مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کشمیر کے بزرگ رہنما سید علی شاہ گیلانی کا کہنا ہے کہ مقبوضہ وادی میں بھارت نواز سیاسی جماعتوں کو ووٹ دینا اسلام کے خلاف اور شرعی طور پر بھی حرام ہے۔ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جناب گیلانی نے مقبوضہ کشمیر میں‘ مسلمانوں کی بھارت نواز جماعتوں مثلاً نیشنل کانفرنس‘ پیپلز کانفرنس‘ پی ڈی پی وغیرہ کو موضوع بنایا اور انہیں اس کلہاڑے کے دستے قرار دیا جو بھارت کشمیری مسلمانوں پر چلا رہا ہے۔
جناب سید نے یہ بات مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے کہی۔ استصواب رائے کے ذریعے جس کے مستقبل کا فیصلہ ابھی ہونا ہے۔ لیکن خود بھارت کے مسلمانوں میں بھی''اپنی جماعت‘‘ کی ضرورت کا احساس جنم لے رہا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں دہلی کے ممتاز مسلمان دانشور ڈاکٹر بصیر احمد کی گفتگو یاد آئی۔ لیکن اس سے قبل تقسیم برصغیر کے حوالے سے‘ کسی مسلم لیگی کا نہیں‘ بلکہ آغا شورش کاشمیری کا تجزیہ:
انگریز کے عہدِ غلامی میں چودہ سال قید کاٹنے والے آغا شورش کی خود نوشت ''بوئے گل‘ نالۂ دل‘ دودِ چراغِ محفل‘‘ متحدہ ہندوستان کی آخری تین دہائیوں کی سیاسی تاریخ بھی ہے۔ شورش نے اپنی جوانی کا یہ عہد سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی مجلس احرارِ اسلام کی نذر کیا۔ کہا جاتا ہے‘ شاہ جی جیسا خطیب برصغیر نے شاید ہی پیدا کیا ہو۔ شورش بھی بلا کے خطیب تھے۔ نواب زادہ نصراللہ خاں نے بھی اپنی سیاست کا آغاز''احرار‘‘ ہی سے کیا تھا جو جمعیت علماء ہند کے برعکس ہندو کانگریس کی حلیف تو نہیں تھی لیکن مسلم لیگ کے مطالبۂ پاکستان کی حامی بھی نہیں تھی۔ شورش کو اعتراف تھا کہ تحریک آزادی کے دوران کانگریس اور اس کی حلیف جماعتیں رفتہ رفتہ مسلمانان ہند کے اعتماد سے محروم ہوتی چلی گئیں۔''نیشنلسٹ‘‘ مسلمانوں نے تب محسوس ہی نہیں کیا تھا کہ مسلمان قوم کہاں کھڑی ہے؟ اس کی شکایات کیا ہیں؟ اور پاکستان کا مطالبہ دراصل ہے کیا؟ پاکستان کا مطالبہ ہندوئوں کی بالادستی کے خلاف مسلمانوں کی نفرت کا احتجاج و اظہار ہی نہیں‘ گمشدہ اسلامی سلطنت کی بازیافت کا دل فریب تصور تھا۔ ''نیشنلسٹ ‘‘ مسلمان ابھی تک ماضی میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ ان کے لیے 1940ء کا زمانہ بھی1857ء کا زمانہ تھا۔ وہ باتیں اسلام کی کرتے تھے لیکن ایک اسلامی ریاست کے مطالبہ سے اتفاق نہ تھا ۔پاکستان ایک ناگزیر نصب العین تھا‘ اب مسلمان عوام اس سے ہٹ نہیں سکتے تھے۔ انہوں نے اپنا سب کچھ‘ حتیٰ کہ دل و دماغ تک قائد اعظم کے حوالے کر دیا تھا۔ قائد اعظم بنیانِ مرصوص بن کر کھڑے تھے۔ پاکستان کے مطالبے نے کانگریس پر ہندو جماعت کی چھاپ لگا دی‘ ''نیشنلسٹ‘‘ مسلمانوں کو متروکات سخن بنا دیا۔ جمعیت علماء‘ خاکسار سب لیگ کے جلال کی تاب نہ لا کر ماند پڑ گئے؛ قائد اعظم نے مسلمانوں کی عصبیت کو اتنا مضبوط کر دیا کہ ان کے سامنے ابوالکلام کا تبحر ‘ حسین احمد مدنی کا تقویٰ‘ عطاء اللہ شاہ کی خطابت اور علامہ مشرقی کی عسکریت کا ٹھہرنا ناممکن ہو گیا۔ ان سب کے چراغ کجلا گئے۔ قائد اعظم نے ان سب کو ہرا دیا۔
''احرار‘‘ کے حکومت الٰہیہ کے نعرے کے حوالے سے شورش نے لکھا: ''مسلمان یہ سوال کرنے میں حق بجانب تھے کہ اسلامی مملکت کے بغیر حکومت الٰہیہ کہاں قائم ہو گی؟ ہر شے اپنی تیاری کے لیے ایک سانچا چاہتی ہے اور کوئی تجربہ معمل کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ حکومت الٰہیہ قائم کرنی ہے تو پاکستان ہی میں ہو گی‘ ہندوستان میں نہیں۔ پہلے خطہ حاصل کرو‘ پھر حکومت کی بحث کرنا۔ حکومتِ الٰہیہ کا مطالبہ پاکستان کے بغیر اس طرح ہے جس طرح کوئی ڈور کے بغیر پتنگ اڑانا چاہے۔ عطاء اللہ شاہ بخاری نے عمر بھر خطابت کا سحر پھونکا لیکن خود نزع کی ہچکی ہو کر ختم ہو گئے‘‘
1946ء کے انتخابات کے متعلق آغا نے لکھا: ''رائے عامہ سے ٹکرانا بڑی خطرناک شے ہے۔ مسلمانوں کی وہ جماعتیں جو پاکستان کے مطالبے سے ٹکرا رہی تھیں‘ حقیقتاً طوفان کی زد میں تھیں۔ میری واضح اور قطعی رائے ہے کہ ہندوستان میں ہندو مسلم قضیے کا حل جب پاکستان قرار دیا جا چکا تھا اور مسلمانوں کا اجتماعی ضمیر اس پر جمع ہو گیا تھا‘ تو''نیشنلسٹ‘‘ مسلمانوں کا اس کی مخالف میں پیش پیش ہونا‘ اس دور کی سب سے بڑی سیاسی غلطی تھی۔‘‘
1946ء کی انتخابی مہم میں شورش ہندوستان کے دور دراز علاقوں تک گئے اور دیکھا کہ ایک ہزار کی آبادی میں مقیم‘ صرف ایک مسلمان‘ کے لیے بھی یہ نعرہ بہت پرکشش تھا''جیسے لیا تھا ہندوستان‘‘ ویسے ہی لیں گے پاکستان‘‘... ''بولو بھیا ایک زبان‘ بن کے رہے گا پاکستان۔‘‘
آغا صاحب کے قلم سے الیکشن کاایک منظر:
''نیپال کی سرحد سے ذرا ادھر میں نے ایک مسلمان کسان کو السلام علیکم کہا‘ تو وہ رک گیا۔ مزاج پرسی کے بعد میں نے پوچھا‘ ''ووٹ کسے دو گے‘‘؟ وہ تاڑ گیا کہ الیکشن کے شکاری ہیں۔ اس نے غور سے دیکھا اور لاٹھی بڑھا کر چل پڑا۔
میں نے پوچھا‘ ''بھائی کچھ تو کہہ جائو‘‘
''میاں ہمارا ووٹ کلمے کے ساتھ ہے‘‘۔
''کلمے کے ساتھ‘‘ ؟'' جی ہاں‘‘
''کلمے سے تمہارا مطلب کیا ہے‘‘ ؟ ''مسلم لیگ‘‘ !
اور اب آغا شورش سردار سجن سنگھ ایم ایل اے مشرقی پنجاب کی کتاب ''کانگریس راج کے تین سال‘‘ کا حوالہ دیتے ہیں‘ تقسیم کے اعلان کے ساتھ جنم لینے والے بہیمانہ واقعات۔1۔ جالندھر میں ایک نوجوان لڑکی شمیم بی اے کو برہنہ کر کے جلوس نکالا گیا۔ آخر اس کو نذر آتش کر دیا اور کہا‘ یہ راستہ پاکستان کو جاتا ہے۔2۔ امرتسر کے بازار بکرداناں میں مسلمان عورتوں کو برہنہ کر کے ان کا جلوس نکالا گیا۔ 3۔ فیروز پور کے ایک گائوں لکھو کے کے نزدیک ایک پاکستانی قافلہ روک کر اس کے زیورات لوٹے گئے‘ نقدی چھینی گئی‘ خوبرو عورتوں کو چن چن کر اٹھایا گیا۔ جن عورتوں نے مزاحمت کی‘ انہیں وہیں ڈھیر کر دیا۔ بعض عورتوں کی گود میں جو سال‘ دو سال کے بچے تھے‘ انہیں وہیں پھینک دیا گیا۔ ان بچوں کو رات کی تاریکی میں گیدڑ اور کتے کھا گئے۔‘‘ ردعمل میں پاکستان کے حصے میں آنے والے بعض علاقوں میں بھی غیر مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک ہوا۔ لیکن یہاں قائد اعظم اور ان کے رفقاء کو اس کا شدت سے احساس تھا‘ قائد کی گیارہ اگست کی تاریخی تقریر انہی شعلوں کو ٹھنڈا کرنے کی تدبیر تھی۔ لیکن ادھر بھارتی قیادت کا طرزِ فکر و عمل کیا تھا؟ آغا لکھتے ہیں : اتفاق سے مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی(ایک احراری لیڈر) کے ہاتھ اس قسم کا تحریری مواد آ گیا جس سے اس بات کا ثبوت ملتا تھا کہ فسادات کی جڑ کیا ہے؟ اس کے پس منظر میں کون لوگ ہیں؟ انگریز آفیسر کیا کر رہے ہیں؟
کانگریسی ہندوئوں نے کیا گل کھلائے ہیں؟ مولانا حبیب الرحمن یہ کاغذات لے کر سیدھا دہلی پہنچے۔ وہ پہلے مولانا آزاد کے ہاں حاضر ہوئے‘ وہاں سے پنڈت نہرو کے ہاں گئے۔ اپنی بپتا سنائی‘ '' کیا ہم نے اسی دن کے لیے کانگریس کا ساتھ دیا تھا کہ اپنے گھروں ہی میں نہ رہ سکیں۔ لدھیانے میں جس مکان کو آتش زنی کے لیے چنا گیا‘ وہ میرا مکان تھا۔ بلوائیوں کو خود کانگریسی لیڈر دعوت دیتے اور ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ سب سے پہلے ہمارے خاندان ہی کے مکانوں کو لوٹا اور جلایا گیا‘‘ پنڈت جی اظہار ندامت کر رہے تھے کہ انسان پاگل ہو گیا ہے۔ ہم پاگل ہو گئے ہیں‘ کسی شخص میں تحمل نہیں رہا۔ پنڈت نے ہمدردی کے دو بول تو کہہ دیئے تھے: اہنسا کے پجاری گاندھی جی کا رویہ کیا تھا؟ پرلے درجے کا سنگدلانہ۔ گاندھی جی مسکرائے‘ '' آگئے مولوی صاحب؟ لڑائی باندھنے آئے ہیں آپ‘‘؟
''مہاتما جی ! یہ ہے وہ سوراج ‘ جس کے لیے آپ نے اٹھائیس‘ انتیس سال لڑائی کی اور ہم اس دن کے لیے سالہاسال جیل میں رہے؟ ہم نے مسلمانوں کی اجتماعی خواہش کو ٹھکرایا‘ کانگریس کے ہو گئے۔ آزادی آئی تو سب سے پہلے ہمارے گھر لوٹے گئے‘ گاندھی بھگتوں نے قاتلوں کی سرپرستی کی۔ عام مسلمانوں کو اس لیے سزاملی کہ وہ لیگ کے ساتھ تھے۔ ہمیں اس لیے سزا دی گئی کہ لیگ میں نہیں تھے اور کانگریس کے ساتھ تھے۔ عبادت گاہیں بھی محفوظ نہیں رہیں۔ انہیں اس طرح ڈھایا گیا جس طرح مسجد یں نہیں‘ مذبح تھے‘‘۔
گاندھی جی نے سنا تو انہیں ملال ہوا‘ لیکن مسکرائے پھر قہقہہ لگایا:
''مولوی صاحب! مجھے افسوس ہے‘ میں آپ سے اتفاق نہیں کر سکتا۔ آپ نے ہمارے لیے قید کاٹی؟ غلط ہے ۔ قید تو آپ نے دیش کی سوتنترا (آزادی ) کے لیے کاٹی۔ اور اپنا گھر آپ نے موت کے خوف سے چھوڑاہے۔ مسجدوں کی توہین کے ذمے دار آپ ہیں۔ آپ ان کے لیے مٹ جاتے۔ اگر آپ وطن کے لیے قید کاٹ سکتے تھے تو کیا خانۂ خدا کے لیے مر نہیں سکتے تھے‘‘؟
مولانا نے یہی رام کہانی سردار پٹیل کو سنائی‘ تو جواب ملا''اس فساد کی ذمہ دار لیگ ہے۔ آغاز اس کی طرف سے ہوا۔ مسلمان من حیث الکل آزادی کی تحریک سے الگ رہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ ہم حصول آزادی کے بعد ان ہندوئوں پر گولی چلائیں‘ انہیں قتل کریں‘ یا قتل ہوتا دیکھیں؟ یہ ناممکن ہے۔ ہم لوگ احراری نہیں کہ قربانی بھی کریں‘ قوم سے گالیاں بھی کھائیں اور سارے ملک میں تماشا ہو کر رہ جائیں۔ جس قوم نے ہمیں اقتدار دیا ہے‘ اس سے بدعہدی ہو گی بلکہ غداری کہ آزادی کے بعد اس جماعت کے لیے ہم اس (ہندو) پر گولی چلائیں جو آزادی کی دشمن رہی ہے۔‘‘؟
قارئین ! آغاشورش کاشمیری کے قلم سے یہ المیہ کہانی ختم ہوئی۔ اب ڈاکٹر بصیر احمدسے ہماری ملاقات کی روداد‘ جو جدّہ میں ہوئی اور جس میں ہمارے لیے کئی نئے پہلو تھے۔ ڈاکٹر بصیر احمد 1960ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر رہے۔ سر پر جناح کیپ اور جسم پر شیروانی کے ساتھ وہ دور ہی سے پہچانے جاتے۔ وزیر اعظم جواہر لعل نہرو‘ یونیورسٹی آئے تو دوستوں نے مشورہ دیا کہ پنڈت جی کے سامنے جناح کیپ پہننا شاید مناسب نہ ہو۔ بصیر احمد کا جواب تھا:سیکولر جمہوریہ کا آئین مجھے اپنی پسند کا لباس پہننے کی اجازت دیتا ہے پھر میں جناح کیپ کیوں اتاروں؟ جدہ کی اس گفتگو میں ڈاکٹر بصیر احمد کا کہنا تھا ‘ پاکستان بنا تو ‘ آل انڈیا مسلم لیگ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ قائد ملت محمد اسماعیل انڈین یونین مسلم لیگ کے صدر قرار پائے۔ انہیں یہ ذمہ داری خود جناح صاحب نے سپرد کی تھی اور ساتھ ہی یہ تاکید بھی کہ'' انڈین شہری کی حیثیت سے اب وہاں کے دستور کی پابندی مسلمانان ہند پر فرض ہے ۔ وہ محب وطن انڈین کی حیثیت سے وہاں کی سیاسی و اجتماعی زندگی میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں‘‘۔ تقسیم کے بعد جنوبی ہند کے مسلمانوں نے مسلم لیگ کو قائم رکھا اور فائدے میں رہے۔ شمالی ہند کے مسلمانوں نے مسلم لیگ سے منہ موڑ کر کبھی کانگریس اور کبھی دوسری جماعتوں سے امیدیں وابستہ کیں‘ نتیجتاً خسارے میں رہے۔ اب شمالی ہند کے مسلمانوں میں بھی اپنی جماعت کی ضرورت اور اہمیت کا احساس بڑھ رہا ہے۔''مسلمانوں کی اپنی جماعت اور وہ بھی مسلم لیگ کے نام سے؟ اس سے تو ''تقسیم‘‘ کے زخم پھر تازہ نہیں ہو جائیں گے اور نتیجہ ہندو‘ مسلم کشیدگی اور فسادات کی صورت میں نہیں نکلے گا‘‘؟ ... ''دیکھئے! جنوب میں مسلمانوں کی اپنی جماعت ہے تو وہاں نہ صرف فسادات نہیں ہوتے بلکہ مسلمان اپنا سیاسی وزن بھی پوری طرح محسوس کرواتے اور اس کی پوری پوری سیاسی قیمت بھی وصول کرتے ہیں مسلم لیگ پہلے صرف جنوبی ہند میں پارلیمانی قوت تھی۔ من موہن حکومت میں وہ مرکز میں بھی اقتدار میں حصے دار بنی۔ باقی رہی ہندو‘ مسلم کشیدگی کی بات ‘ یہ جو آزادی اور تقسیم کے بعد شمالی ہندوستان میں فسادات ہوتے رہتے ہیں۔ بابری مسجد کا سانحہ اور پھر2002ء میں گجرات میں نریندر مودی کی حکومت میں جو بدترین مسلم کش فساد ہوا‘ کیا یہ وہاں مسلمانوں کی کسی جماعت کے قیام کا ردعمل تھا‘‘ ؟