کالم کا آغاز انہی کے تعزیتی کالم سے کرتے ہیں، ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی، سید سعود ساحر اور چودھری انور عزیز کے انتقال پر لکھا گیا کالم خود اُن کی وفات سے دو روز قبل شائع ہوا ''جو لوگ چلے جاتے ہیں، ان کے لیے ہمارے پاس اس کے سوا اور کچھ نہیں رہ جاتا کہ ہم بچشم نم ان کے لیے دعائے مغفرت کریں، انہیں اچھے الفاظ میں یاد کریں اور ان سے وابستہ یادوں کو تازہ کریں‘‘۔ اس کالم کی سرخی تھی ''اچھا دوستو! خدا حافظ‘‘ دو روز بعد خود ان کی وفات نے جسے کہیں زیادہ معنی خیز بنا دیا تھا۔ کیا انہیں احساس ہو گیا تھا، اندر کہیں سیٹی بج گئی تھی کہ اپنی روانگی کا وقت بھی آن پہنچا؟
جناب عبدالقادر حسن کی وفات سے ''سیاسی کالم نگاری‘‘ کا ایک باب اختتام کو پہنچا۔ وادیٔ سون سکیسر کے ایک بڑے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھنے والے عبدالقادر کی رسمی تعلیم گاؤں کے پرائمری سکول تک تھی۔ ان کے پاس کسی تعلیمی بورڈ کا کوئی سرٹیفکیٹ یا یونیورسٹی کی کوئی ڈگری نہیں تھی۔ اپنے عہد کے بہت بڑے ادیب اور خطیب آغا شورش کا بھی یہی معاملہ تھا۔ علما کے ایک گروہ کو سیّد ابوالاعلیٰ مودودی پر بھی اعتراض رہا کہ سیّد کسی دینی مدرسے کے فارغ التحصیل نہیں تھے۔ عبدالقادر حسن نے عربی اور فارسی کی تعلیم دینی مدرسے سے حاصل کی، تب جماعت اسلامی کے ''دارالعروبہ‘‘ کے ناظم سید مسعود عالم ندوی ہوتے تھے۔ ندوی صاحب ایسی عربی لکھتے اور بولتے کہ خود اہلِ زبان اش اش کر اٹھتے۔ عبدالقادر حسن کی خوش بختی کہ انہیں ندوی صاحب کی شاگردی نصیب ہو گئی۔ ان کی تحریر میں عربی و فارسی کا تڑکا لطف کو دوبالا کر دیتا۔ فیض صاحب کا معاملہ بھی یہی تھا۔ اردو تو خیر گھر والی بات تھی، انگریزی کے علاوہ عربی اور فارسی کا مطالعہ بھی وسیع تھا۔ ارباب نقدونظر کے خیال میں فیض صاحب کے ہاں عربی اور فارسی الفاظ کا استعمال انہیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز اور منفرد بنا دیتا ہے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کے اسلامی لٹریچر کی ادبی چاشنی سے بھی عبدالقادر حسن خوب مستفیض ہوئے تھے۔ وہ اوائل شباب میں گاؤں چھوڑ کر لاہور آ گئے۔ دلچسپ بات یہ کہ مخصوص مذہبی پس منظر رکھنے والے عبدالقادر کی پہلی ملازمت فیض صاحب کے زیرِ ادارت ''لیل و نہار‘‘ میں تھی۔ زبان کے اسرار و رموز سمجھنے میں انہیں یہاں بھی بہت مدد ملی۔ نوائے وقت میں آ گئے۔ یہیں انہوں نے ''سیاسی باتیں‘‘ کے عنوان سے کالم نگاری کا آغاز کیا۔ جو چیز ان کے کالم کو باقی کالم نگاروں سے منفرد بناتی، وہ یہ تھی کہ یہ ایک رپورٹر کا کالم ہوتا جو خود موقع پر موجود ہوتا تھا۔ جو چیز خبر میں آنے والی نہ ہوتی وہ کالم میں آ جاتی جو اس میں تازگی اور شگفتگی کا باعث ہوتی۔ جنرل یحییٰ خاں کے دور میں سیاست پر پابندی لگی تو عبدالقادر حسن کا کام ''سیاسی باتیں‘‘ سے ''غیر سیاسی باتیں‘‘ ہو گیا اور پھر وہ ساری عمر وہ اسی عنوان سے لکھتے رہے۔
''افریشیا‘‘ کے نام سے انہوں نے اپنا سیاسی ہفت روزہ بھی نکالا۔ یہ ''ون مین شو‘‘ تھا، جسے کلور کوٹ والے جمیل احمد رانا مرتب کرتے۔ 5 جولائی 1977 کے بعد پہلے شمارے کے سرورق کی سرخی تھی ''جاء الحق‘‘۔ میں نے باقاعدہ صحافتی زندگی کا آغاز افریشیا سے ہی کیا تھا۔ اسی دوران قریشی برادران بھٹو صاحب کی جیل سے رہائی پر ''زندگی‘‘ دوبارہ لے آئے تھے۔ ایک دن عبدالقادر حسن کہنے لگے: تم صحافت کو کیریئر بنانا چاہتے ہو تو زندگی میں چلے جاؤ ''افریشیا‘‘ میں ڈنگ ٹپاؤ معاملہ ہی رہنا ہے‘ میں تمہارے لیے ڈاکٹر اعجاز صاحب یا الطاف صاحب سے بات کر لیتا ہوں۔ ان کا مشورہ اچھا لگا۔ عبدالقادر حسن صاحب کی سفارش کی ضرورت نہ پڑی۔ میری جز وقتی صحافت کی چیزیں ڈاکٹر صاحب کی نظر سے گزرتی رہتی تھیں۔ انہوں نے اسی وقت تقرر نامہ جاری کر دیا۔ افریشیا کم وسائل والا جریدہ تھا لیکن عبدالقادر حسن مہینے کی پہلی تاریخ کو سٹاف کو تنخواہ کی ادائیگی اپنا ''مذہبی فریضہ‘‘ سمجھتے تھے، اس کے لیے انہیں کسی دوست سے قرض مانگنے میں بھی عار نہ ہوتی۔ وہ نسبتاً کم آمیز آدمی تھے، ان کا اپنا مخصوص حلقہ احباب تھا، اسی میں خوش رہتے، لیکن میں اس لحاظ سے خوش قسمت تھا کہ میری کوئی چیز پسند آتی تو کسی ملاقات میں تعریف ضرور کرتے۔ سال چھ ماہ میں ایک دو بار فون پر بھی تحسین فرما دیتے۔ میری اہلیہ کے انتقال پر فون آیا ''رؤف! تم اپنی زندگی کے بہت بڑے صدمے سے دوچار ہو (انہی دنوں دو بار میرے ہاں چوری بھی ہو چکی تھی اس کا بھی ذکر کیا) میں تعزیت کے لیے آنا چاہتا ہوں لیکن چلنے پھرنے میں بہت دقت ہے‘‘۔ میں نے بات کاٹتے ہوئے کہا ''سر! میں خود آپ کے ہاں حاضر ہو جاؤں گا۔ ''تم نے میرے دل کی بات کیسے بوجھ لی؟‘‘
فرصت پا کر میں بیٹے کے ساتھ ڈیفنس میں ان کے گھر حاضر ہوا۔ وہ دیر تک دل جوئی کرتے اور حوصلہ بڑھاتے رہے۔ جدہ سے واپسی پر میں شہباز صاحب کا میڈیا ایڈوائزر ہو گیا تو فون پر مبارک باد کے ساتھ یہ تاکید بھی کی کہ یہ بہت نازک کام ہے‘ امید ہے تم اپنی عزت کا خیال رکھو گے۔ اسی سے ملتی جلتی بات خواجہ سعد رفیق کی وزارت ریلوے میں ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز کی ذمہ داریاں سنبھالنے پر بھی کہی تھی۔
وہ مزاح میں ''چٹکی کاٹنے‘‘ کی بجائے ''گدگدی کرنے‘‘ میں یقین رکھتے تھے جس سے مخالف بھی مسکرائے بغیر نہ رہے۔ جنرل ضیاء الحق کے ریفرنڈم پر لکھا: یہ صبح کے اوقات میں منصفانہ اور اس کے بعد شام تک ''آزادانہ‘‘ تھا۔ چند روز بعد آمنا سامنا ہوا تو جنرل صاحب نے کہا: آپ کا وہ کالم بہت مزیدار تھا‘‘۔ ''سر! کون سا کالم؟‘‘ ''وہی آزادانہ والا... تمہارا مطلب تھا فری فار آل‘‘۔
جنرل مشرف کے دور میں ڈاکٹر عبدالقدیر خاں زیر عتاب تھے۔ ٹی وی پر معافی منگوانے کے بعد بھی ان کی خلاصی نہیں ہوئی تھی۔ وہ گھر پر سخت نظر بندی میں تھے۔ بیٹی بھی ملاقات کے لیے آتی تو باپ کے گھر کے دروازے پر طویل انتظار اور تلاشی کے مراحل سے گزرنا پڑتا۔ ایک دن ڈاکٹر صاحب کو اندر اطلاع ہوئی تو وہ دروازے پر چلے آئے۔ باپ کے لیے بیٹی کے ساتھ یہ توہین آمیز سلوک ناقابلِ برادشت ہو گیا تھا۔ وہ پھٹ پڑے ''تم لوگ مجھے ایک ہی بار گولی کیوں نہیں مار دیتے؟‘‘ جنرل مشرف کے ساتھ مدیرانِ جرائد اور سینئر اخبار نویسوں سے ملاقات میں عبدالقادر حسن نے یہ معاملہ اٹھایا اور جنرل صاحب کو یاد دلایا کہ وہ آپ کے بھی ہیرو ہیں۔ جنرل نے جواب دیا ''لیکن اب وہ میرا ہیرو نہیں‘‘۔ عبدالقادر حسن نے ترت جواب دیا: ''لیکن میرے تو وہ اب بھی ہیرو ہیں‘‘۔
کہا جاتا ہے بندہ جماعت اسلامی سے نکل جاتا ہے، جماعت اس کے اندر سے نہیں نکلتی۔ عبدالقادر حسن جماعت کے رکن رہے تھے۔ عملی صحافت میں آئے تو رکنیت سے استعفے دے دیا لیکن سید مودودی کی بنیادی فکر سے تا دم آخر وابستہ رہے۔ وہ گاؤں سے شہر آ گئے تھے۔ ساری عمر یہی بِتا دی لیکن ان کے اندر گاؤں موجود رہا۔ سال میں ایک دو بار چکر لگا آتے اور اس پر کیا خوبصورت کالم لکھتے۔
منگل کی صبح احباب کی بڑی تعداد، انہیں الوداع کہنے ڈیفنس جامع مسجد میں موجود تھی۔ یہاں سے وہ اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ہم گاؤں کے مناظر پر ان کی خوبصورت تحریر سے محروم رہیں گے۔ ہم نے ان کے کالم سے آغاز کیا تھا، اختتام بھی اسی پر کرتے ہیں ''بعض ایسے لوگ ہم سے جدا ہو جاتے ہیں کہ جن کے جانے کے بعد ہم اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔ وہ اپنے پیچھے محاورتاً اور رسماً نہیں، واقعتاً خلا چھوڑ جاتے ہیں۔ ایک ہولناک خلا جس میں ڈر لگتا ہے، تنہائی اور بڑھ جاتی ہے... ان کے ساتھ ایک پورا عہد ختم ہو گیا۔ معلوم نہیں ہم کیوں باقی ہیں؟‘‘
شعلۂ عشق سیاہ پوش ہوا میرے بعد