یہ 1960ء کی دہائی کے وسط کی بات ہے ، تب ہم ہارون آباد میں ہائی سکول کے طالب علم تھے۔ لاہور میں ہماری خالہ اور تائے چاچے سمیت متعدد ننھیالی اور ددھیالی عزیز والٹن روڈ پر امرسدھو گائوں میں رہتے تھے۔ تب لاہوراسٹیشن سے چونگی امرسدھو تک 5اور5Aنمبر کی سنگل یا ڈبل ڈیکر اومنی بسیں چلا کرتی تھیں۔ ہم شہر آنے جانے کے لئے انہی پر سفر کرتے ۔ گلاب دیوی ہسپتال کے قریب ماڈل ٹائون ایچ بلاک میں ایک ہی قطار میں سات کوٹھیاں نئی نئی بنی تھیں جو فیروز پور روڈ سے صاف نظر آتیں۔لوگ اُدھر اشارہ کرتے اور ایک دوسرے کو بتاتے کہ یہ ''اتفاق ‘‘والوں کی کوٹھیاں ہیں ۔ کچھ ہی فاصلے پر کوٹ لکھپت میں اتفاق فائونڈری تھی ۔ 1936ء میں امرتسر سے لاہور آکر برانڈرتھ روڈ پر لوہے کی بھٹی سے آغاز کرنے والے میاں محمد شریف اب یہاں (اپنے 6بھائیوں کی پارٹنر شپ کے ساتھ)''اتفاق‘‘ کے سربراہ تھے جو ''بِیکو ‘‘کے بعد پاکستان میں پرائیویٹ سیکٹر میں سب سے بڑی سٹیل مل تھی۔ اس کی ایک شاخ مشرقی پاکستان میں تھی۔ 1971ء میں سقوطِ مشرقی پاکستان کے ساتھ متحدہ پاکستان کے بہت سے اثاثوں کی طرح ''اتفاق‘‘کا یہ اثاثہ بھی وہیں رہ گیا۔ 1972ء میں بھٹو صاحب کی نیشنلائزیشن پالیسی کے تحت لاہورکی ''اتفاق‘‘ بھی ایک پیسے کی ادائیگی کے بغیر '' قومی ملکیت‘‘ میں چلی گئی۔ جدہ میں جلا وطنی کے دنوں میں کبھی ماضی کا ذکر چھڑتا تو میاں نواز شریف بعض مزے مزے کی کہانیاں بھی سناتے ۔ اتفاق مل نیشنلائز ہو گئی تو ڈنڈوں، سوٹوں سے لیس ـ''جیالوں‘‘کا ایک گروہ ان کوٹھیوں کو بھی قبضے میں لینے کے لئے پہنچ گیاجو ''اتفاق‘‘کی نہیں ، میاں محمد شریف اور ان کے بھائیوں کی ذاتی ملکیت تھیں۔ تب خاندان کی عورتوں اور بچوں کو گھروں کے پچھلے حصے میں پہنچا کر، خاندان کے پیرو جواں جن میں بزرگوں کے ساتھ جواں سال نواز، شہباز ، عباس اور ان کے کزن بھی تھے حملہ آوروں کے مقابلے کے لئے ، ضروری تیاری کے ساتھ چھتوں پر چڑھ گئے ۔ غلام مصطفی کھر کو اطلاع ہوئی تو اپنی نوزائدہ گورنری کو خون خرابے کے داغ سے بچانے کے لئے پولیس کی بھاری نفری کو بھجوا دیا ۔
ماڈل ٹائون ایچ بلاک کی ان سات کوٹھیوں کی طرح لندن کی پارک لین میں شریف فیملی کے رہائشی فلیٹ بھی خفیہ نہ تھے ۔ جدہ میں ایک دن حسین نواز بتا رہے تھے کہ وہ لندن میں بارایٹ لاء کے لئے گئے تو وہاں ہاسٹل میں قیام کیا ۔ مریم اور صفدر شادی کے بعد لندن آئے تو حسین سے ملنے ہاسٹل پہنچے ۔ یہ ماحول مریم کو پسند نہ آیا ۔ واپس آکر داداسے بات کی تب اُنہوں نے ذاتی رہائش کے لئے فلیٹ خریدنے کا فیصلہ کیا کہ شریف فیملی کا کاروبار کے سلسلے میں بھی یہاں آنا جانا رہتا تھا۔ اس لحاظ سے ان فلیٹس کا معاملہ محترمہ کے سرے محل سے مختلف تھا جس کا انکشاف ان کے دوسرے دورِ حکومت میں ہو ا تب میاں نواز شریف قائد حزب اختلاف تھے۔ ایک عرصے تک محترمہ (اور جناب ِ زرداری) سرے محل کی ملکیت سے انکار کرتے رہے ۔ بعد میں سوئس اکائونٹس کا معاملہ بھی ایسا ہی رہا جن کی تلاش کے لئے سیف الرحمن کو بہت پاپڑ بیلنے پڑے ۔12اکتوبر 1999ء سے پہلے بھی میاں صاحب لندن جاتے یہیں قیام کرتے، جنوری 2006 ء میں جدہ کی جلا وطنی ختم کر کے لندن پہنچے تب بھی یہیں قیام کیا ، اخبار نویسوں سے بھی یہیں ملتے ، سیاسی رہنمائوں سے بھی ملاقاتیں یہیں ہوتیں۔ جولائی2007ء میں میاں صاحب کی دعوت پر آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کے لئے عمران خان بھی لندن گئے تھے ۔ تب ان کا کہنا تھا کہ انہیں میاں صاحب کے جونیئر پارٹنر کے طور پر سیاسی کردار ادا کرنے میں فخر ہو گا۔ 10ستمبر 2007ء کو جنرل مشرف کی بھر پور مخالفت اور مزاحمت کے باوجود میاں صاحب اسلام آباد آمد کے لئے یہیں سے روانہ ہوئے تھے۔ میاں صاحب کی لندن میں سیاسی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے سہیل وڑائچ نے ''غدار کون‘‘؟ میں لکھا: '' میاں نواز شریف نے حال ہی میں اپنی سرگرمیوں کے لئے آکسفورڈ سٹریٹ میں سیلف رجز اسٹور کے ساتھ ہی مسلم لیگ (ن) کا دفتر قائم کیا ہے ۔ فرسٹ فلور پر واقع فلیٹ نمبر 10بنیادی طور پر تین بیڈ کا فرنشڈ فلیٹ تھا جسے میاں نواز شریف کے فرزند حسن نواز کی کمپنی نے خرید کر فرنش کیا تھا۔ میاں صاحب نے ایک روز حسن کی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ اس نے خاندانی بزنس (صنعت کاری ) سے ہٹ کر رئیل اسٹیٹ اور انویسٹمنٹ کا کارو بار شروع کیا ۔ ماشااللہ تھوڑے ہی عرصے میں اس نے بہت ترقی کی ہے ۔ ورلڈ مارکیٹس میں شیئرز اور انویسٹمنٹ کے کاروبارکے ساتھ وہ لندن میں پراپرٹی خرید کر اسے ڈویلپ کرتے ہیں ۔ چند برسوں میں ہی انہوں نے ملین آف پائونڈز کما کر برطانیہ میں اپنی ساکھ بنا لی ہے ‘‘۔
آف شور کمپنیوںکے ذریعے یہ کاروبار غیر قانونی نہیں ۔ 4اپریل کو پانامہ پیپرز کی پہلی قسط اس وضاحت کے ساتھ منظر عام پر آئی کہ یہ کمپنیاں غیرقانونی نہیں ۔ برطانیہ میں بھاری بھر کم ٹیکسوں سے بچنے کے لئے بیشتر کاروبار انہی آف شور کمپنیوں کے ذریعے کیا جاتا ہے ، خود لاء آف دی لینڈ بھی اس کی اجازت دیتا ہے ۔ ٹیکس چوری ایک الگ کام ہے ( اور ظاہر ہے ، قانوناً جرم بھی) اور ٹیکس بچت کی قانونی سکیموں سے فائدہ اُٹھانا ایک الگ کام ۔
4اپریل کو پانامہ کی پہلی قسط آئی تو ہا ہا کار مچ گئی۔ 200 سو سے زائد پاکستانیوں میںچھ، سات پاکستانی سیاستدانوں کا نام بھی تھا۔ ان میں وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادوں اور صاحبزادی کا نام
بھی تھا۔ حسین نواز اس سے پہلے ہی اپنے ٹی وی انٹرویوز میں ساری کہانی سنا چکا تھا۔ جدہ میں حسین نواز کا اسٹیل کا کا روبار خفیہ تھا ، نہ لندن میں حسن نواز کا بزنس چھپا ہوا ۔ اس بزنس کا سارا ریکارڈ متعلقہ سرکاری دفاتر میں موجود تھا۔ دلچسپ بات یہ کہ جہانگیر ترین کے بچوں کی آف شور کمپنی کا انکشاف ہوا تو ان کا بھی یہی موقف تھا یہ کمپنی غیر قانونی نہیں۔ یہی موقف عمران خان کے لندن میں فنانسر زلفی بخاری نے اختیار کیا۔ اپنی چھ آف شور کمپنیوں کے متعلق ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ یہاں یہ معمول کا کاروبار ہے۔ یہی بات سلمان شہباز نے اپنے کزنوں کی آف شور کمپنیوں کے بارے میں کہی ۔ اور اب خود عمران خان کی آف شور کمپنی کا انکشاف ہوا ہے تو اخبار نویسوں سے گفتگو میں انہیں اس اعتراف میں کوئی عار نہ تھی کہ انہوںنے 1983ء میں اپنے اکائونٹینٹ کی تجویز پر آف شور کمپنی بنائی کہ یہاں کے بھاری ٹیکسوں سے بچا جا سکے یہ کمپنی 2003ء تک قائم رہی جب انہوں نے اس کمپنی کی ملکیت اپنا فلیٹ بیچ کر بنی گالہ میں زمین خرید لی (لیکن بنی گالہ کے تین سو کنال کے فارم ہائوس کو اپنے تازہ اثاثوں میں''گفٹ‘‘ظاہر کیا ہے ۔خان کے ایک ارب 33کروڑ کے اثاثوں میں بنی گالہ فارم ہائوس کی مالیت 75کروڑ ظاہر کی گئی ہے ) ادھر خان کے ناقدین اور معترضین یہ نقطہ اُٹھا لائے ہیں کہ یہ کمپنی 2003ء تک ان کی ملکیت تھی تو انھوں نے 2002ء کے گوشواروںمیں اسے ظاہر کیوں نہ کیا؟ اور یہ بھی کہ آف شور کمپنی ان کے لئے حلال تھی تو دوسروں کے لئے حرام کیونکر ہو گئی ؟
آف شور کمپنیوں کے اس''گند‘‘میں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے اہلِ خانہ کا نام بھی نکل آیا ہے ۔ انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس کی ویب سائٹ کے مطابق وحدت لمیٹڈکے نام سے یہ کمپنی جنوری 1998ء میں بہاماس میں رجسٹر ہوئی اور 31دسمبر1999ء تک رجسٹر رہی ۔ اس میںڈاکٹر صاحب کے مرحوم بھائی عبدالقیوم خان کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ اور دو صاحبزادیوں دینا اور عائشہ خان کا نام بھی ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر صاحب کا موقف ہے کہ ان کا مرحوم بھا ئی بینکر تھا اور بینک والے یہ چال بازیاں اور ہینکی پھینکی کرتے رہتے ہیں‘ جہاں تک ان کی اہلیہ اور بچوں کا معاملہ ہے، ان کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ۔ کاغدات پر ان کے دستخط جعلی ہیں اور یہ بھی کہ ڈاکٹر صاحب اور ان کے اہلِ خانہ کو اس کمپنی کا پتہ انہی دنوں چلا ۔
یہ کمپنیاں غیر قانونی نہیں تو پھر یہ ہنگامہ اے خداکیا ہے ؟ سوال یہ ہے کہ ان کمپنیوںکے قیام کے لئے پیسہ کہاں سے آیا؟کیا یہ جائز کمائی تھی جو جائز طریقے سے کمپنی میں لگائی گئی ، بس اسی کا فیصلہ ہونا ہے ۔ حکومتی TORsکے متعلق جناب چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ 1956ء کے ایکٹ کے تحت بننے والا کمیشن موثر نہیں ہو گا چنانچہ انہوں نے انتخابی دھاندلیوں والے کمیشن کی طرح اس کے لئے بھی قانون سازی کا کہا ہے۔چیف صاحب پانامہ کے علاوہ دیگر معاملات میں بھی تحقیقات پر آمادہ ہیں مثلاًبینک ڈیفالٹ، قرضوں کی معافی، ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ وغیرہ لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس کے لئے ان کمپنیوں، اداروں اور افراد کی نشاندہی کی جائے جن کے حوالے سے تحقیقات کرنا مقصود ہے ۔
عمران خان کا معاملہ الگ، حزب ِ اختلاف کی جماعتوں کا مجموعی ردِعمل معقول اور حوصلہ افزا ہے ۔ وہ سوموار کو وزیراعظم کی تقریر کے دوران بھی اچھے بچوں کی طرح Behaveکرنے کی یقین دہانی کرا رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے بھی اس سے ملتی جلتی بات کہی ہے؛ چنانچہ یہ امید بے جا نہیں کہ بالآخر Good Sense بروئے کار آئے گی اور اتفاق رائے کے ساتھ ٹی ار آرز تیار کر لئے جائیں گئے جو جنابِ چیف جسٹس کے لئے باعث اطمینان ہوں۔ خان صاحب کی آف شورکمپنی نے انہیں بھی بیک فٹ پر ڈال دیا ہے چنانچہ ان سے بھی ہٹ دھرمی کے بجائے معقولیت کی توقع بے جا نہیں ۔