"RKC" (space) message & send to 7575

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں انصاف کا ڈرامہ

منگل کے روز پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس تھا جس کے کنوینر وفاقی وزیر ڈاکٹر طارق فضل چودھری ہیں۔ تمام تر کوشش کے باوجود میں اس کمیٹی اجلاس میں نہ جا سکا کیونکہ جو کچھ پچھلے کمیٹی اجلاس میں ہوا تھا اس کے بعد یہ ایک مذاق لگ رہا تھا کہ دو تین گھنٹے بیٹھ کر وہی سارا عمل ایک دفعہ پھر دیکھیں۔
اگرچہ وفاقی وزیر طارق فضل چودھری بہت قابل ہیں مگر بعض دفعہ کچھ ایسی باتیں ہوتی ہیں کہ قابلیت کو ایک طرف رکھ کر دیکھنا پڑتا ہے۔ پچھلے اجلاس میں حیرانی ہوئی کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ایک ذیلی کمیٹی بھی بنائی گئی ہے جس کے کنونیر ڈاکٹر طارق فضل چودھری ہیں۔ یہ ذیلی کمیٹی پی اے سی کے سابق چیئرمین جنید اکبر نے بنائی تھی۔ اس کمیٹی کے دیگر ارکان میں حنا ربانی کھر‘ رانا قاسم نون اور ثناء اللہ مستی خیل شامل ہیں۔ پہلے تو جنید اکبر پر حیرانی ہے کہ پی اے سی چیئرمین نے حکومتی محکموں سے ان کی آڈٹ رپورٹس پر وضاحتیں مانگنی ہوتی ہیں‘ ان کا احتساب کرنا ہوتا ہے‘ چیئرمین کے سامنے وفاقی سیکرٹریز نے پیش ہونا ہے۔ اب بھلا یہ کیا تُک بنتی ہے کہ ایک وفاقی وزیر کو ہی اس ذیلی کمیٹی کا سربراہ بنا دیا جائے۔ طارق فضل چودھری کو بھی انکار کرنا چاہیے تھا کہ کسی اور ممبر کو یہ ذمہ داری سونپی جائے۔ اب یہ ہوا کہ پی ٹی آئی ممبران قاسم نون اور ثناء اللہ مستی خیل نے عمران خان کے کہنے پر کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا تو حنا ربانی کھر اجلاس میں شریک ہی نہیں ہوئیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر اس ذیلی کمیٹی میں پی ٹی آئی کے ارکان نہیں تھے تو دو نئے ارکان کا تقرر مین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سے کیا جاتا تاکہ تین ارکان پورے ہوتے لیکن ہوا اس کے اُلٹ۔ نہ تو نئے ارکان بنائے گئے اور نہ ہی مسئلہ حل ہونے تک اس ذیلی کمیٹی کا اجلاس معطل ہوا۔ اب دلچسپ بلکہ حیران کن کام ہوا کہ وفاقی وزیر اجلاس میں اکیلے شریک ممبر تھے اور اکیلے ہی صدارت کر رہے تھے۔ یعنی وَن مین شو چل رہا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آگے جن کا احتساب ہو رہا تھا وہ کابینہ ڈویژن کے وفاقی سیکرٹری تھے۔ اب کابینہ کا وفاقی وزیر ایک طرف اور کابینہ کا وفاقی سیکرٹری دوسری طرف اور اس اجلاس میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی‘ نیپرا‘ پاکستان پرنٹنگ پریس اور دیگر کے اہم آڈٹ پیرے سامنے لائے گئے۔ اب بتائیں وہاں کیا انصاف ہو سکتا تھا کہ جج جیوری اور جلاد‘ سبھی حکومت خود تھی۔ یوں اکثر پیرے سیٹل کر دیے گئے اور سیکرٹری کابینہ خوشی خوشی ڈاکٹر طارق فضل کا شکریہ ادا کر کے گلے سے لگ کر گئے۔
مان لیا جائے کہ سب فیصلے انصاف پر ہوئے لیکن جس احتساب کے لیے پی اے سی بنائی گئی تھی اس کا کیا امیج رہ گیا ہو گا؟ ایک مثال ملاحظہ فرمائیں۔ ایک ایشو سامنے لایا گیا کہ پرنٹنگ پریس کارپوریشن کے ملازمین کو بڑے عرصے سے تنخواہیں نہیں مل رہیں۔ وجہ یہ تھی کہ بہت سے سرکاری محکمے جو پرنٹنگ کا کام کراتے ہیں وہ بلوں کی ادائیگی نہیں کر رہے‘ یوں ملازمین کو تنخواہ نہیں مل رہی۔ بات یہاں تک نہیں رکی بلکہ پتا چلا کہ جب ملازمین کا اصرار بڑھا تو چپکے سے انہی ملازمین کے پنشن؍ ریٹائرمنٹ فنڈز سے ان کے ہی جمع کیے گئے پیسوں سے انہیں تنخواہیں دی جانے لگیں۔ اب آڈٹ کا کہنا تھا کہ جب وہ ملازمین ریٹائر ہوں گے تو انہیں ریٹائرمنٹ پر پیسے نہیں ملیں گے کیونکہ سب کچھ تو وہ تنخواہوں میں پہلے ہی خرچ کررہے ہیں۔ عموماً یہ پیسہ جو ملازمین کی تنخواہوں سے کٹتا ہے وہ آگے انویسٹ کیا جاتا ہے اور اس کا پرافٹ بھی ملازمین کے فنڈ میں جمع ہوتا رہتا ہے۔ جب اس فنڈ سے ہی تنخواہیں دی جارہی ہیں تو اس پیسے سے سرمایہ کاری کیا ہونی ہے کہ اس کا پرافٹ ملازمین کومل سکے۔ کابینہ سیکرٹری نے تسلیم کیا اور کہنے لگے کہ انہیں چاہیے تھا کہ وہ یہ معاملہ فنانس سیکرٹری کے سامنے اٹھاتے کہ سرکاری محکمے پرنٹنگ کارپوریشن کو بل نہیں دے رہے تو آپ انہیں گرانٹ دیں تاکہ تنخواہیں ملتی رہیں۔ اندازہ کریں کہ بیورو کریٹس کی بے حسی کا کیا لیول ہے کہ ملازمین کو تنخواہ بھی نہیں دے رہے اور سیکرٹری فنانس سے بھی بات نہیں کر رہے۔ آپ بتائیں ایک کابینہ سیکرٹری کو گرین فون پر ساتھ والی بلڈنگ میں بیٹھے سیکرٹری فنانس کے نوٹس میں معاملہ لا کر حل کرانے میں کتنی دیر لگنی تھی؟ ویسے تو آپ کو سمری بنا کر سیکرٹری فنانس کو بھیج کر فون پر بات کرنی چاہیے تھی۔ اگر سیکرٹری فنانس آپ کی بات نہیں مان رہا تو آپ وزیراعظم آفس سے رابطہ کرتے اور ان کے نوٹس میں معاملہ لاتے‘ یا کابینہ سیکرٹری ہونے کے ناتے خود کابینہ اجلاس میں وزیراعظم کے نوٹس میں معاملہ لاتے۔ ان تینوں میں سے کوئی ایک بھی کام نہیں کیا ۔ سیکرٹری کابینہ کو خود کئی ماہ تنخواہ نہ ملے اور انہیں ان کے پنشن فنڈ سے تنخواہ دی جانے لگے تو انہیں کیسا محسوس ہو گا؟ مزے کی بات ہے کہ کرسی صدارت پر بیٹھے وفاقی وزیر طارق فضل نے بھی سیکرٹری کابینہ سے نہیں پوچھا کہ انہوں نے کیوں ایسا کیا‘ اور یہ معاملہ یہیں ٹھپ ہو گیا۔
یہ بیورو کریسی کی پہلی اور آخری بے حسی نہیں ہے‘ روز ایسی مثالیں سامنے آتی ہیں۔میں جن کمیٹی اجلاسوں میں جاتا ہوں اور پی اے سی تو ضرور جاتا ہوں اور یہ کام میں پرویز مشرف دور سے کررہا ہوں‘ جب انہوں نے ایچ یو بیگ صاحب کی سربراہی میں ایڈہاک پی اے سی بنائی تھی۔ اس کمیٹی کی اہم بات یہ تھی کہ اس کے اجلاسوں کو پہلی دفعہ میڈیا کیلئے اوپن کیا گیا۔ سیاسی حکمرانوں نے دہائیوں تک اس کمیٹی کے اجلاس کو بند دروازوں کے پیچھے منعقد کیا تھا۔ بھٹو صاحب کے دور کا مجھے علم نہیں کہ اُس وقت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی کیا صورتحال تھی‘ جنرل ضیا دور میں ملک میں آمریت تھی لہٰذا پی اے سی کا وجود بھی نہیں تھا۔ اس کے بعد آنے والے برسوں میں بینظیر بھٹو سے نواز شریف تک سب کچھ خفیہ ہوتا رہا۔ جمہوریت‘ جس کا کام ہی شفافیت اور لوگوں کو یقین دلانا تھا کہ ان کی ایک ایک پائی کا حساب وہ خود دیں گے اور دوسروں سے بھی لیں گے‘ انہوں نے سب کچھ بند دروازوں کے پیچھے سیٹل کرنا شروع کر دیا‘ نتیجہ یہ نکلا کہ ہر دفعہ یہی الزام لگا کہ حکومتیں اور سیاستدان کرپشن کرتے ہیں لیکن یہ اپنا احتساب نہیں کرتے۔ یوں ہر دفعہ جب حکومتیں توڑی گئیں تو دیگر الزامات کے ساتھ کرپشن کا الزام بھی ضرور لگتا تھا۔ یوں نواز شریف نے احتساب سیل کا سربراہ سیف الرحمن کو بنا کر مخالفین کا احتساب کرنا شروع کیا تو بینظیر بھٹو نے رحمن ملک کو ایف آئی اے کا کنٹرول دے کر شریف خاندان کے گرد گھیرا تنگ کیا جس پر الزامات لگے کہ سیاسی احتساب ہورہا ہے۔ یوں پرویز مشرف آئے تو وہ اپنے ساتھ نیب لائے اور دونوں کا احتساب شروع ہوا تو دونوں اکٹھے ہوگئے اور لندن میں چارٹر سائن کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ مشرف کے بعد دوبارہ ایک دوسرے کے گریبان پکڑ کر کھڑے تھے۔ اب جب ارکان اسمبلی کے پاس اپنا فورم ہے جہاں نظر آنا چاہیے کہ وہ سیاستدان اتنے میچور ہوچکے ہیں کہ اپنا احتساب پارلیمنٹ کی اس کمیٹی کے ذریعے کرسکتے ہیں تو بھی اس فورم کو بیورو کریسی اور سیاستدان مل جل کر ضائع کررہے ہیں۔ اکثر سیاستدانوں کو انہی بیورو کریٹس سے کام نکلوانے ہوتے ہیں لہٰذا بہت سامک مکائو ہماری آنکھوں کے سامنے چل رہا ہوتا ہے۔ اگر چند سینیٹرز اور ایم این ایز کسی ایشو پر بیورو کریسی یا وفاقی وزیروں کا احتساب کر بھی رہے ہوں تو دوسرے انہیں بچانے کی کوششوں میں لگے ہوتے ہیں۔ اس لیے تمام تر کوشش کے باوجود میں منگل کو اجلاس میں نہیں گیا کہ اگر ہمارے بھائی طارق فضل چودھری نے سیکرٹری کابینہ سے جواب طلبی اور ان کا احتساب کرنے کے بجائے جاتے ہوئے گلے لگ کر شکریہ ہی ادا کرنا ہے اور پیرے سیٹل ہی ہونے ہیں، تو پھر وہاں تین گھنٹے بیٹھ کر اپنا دل کیا جلانا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں