"RKC" (space) message & send to 7575

بارسلونا کا ایک خوبصورت سبق

سپین کے خوبصورت شہر بارسلونا میں پہلی دفعہ آکر احساس ہوا کہ سفر کرنا کتنا ضروری ہے۔ مختلف قسم کے لوگوں سے ملنا اور ان سے سیکھنا کتنا اہم ہے۔ ایک ہی ملک یا شہر یا علاقے میں رہتے رہتے آپ کا حشر بھی وہی ہوتا ہے جو پانی کا ایک ہی جگہ مسلسل کئی روز تک کھڑے رہنے سے ہوتا ہے۔ کچھ عرصے کے بعد پانی جوہڑ کی شکل اختیار کر کے بدبودار ہوجاتا ہے۔ ہم انسان بھی سفر نہیں کرتے اور برسوں ایک ہی جگہ رہتے ہیں تو ہم اپنے خیالات میں زیادہ Rigid ہو جاتے ہیں۔ ہم خود کو دنیا کی اعلیٰ قوم یا اعلیٰ نسل سمجھ لیتے ہیں ‘ اپنی زبان یا اپنا کلچر یا اپنی روایات ہی آپ کو برتر لگتی ہیں۔ ہم خیالات میں شدت پسند ہوجاتے ہیں۔ لیکن جب آپ سفر کرتے ہیں تو آپ کا حشر بھی اس اونٹ کی طرح ہوجاتا ہے جس نے پہلی دفعہ صحرا سے نکل کر پہاڑوں کی طرف سفر کیا تو اسے اندازہ ہوا کہ دنیا میں اس سے بھی اونچی اونچی چیزیں پائی جاتی ہیں‘ ورنہ وہ اب تک صحرا میں چلتے چلتے خود کو ہی سب سے اونچا سمجھ کر اتراتا پھرتا تھا۔ اگرچہ میں سفر کرنے کے معاملے میں ہمیشہ سست رہا ہوں۔ مجھے اپنے ملک میں رہنا زیادہ اچھا لگتا ہے۔ اپنے گھر‘ اپنا گائوں‘ اپنے لوگ اور اپنا کمرہ۔ بلکہ میری تو یہ حالت ہے کہ آٹھ دس دنوں کے بعد مجھے اپنے گھر اور ملک کی یاد ستانے لگتی ہے۔ میں ان لوگوں کو داد دیتا ہوں جو اپنا گھر‘ اپنا وطن اور اپنے بہن بھائی بچے چھوڑ کر اچھی زندگی کی تلاش میں ہزاروں میل دور جا بستے ہیں۔ لیکن ایک بات بڑی کامن ہے کہ وہ جتنے بھی دور چلے جائیں‘ ہر وقت پاکستان میں اپنے گھر اور گائوں میں سانس لیتے ملتے ہیں۔ ہر اوورسیز پاکستانی کو اپنا گھر‘ اپنا گائوں یا گلیاں یاد ہیں بلکہ ایسی یاد ہیں کہ بعض لوگ تو بات کرتے کرتے رونے لگتے ہیں۔ میرے جیسے لوگوں کو اپنے کمفرٹ زون سے نکلنا شاید مشکل لگتا ہے۔ شاید اس لیے لوگ نئے تجربات سے گھبراتے ہیں کہ پتہ نہیں کیا نتیجہ نکلے گا۔ میرے جیسے لوگ تو کسی ریسٹورنٹ پر نئی ڈش کا آرڈر دینے سے بھی گھبراتے ہیں کہ پتہ نہیں کیسا ذائقہ ہو گا اور بار بار وہی ڈش کھاتے ہیں جو انہیں پسند ہوتی ہے۔ ویسے بھی جب سے ٹی وی کا دور شروع ہوا ہے اب باہر جانا زیادہ مشکل لگتا ہے۔ مجھے کبھی کبھار اخبار کا دور یاد آتا ہے جب آپ کہیں سے بھی کوئی خبر یا کالم لکھ کر بھیج دیتے تھے۔ آپ کی خبر کو آپ کے چہرے اور آواز کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن اب ٹی وی پر آپ کی شکل اور آواز آنی ضروری ہے۔ خیر جدید ٹیکنالوجی نے یہ مسئلہ بھی حل کر دیا ہے کہ اب آپ دنیا کے جس حصے میں بھی ہوں آپ زوم لنک پر اپنا پروگرام جوائن کرسکتے ہیں۔
جب آپ ملک سے باہر جاتے ہیں تو بہت سے دوست اور پاکستانی آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ بہت محبت اور پیار دیتے ہیں۔ آپ کو عزت دیتے ہیں۔ وہ پاکستان کے بارے میں باتیں کرنا چاہتے ہیں‘ملکی حالات جاننا چاہتے ہیں۔ سب سے ملنے کیلئے آپ کے پاس کم از کم ایک ماہ ہونا چاہیے۔ یہاں بارسلونا میں مجھے چند حیرت انگیز پاکستانی ملے جو دیگر ملکوں کی نسبت بہت مختلف ہیں‘ جس پر مجھے حیرانی ہوئی۔ بارسلونا میں مجھے پاکستان میں گجرات سے تعلق رکھنے والے امتیاز صاحب ملے جو برسوں سے یہاں مقیم ہیں۔ایک محنتی سمجھدار اور میچور انسان۔ ان سے طویل گفتگو اور محفل کر کے سپین‘ بارسلونا اور وہاں کے معاشرے اور لوگوں کو سمجھنے میں بڑی مدد ملی۔ پاکستانی سیاست اور معاملات پر بھی ان کی رائے کو بڑا مختلف اور میچور پایا۔ پاکستان سے باہر ہمارے لوگوں کو لگتا ہے کہ پاکستان ڈوب چکا ہے اور حالات بہت خراب ہیں۔ سوشل میڈیا پر جس طرح سچ جھوٹ پھیلایا جاتا ہے اس پر اکثریت ایمان لے آئی ہے۔ اگر آپ ان سے بات کریں کہ پاکستان کے علاوہ کون سا ملک ہے جہاں حالات آئیڈیل ہیں؟ انسانوں پر حکومت کرنا کب اسان کام رہا ہے خصوصاً جس ملک میں جمہوریت کا نظام ہوگا وہاں مسائل ہوں گے۔ جب ہربندے کے پاس اپنی بات کہنے کا فورم ہوگا تو پھر خیالات بھی مختلف ہوں گے اور لوگوں کے خیالات کو ذاتی دشمنی سمجھ لیا جائے گا تو وہاں ہر وقت حالات آپ کو برے ہی لگیں گے۔ بہت سے پاکستانی جہاں رہتے ہیں وہاں کے حالات میں وہ کم اور پاکستان کے حالات سے زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کا پاکستان بارے پریشان رہنا بھی سمجھ میں آتا ہے جس کی کئی وجوہات ہیں۔ وہ ہمیشہ جس ملک میں رہتے ہیں اس کا موازنہ وہ اپنے پیدائشی ملک سے کرتے رہتے ہیں جو کہ فطری سی بات ہے۔ وہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کا اپنا آبائی ملک بھی اس طرح ہو جائے جیسا وہ ملک ہے جہاں وہ اب رہتے ہیں۔ ایسی خواہش کرنا فطری سی بات بھی ہے اور خوبصورت بھی۔ میری ان دوستوں سے اکثر بات ہوتی ہے کہ ایسی خواہش رکھنا اچھی بات ہے کہ جیسے زندگی آپ لوگ گزار رہے ہیں آپ چاہتے ہیں کہ وہی زندگی ان کے پاکستانی بھائی بھی گزاریں۔ آپ پچیس کروڑ لوگوں کے لیے بھی وہی چاہتے ہیں۔ آپ کو سپین یا دیگر ملکوں کی جو اچھی اچھی باتیں لگتی ہیں آپ وہی اپنے ملک میں بھی چاہتے ہیں اور جب آپ کو وہ نظر نہیں آتیں تو آپ ہرٹ ہوتے ہیں اور غصہ کرتے ہیں۔
میری بارسلونا میں کچھ دوستوں سے پہلی دفعہ ملاقات ہوئی۔ہر ایک کے پاس اپنی اپنی جدوجہد کی کہانیاں ہیں اور بعض تو ایسی ہیں کہ آپ منہ میں انگلیاں دبا کر رہ جائیں۔ ان پاکستانیوں میں جو متاثر کن انسان مجھے ملے اور بہت مختلف لگے وہ جھنگ سے تعلق رکھنے والے نواز سیال ہیں۔ ایک سادہ ظرف اور مروت سے بھرے انسان۔ ان کے شہر میں اپنے بزنس ہیں اور جو بندہ بھی ملا ان کی تعریف کرتے ملا۔ عمومی طور پر پاکستانی ایک دوسرے کی مدد کرنے سے کتراتے ہیں کہ پتہ نہیں پاکستان سے آنے والے بندے کی کیا نیت ہے اور وہ اسے کسی مسئلے میں نہ پھنسا دے۔ نواز سیال صاحب جو جھنگ کے مشہورِ زمانہ انداز میں خوبصورت سرائیکی بولتے ہیں ان چند پاکستانیوں میں سے ہیں جنہوں نے یہاں آنے والے پاکستانیوں کی ہر قسمی مدد کی۔ اکثر پاکستانی جو یہاں آئے اور ان کے پاس لیگل کاغذات نہیں تھے تو بھی انہیں اپنے ہاں کام دیا‘ انہیں سیٹل کرنے میں مدددی اور جب تک ان کا سٹیٹس لیگل نہیں ہوگیا ان کو اپنے ہاں کام دیا تاکہ ان کی زندگی کا سلسلہ چلتا رہے۔ مجھے ہر دوسرا بندہ ان کی تعریف کرتے ملا۔ مزے کی بات ہے میرا ان سے ملنا جلنا تین دن رہا‘ مجال ہے انہوں نے ایک دفعہ بھی اپنی بڑائی یا دوسروں کی مدد کرنے کی بات کی ہو یا یہ بتایا ہو کہ وہ یہاں بارسلونا میں کتنی بڑی چیز ہیں یا ان کے کتنے کاروبار ہیں۔ ابھی تک جھنگ والی روایتی محبت ان کے اندر موجود ہے۔ انہوں نے وہاں اپنے یاروں دوستوں کیلئے ایک ڈیرہ بنایا ہوا ہے جہاں ہر آنے جانے والے کیلئے دروازہ کھلا ہے۔ روز دوستوں کی محفل چل رہی ہوتی ہے۔ نواز سیال کم گو ٹائپ انسان ہیں‘ نہ اپنی فتوحات گنواتے ہیں‘ نہ ہی اپنی عظمت کی کہانیاں سناتے ہیں جیسے اکثر لوگ کرتے ہیں۔ پتہ چلا وہ 1992ء میں بارسلونا آئے تھے اور اب اپنی ایمپائر کھڑی کرچکے ہیں لیکن آج بھی وہ دوسروں کے سامنے انکساری اور عاجزی کی مثال بنے رہتے ہیں۔ میرے ساتھ ایک اور عزیز بھی تھے‘ وہ کہنے لگے: نوازصاحب کی سادگی اور عاجزی ایک طرف لیکن انہوں نے ایک دفعہ بھی نہیں کہا کہ ایک کونے سے دوسرے کونے تک سب کچھ ان کا ہے۔ کوئی لہجے میں برتری یا فخر نہیں ‘ عاجزی ہی عاجزی ملی۔ ان سے مل کر احساس ہوا کہ سب سے بڑی دولت پیسہ یا جائیداد نہیں بلکہ آپ کی عاجزی اور انکساری ہوتی ہے۔ جب آپ دوسرے لوگوں سے ملتے ہیں تو ان کی دولت سے زیادہ جو بات آپ کو یاد رہتی ہے وہ انکساری اور عاجزی ہے۔ آپ کا اخلاق دوسروں کو یاد رہتا ہے‘ کسی کو آپ کی دولت یا امارت سے غرض نہیں ہوتی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں