مریم نواز شریف‘ محترمہ بے نظیر بھٹو کے حوالے سے اپنی یادیں تازہ کررہی تھیں۔ انہوں نے محترمہ سے اپنی پہلی ملاقات کا ذکر کیا‘ تین گھنٹے کی ملاقات جو جدہ کے سرور پیلس میں ہوئی تھی‘ جہاں شریف فیملی جلا وطنی کے دوران مقیم تھی۔ بے نظیر بھٹو بھی چھ سات سال سے (خود ساختہ )جلا وطنی میں تھیں۔ ان کا بیشتر وقت دبئی میں بچوں کے ساتھ گزرتا۔ کبھی وقت نکال کر امریکہ کا چکر بھی لگا آتیں۔ 2004ء کے اواخر میں آصف زرداری طویل جیل کاٹ کر رہا ہوئے تو بے نظیر نے اُن کے ساتھ عمرے کاقصد کیا۔ نوازشریف سے ملاقات بھی شیڈول میں شامل تھی۔ بڑے میاں صاحب (محمد شریف) کی وفات پر اظہارِ تعزیت کے علاوہ‘ وہ اپنے دیرینہ سیاسی حریف سے سیاسی تعلقات کا نیا باب کھولنا چاہتی تھیں کہ ان برسوں میں پلوں کے نیچے سے لاکھوں کروڑوں کیوسک پانی بہہ چکا تھا۔ وہ دونوں پرویز مشرف کے زیر عتاب تھے۔ ادھر پاکستان میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) حزب اختلاف کے متحدہ محاذ اے آر ڈی میں باہم سیاسی حلیف تھے۔
یہ 10فروری 2005ء تھا جب بے نظیر سرور پیلس پہنچیں۔ (آصف زرداری بھی ساتھ تھے) میزبان نوازشریف اور بیگم کلثوم نواز صاحبہ کارپورچ میں خیر مقدم کے لیے موجود تھے۔ پرتکلف ظہرانے کے ساتھ تین گھنٹے کی اس ملاقات میں ماضی کا ذکر کم ہوا کہ اس میں تلخیوں کے سوا کیا تھا۔ نوازشریف کا کہنا تھا‘ ہمیں قوم کے سامنے ایک نئے سیاسی عہدنامے کے ساتھ آنا چاہیے۔ اس کی تیاری کے لیے چا ررکنی ٹیم کے قیام کا فیصلہ ہوا‘ مسلم لیگ کی طرف سے اسحاق ڈار اور احسن اقبال اور پیپلز پارٹی کی طرف سے رضا ربانی اور صفدر عباسی۔ میثاق جمہوریت(چارٹر آف ڈیموکریسی) کے نام سے اس عہدنامے پر14 مئی2006ء کو لندن میں نوازشریف اور بے نظیر بھٹو نے دستخط کئے۔ بعد میں دیگر اپوزیشن جماعتوں نے بھی اس کی توثیق کردی۔
27دسمبر کو بے نظیر بھٹو کی13ویں برسی پر گڑھی خدا بخش کے جلسہ عام میں مریم نواز‘ جدہ کی اسی ملاقات کا ذکر کررہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا : یہ اسی میثاق جمہوریت کی روح تھی کہ 2008ء سے 2018ء تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی وفاقی حکومتوں نے ا پنی پانچ‘ پانچ سالہ مدت پوری کی اور یہ بھی اسی میثاقِ جمہوریت کا فیض ہے کہ انتخابی میدان میں ایک دوسرے کی حریف سیاسی جماعتیں‘ آج پی ڈی ا یم کے پلیٹ فارم پر ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھی ہیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ شریف فیملی کا کوئی اہم فردگڑھی خدا بخش میں بے نظیر کی برسی پر آیا تھا۔ اس سے پہلے نوازشریف بے نظیر بھٹو کی قل خوانی میں شرکت کے لیے نوڈیرو آئے تھے۔ وہ محترمہ کی نمازجنازہ میں بھی شریک ہونا چاہتے تھے لیکن آصف زرداری نے سکیورٹی وجوہ کی بنا پر منع کردیا۔ بے نظیر بھٹو کی المناک موت کی خبر کے ساتھ ہی ملک بھر میں احتجاج کی لہر دوڑ گئی لیکن سندھ میں یہ طوفان کہیں زیادہ شدید تھا۔ جہاں ریل کی پٹڑیاں اکھاڑی جارہی تھیں‘ انجن جلائے جا رہے تھے۔ نوڈیرو میں مشتعل نوجوان کے نعروں کے جواب میں آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا۔
27دسمبر2007ء کو نوزشریف بھی پنڈی میں تھے۔ ان کے استقبالی جلوس پر حملے میں چار کارکن مارے گئے تھے۔ بے نظیر پر حملے کی خبر سن کر وہ ان کی عیادت کے لیے ہسپتال روانہ ہوئے‘ ٹی وی چینلز پر لیاقت باغ کے خونیں واقعے کے حوالے سے لائیو ٹرانسمیشن چل رہی تھی کہ ایک نیوز اینکر نے میاں صاحب سے رابطہ کیا: ''میاں صاحب !آپ کہاں ہیں؟‘‘۔ ''میں بے نظیر صاحبہ کی عیادت کے لیے ہسپتال کے راستے میں ہوں‘‘۔ ''اگر ہم آپ کو یہ بتائیں کہ بے نظیر صاحبہ اس دنیا میں نہیں رہیں؟‘‘یہ تھے وہ الفاظ جن کے ذریعے دنیا کو اس سانحہ کی اطلاع ہوئی۔ کروڑوں آنکھوں اشک بارہوگئیں۔لاکھوں دل ڈوب ڈوب گئے۔ نوازشریف نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا اور بے یقینی کے عالم میں صرف یہ کہہ پائے: ''یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘اب ایک رائے یہ تھی کہ سکیورٹی وجوہ کی بنا پر میاں صاحب واپس چلے جائیں‘ لیکن انہوں نے ہسپتال جانے کا فیصلہ کیا۔ جہاں سینکڑوں کارکن پہنچ چکے تھے۔ وہ بے ساختہ میاں صاحب کی طرف لپکے ''میاں صاحب! آپ کیوں آگئے؟ آپ بھی خطرے میں ہیں‘‘۔
عجیب جذباتی اور ہیجانی کیفیت تھی۔ میاں صاحب آنکھوں میں آنسو لیے‘ کپکپاتے ہونٹوں کے ساتھ‘ غمزدوں کا دکھ شیئر کررہے تھے۔
مریم گڑھی خدا بخش کے جلسے میں بتا رہی تھیں کہ: وہ اس وقت گھر سے باہر تھیں جب والدہ صاحبہ کی کال آئی۔ وہ انہیں فوراً گھر لوٹ آنے کا کہہ رہی تھیں جہاں گھر کے سب لوگ مریم کی دادی کے کمرے میں جمع تھے‘ سوگ کے اس عالم میں جیسے اس گھر کا کوئی فرد رخصت ہوگیا ہو۔
مریم نواز نے خود کو ''سندھ کی بیٹی‘‘ اور ''سندھ کی بہن‘‘ قرار دیتے ہوئے سندھی زبان میں گفتگو کا آغاز کیا : ''مونجو بھائیو! مونجو بہنو! آپ کی بہن مریم نواز شریف آپ کے لیے نواز شریف اور شہباز شریف کا پیغام لے کر آئی ہے‘ محبت بھرا پیغام‘‘۔ بلاول کو اپنا چھوٹا بھائی اور بختاور اور آصفہ کو اپنی چھوٹی بہن قرار دیتے ہوئے انہوں نے فریال تالپور کے ساتھ ''ادی‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔ لاہور سے روانگی کے بعد مریم کا سکھر میں مسلم لیگ (ن) کے کنونشن سے خطاب کا پروگرام بھی تھا‘ جس کے باعث وہ نصف شب کے بعد نوڈیرو ہاؤس پہنچیں۔ نوڈ یرو‘ لاڑکانہ سے کوئی پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر بھٹو خاندان کا آبائی قصبہ ہے جہاں نوڈ یرو ہاؤس بھٹو صاحب کی پہلی اہلیہ امیر بیگم کی ملکیت تھا جو بعد میں بینظیر صاحبہ کو منتقل ہو گیا۔ مریم شکر گزار تھیں کہ شب ڈیڑھ بجے بلاول‘ بختاور‘ آصفہ اور اَدی فریال ان کے خیر مقدم کے لیے نوڈ یرو ہاؤس کے دروازے پر موجود تھے۔ وہ یہاں اپنے (اور پی ڈی ایم کے دیگر قائدین) کے لیے نہایت آرام دہ قیام اور پر تکلف طعام پر بھی شکر گزار تھیں۔ ان کا کہنا تھا : اس میں کیا شک ہے کہ سندھیوں کے دل بھی اور دستر خوان بھی بڑے ہوتے ہیں۔
بے نظیر بھٹو کی المناک شہادت کو مریم نے فیض صاحب کے ان الفاظ کے ساتھ خراجِ تحسین پیش کیا ؎
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے‘ اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
مریم کا کہنا تھا : میں بلاول ‘ بختاورا ور آصفہ کے دکھ کو خوب سمجھتی ہوں کہ میرا اپنا دکھ بھی ان کے دکھ سے ملتا جلتا ہے‘ میری ماں بھی اس وقت اللہ کو پیاری ہو گئیں جب میں ان سے ہزاروں میل دور جیل میں تھی اور اب وہ بے نظیر کے ساتھ اپنی نسبت کا ذکر کر رہی تھیں: انہوں نے بڑی بہادری سے اپنے والد کا مقدمہ لڑا یہاں تک کہ ان کے قدموں میں جا کر ابدی نیند سو گئیں۔ میں بھی اپنے والد کا مقدمہ لڑ رہی ہوں‘ ان کا بیانیہ آگے بڑھا رہی ہوں ‘ان کے نظریے کا پر چار کر رہی ہوں۔ اس راہ میں مجھے بھی اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑا تو یہ حقیر سا نذرانہ ہو گا۔
سوموار کی سہ پہر جب یہ سطور قلم بند کی جا رہی تھیں‘ مریم نواز اپنے دیگر سیاسی رفقا کے ہمراہ گڑھی خدا بخش کے قبرستان پہنچیں۔ بے نظیر سمیت بھٹو خاندان کے مرحومین کے لیے دعائے مغفرت کی اور قبروں پر پھول رکھے۔یہ گاڑی بلاول بھٹو ڈرائیو کر رہے تھے‘ آصفہ بھی ہمراہ تھیں۔