔ وہ بڑی حد تک اینکرز کو قائل بھی کر لیتے تھے‘ لیکن دھیرے دھیرے ان کے گرد خوشامدی وزیروں اور طبلچیوں کا اثر بڑھتا گیا اور انہوں نے خان صاحب کے کان بھرنا شروع کر دیے کہ اب آپ وزیراعظم ہیں ان اینکرز کو ان کی اوقات پر رکھا کریں۔ یوں خان صاحب کا لہجہ بھی سخت ہوتا گیا اور جو کوئی ان سے سخت سوال کرتا اسے فکس کرنے کے طریقے تلاش کیے جاتے تھے۔ اگر اسے چینل سے نہ نکلوا پاتے تو اس کے خلاف سوشل میڈیا پر گالی گلوچ اور بدتمیزی ضرور شروع ہو جاتی تھی۔ وہ چاہتے تو دوسروں کو قائل کر سکتے تھے اور انہیں صحافیوں کے ساتھ اتنا فاصلہ رکھنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ آخری دنوں میں تو خان صاحب صرف مرضی کے دو تین اینکرز سے ملتے تھے‘ اکثریت کا داخلہ بند کر دیا گیا تھا۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ نواز شریف تیسری دفعہ وزیراعظم بنے تو صرف ایک دفعہ صحافیوں کو ملے‘ جس میں سبھی بڑے نام شامل تھے۔ اس میں حکومتی پسند ناپسند کا خیال رکھے بغیر سب کو بلایا گیا تھا۔ شاید کسی اہم ایشو پر بریفنگ تھی۔ اس بریفنگ کے بعد نواز شریف نہ کبھی میڈیا سے ملے اور نہ کوئی پریس کانفرنس کی‘ نہ ہی کسی کو انٹرویو دیا۔ انٹرویو دینا دور کی بات ہے وہ تو ملک سے چار سو دن باہر رہے۔ ایک سو بیس ملکوں کا دورہ کیا۔ چھ ماہ کا بینہ کا اجلاس تک نہ ہوا۔ آٹھ ماہ وہ پارلیمنٹ نہ گئے۔ صحافی یا اینکرز بھلا کس کھیت کی مولی تھے۔ شہباز شریف بھی آج کل صحافیوں اور اینکرز سے ملتے ہیں لیکن وہی بات کہ ان کے پسندیدہ اینکرز کی اپنی فہرست ہے۔ درحقیقت اپنے ناقدین کو مطمئن کرنا مشکل کام ہے‘ خصوصاً ناقدین اگر صحافی اور اینکرز ہوں‘ جن کا کام ہی غیرمطمئن رہنا ہے۔ اس لیے میرے لیے یہ دلچسپ تجربہ تھا کہ ایک میڈیا ہاؤس کے مالک اسلام آباد کے سبھی اینکرز کو اپنی رہائش گاہ پر بلا کر ایک انتہائی اہم ایشو پر بات کرنا چاہتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ کس حد تک صحافیوں کو مطمئن کر پاتے ہیں۔ ایشو تھا کہ پاکستان میں نئے صوبے بنائے جائیں‘ جس پر میاں عامر محمود صاحب تقریباً روز بات کرتے ہیں اور ان سے سوالات بھی ہوتے ہیں جو اس سیشن میں بھی اینکرز نے کئے اور بعض تو واقعی بہت سخت سوال تھے جن کا انہوں نے بڑے تحمل اور منطق کے ساتھ جواب دیا۔ میاں عامر محمود صاحب کیساتھ ایک اور میڈیا ہاؤس کے مالک چودھری عبدالرحمن صاحب بھی تھے‘ جو میڈیا کے علاوہ میاں عامر محمود صاحب کی طرح ایک تعلیمی گروپ کے مالک بھی ہیں۔ میاں عامر محمود سے پہلے جو مختصر سا تعارف چودھری عبدالرحمن صاحب نے پیش کیا اسے سُن کر میں بھی ششدر رہ گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے نئے طالب علم پڑھ لکھ تو لیتے ہیں لیکن جن باتوں یا آداب کی مارکیٹ میں ضرورت ہے وہ انکے اندر نہیں ہیں۔ مارکیٹ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ جب وہ جاب کیلئے نوجوانوں کو بلاتے ہیں تو اکثر تاخیر سے پہنچتے ہیں۔ دوسرا‘ وہ راتوں رات امیر بننا چاہتے ہیں۔ تیسرا‘ وہ ایک ٹیم کا حصہ نہیں بن پاتے یا ٹیم ورک نہیں کرنا چاہتے یا نہیں کرتے اور اکثر لڑ پڑتے ہیں۔ انہوں نے کچھ اور باتیں بھی بتائیں کہ ہم کیسے نوجوانوں میں وہ خوبیاں ڈالنے میں ناکام ہو رہے‘ اور اب ہم نے اپنے سٹاف کو بہتر کیا ہے تاکہ وہ نوجوانوں کے اندر بہتر خیالات ڈال سکیں۔
خیر میاں عامر محمود صاحب کو اندازہ تھا کہ ان سے کون سا سوال ہو گا۔ چند مشکل سوالات بھی ہوئے لیکن وہ پُرسکون رہے۔ ایک سوال تھا کہ یہ تاثر عام ہے کہ آپ لوگوں کو اسٹیبلشمنٹ نے یہ ذمہ داری دی ہے کہ آپ نئے صوبوں کی بات شروع کریں اور رائے عامہ ہموار کریں۔ ایک سوال تھا کہ آپ اپنے تعلیمی اداروں میں تو طلبہ یونین اور سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیتے مگر عوام کی سیاسی طور پر صوبوں کے ایشوز پر رائے بدلنا چاہتے ہیں یا یہ بھی سوال اِن ڈائریکٹ تھا کہ شاید آپ صوبوں کے اوپر خود سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ میاں عامر محمود اور چودھری عبدالرحمن نے بار بار ایک بات کی وضاحت کی کہ نہ وہ سیاستدان ہیں‘ نہ کوئی ووٹ لینے آئے ہیں‘ نہ ہی انہوں نے لیڈری کرنی ہے‘ نہ انہیں فوج نے کہا ہے۔ میاں عامر محمود صاحب کا کہنا تھا کہ وہ تو نئے صوبوں کی بات 2006ء سے کر رہے ہیں اور اس ایشو پر انہوں نے اُس وقت بھی ریسرچ کی تھی اور اسے مختلف فورمز پر شیئر کرتے رہے ہیں۔ میاں عامر محمود صاحب نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت ڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں جس پر حکومت کی کوئی توجہ نہیں یا 44 فیصد بچوں کو مناسب خوراک نہ ملنے سے ان کی ذہنی اور جسمانی گروتھ نہیں ہورہی‘ تو ذرا تصور کریں کل کو جب یہ اَن پڑھ اور کمزور ذہنی صلاحیت کے ساتھ بچے جوان ہوں گے تو آپ لوگوں کی جو بھی خوشحالی ہے‘ وہ سب چھین لیں گے۔ آپ نے کل کو اپنی نسلوں کو بچانا ہے تو ان ڈھائی کروڑ بچوں کو بھی سکولوں میں لے جائیں۔ اپنے بچوں کی طرح انہیں تعلیم دیں تاکہ وہ بھی کل کو جاب مارکیٹ سے اپنا حصہ لے سکیں۔ وہ بتانے لگے کہ بھارت کی آبادی تقریباً ڈیڑھ ارب ہے لیکن وہاں صرف چند لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں جبکہ ہماری آبادی پچیس کروڑ ہے اور یہاں ڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ 78 برسوں میں ہم نے صرف پانچ شہر ڈویلپ کیے ہیں‘ سارا پیسہ ان پانچ شہروں پر لگ گیا۔ کوئی پیسہ یا ترقی نچلے لیول یا ضلع تک نہ گئی۔ غریب لوگ دیہات سے شہروں کی طرف گئے اور شہر پھیلتے گئے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ گورننس ختم ہو گئی ہے۔ نچلے لیول سے قیادت اوپر نہیں اُبھر سکی۔ صرف دو خاندان ہیں جن کے افراد حکمرانی کرتے رہتے ہیں۔ اگر ملک میں 33 ڈویژن لیول صوبے ہوں تو نچلی سطح سے قیادت ابھرے گی‘ جیسے مودی ایک چائے والے سے پہلے وزیراعلیٰ اور پھر بھارت کا وزیراعظم بن گیا۔ موجودہ چار صوبوں کے سسٹم میں سے نچلے لیول سے کوئی قیادت نہیں ابھرے گی‘ نہ ابھرنے دی جائے گی۔ 33 وزیراعلیٰ ہوں گے تو ان میں مقابلہ ہو گا اور جو اچھا پرفارم کرے گا وہ اوپر آئے گا۔
اس ملاقات میں جو اینکرز شریک تھے ان میں محمد مالک‘ حامد میر‘ کاشف عباسی‘ مہر بخاری‘سلیم صافی‘ طارق چودھری‘ نصراللہ ملک‘ فواد احمد‘ ابصارعالم‘ مطیع اللہ جان‘ عمر چیمہ‘ فریحہ ادریس‘ ثمر عباس‘ یشفین جمال‘ تنزیلہ مظہر‘ انیقہ نثار‘ عدیل وڑائچ‘ وائس آف امریکہ سے فرقان اور دیگر شامل تھے۔ تقریباً سب اینکرز نے میاں عامر محمود صاحب کے دلائل سے اتفاق کیا کہ نئے صوبے بننے چاہئیں۔ موقع دیکھ کر محمد مالک نے مذاقاً کہا کہ ڈیرہ غازی خان صوبے کا پہلا وزیراعلیٰ لیہ سے رؤف ہو گا۔ میں نے کہا کہ اگر یہ بات ہے تو ڈیرہ غازی خان کا پہلا گورنر محمد مالک ہوگا جن کے بزرگ وہیں بڑا عرصہ سیٹل رہے اور ان کے تو دادا بھی وہیں دفن ہیں۔ اس پر ایک بڑا قہقہہ ہال میں ابھرا۔