"RTC" (space) message & send to 7575

الیکشن کمیشن سے دارالعلوم حقانیہ تک

تحریک ِانصاف یا عمران خان کا یہ ایک اور''یوٹرن‘‘ سہی لیکن کیا ضروری ہے کہ ہر ''یوٹرن‘‘ کا مذاق اڑایا جائے۔ کوئی ''یوٹرن‘‘ مناسب بھی تو ہو سکتا ہے۔ 
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں، دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
تحریکِ انصاف نے وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف اثاثے چھپانے کے الزام میں الیکشن کمیشن میں نااہلی کا ریفرنس دائر کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن فی الوقت نا مکمل ہے، اس کے چاروں صوبائی ارکان ریٹائر ہو چکے۔ نئے ارکان کے تقرر کے لئے حکومت اور قائدِ حزبِ اختلاف میں رابطوں کا آغاز ہوا ہے۔ قائدِ حزبِ اختلاف اس کے لئے حزبِ اختلاف کی دیگر جماعتوں (خصوصاً تحریکِ انصاف) سے بھی مشاورت کریں گے۔ یہ آئینی تقاضا نہ سہی جمہوریت کی روح کا تقاضا ضرور ہے۔ 2013ء کے عام انتخابات کے لئے نگران حکومتوں کی تشکیل کا مرحلہ درپیش تھا، تب چودھری نثار علی خان قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف تھے۔ وفاق میں نگران حکومت کی تشکیل ان سے مشاورت کے ساتھ عمل میں آنا تھی۔ 2008ء کے انتخابات کے بائیکاٹ کے باعث پی ٹی آئی اسمبلیوں میں بے وجود تھی، لیکن چودھری نثار نے عمران خان سے مشاورت ضروری سمجھی۔ تازہ ترین (22ویں ) آئینی ترمیم میں الیکشن کمیشن کے ارکان کے لئے اعلیٰ عدلیہ کے ریٹائرڈ ججوں کی شرط ختم کر دی گئی ہے۔ اب اس کے لئے ریٹائرڈ بیوروکریٹس اور ٹیکنوکریٹس کا انتخاب بھی ہو سکتا ہے، لیکن خان نے گزشتہ روزکی پریس کانفرنس میں الیکشن کمیشن کو پی ایم ایل (این) کا الیکشن کمیشن قرار دیتے ہوئے اگلے لائحہ عمل کا اعلان بھی کر دیا کہ اگر الیکشن کمیشن سے انصاف نہ ملا تو سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔ تو کیا عید کے بعد سڑکوں پر آنے 
کا فیصلہ ترک کر دیا گیا؟ جس کی کامیابی کے سامنے کئی سوالیہ نشانات تھے۔ شدید گرمی کا موسم، اوپر سے سیلاب (جن کے بارے میں محکمہ ٔ موسمیات کا کہنا ہے کہ اس سال غیر معمولی ہوں گے) پھر عوام کا موڈ، گیلپ کے تازہ ترین سروے کے مطابق پاکستان کے 68 فیصد عوام وزیرِاعظم کے استعفیٰ کے مطالبے سے متفق نہیں۔ اسی سروے میں 84 فیصد عوام جمہوریت کے حق میں رائے دے چکے ہیں۔ گویا وہ سڑکوں پر آنے اور جاتی عمرہ میں دھرنا دینے کے نتیجے میں کسی غیر جمہوری سیٹ اپ کے حامی نہیں۔ حکومتوں کا تختہ الٹنے کے لئے سٹریٹ ایجی ٹیشن میں شہری طبقات خصوصاً تاجروں اور دکانداروں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ علامہ طاہر القادری کے دھرنے کے اعلان پر لاہور کی مال روڈ اور اس سے متصل بازاروں اور مارکیٹوں کا شدید ردِ عمل ان کے موڈ کا غماز تھا۔ مسلح افواج کی طرف سے جمہوریت کی حمایت میں تازہ بیان بھی خان کے اس ''یوٹرن‘‘ کا باعث بنا ہوگا۔
خان کے دعوے کے مطابق وزیرِ اعظم کے خلاف یہ ریفرنس ٹھوس شواہد پر مبنی ہے۔ یاد آیا، دھاندلیوں کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا اعلان ہوا تو خبر آئی کہ پاکستان تحریکِ انصاف ثبوت و شواہد ایک ٹرک میں لاد کر لے جائے گی، لیکن کارروائی شروع ہوئی تو اس کے پاس سیٹھی کے 35 پنکچروں سے لے کر لاہور میں حساس ادارے کے بریگیڈیر کی مداخلت، چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور جسٹس رمدے کا دھاندلی منصوبہ اور اس میں ریٹرننگ افسروں کا کردار اور اردو بازار سے جعلی بیلٹ پیپروں کی چھپائی تک کسی الزام کا کوئی ثبوت نہ تھا۔ چنانچہ جوڈیشل کمیشن نے ان انتخابات کو کسی منظم دھاندلی سے پاک اور عوام کے مینڈیٹ کے مطابق قرار دے دیا۔ 
برطانیہ کے عوام نے تاریخی ریفرنڈم میں یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ اس حوالے سے وہاں کی تینوں بڑی پارٹیوں، لیبر، کنزرویٹو اور لبرل میں رائے منقسم تھی۔ چنانچہ اس مسئلے پر ان میں سے کسی کی کوئی ''پارٹی پالیسی‘‘ نہیں تھی، البتہ وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون یورپی یونین سے وابستگی کے حق میں تھے۔ اب ایک باقاعدہ اور باضابطہ ریفرنڈم میں عوام کا فیصلہ اس کے برعکس آیا تو انہوں نے اکتوبر میں وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔ کیا اسے وزیرِ اعظم نواز شریف کے استعفے کے لئے مثال بنایا جاسکتا ہے؟ کیا وزیرِ اعظم کسی مقدمے میں مجرم ثابت ہو چکے؟ کیا کسی مسئلے پر ریفرنڈم میں عوام نے ان کے خلاف فیصلہ دے دیا؟ گیلپ کے تازہ سروے کو ایک طرف رکھ دیں، مئی 2013ء کے عام انتخابات اور اس میں قائم ہونے والی نواز شریف حکومت کے بعد جتنے بھی ضمنی انتخابات ہوئے، ان میں ایک دو کے سوا تمام انتخابات مسلم لیگ (ن) نے پہلے سے بھاری اکثریت سے جیتے۔ ان میں خود کپتان کے اپنے صوبے خیبر پختونخوا میں ہونے والے ضمنی انتخابات بھی شامل تھے۔ پاناما لیکس کے بعد ہونے والے ضمنی انتخابات میں بھی ووٹرز نے نواز شریف کی (ن) لیگ پر اعتماد کا اظہارکیا۔ ان میں بلوچستان میں ہونے والا قومی اسمبلی کا ضمنی انتخاب بھی تھا، جس میں تحریکِ انصاف کے سردار یار محمد رند (ن) لیگ کے امیدوار کے مقابلے میں نصف ووٹ بھی بمشکل حاصل کر پائے تھے۔ نواز شریف کہہ چکے، آف شور کمپنیوں میں وہ مجرم قرار پائے تو گھر چلے جائیں گے (خان اپنے سیاسی حریف کو جیل میں ڈالنے کا اعلان کرتا ہے۔) 
بنی گالا میں گزشتہ روز کی پریس کانفرنس میں دارالعلوم حقانیہ (اکوڑہ خٹک) کے لئے خیبر پختونخوا کے 30 کروڑ روپے کے عطیے کی بات بھی ہوئی۔ اس پر تنقید کرنے والوں کو بے وقوف قرار دیتے ہوئے خان کا کہنا تھا، کیا وہ نہیں چاہتے کہ دینی مدارس کے 22 لاکھ طلبہ بھی مین اسٹریم میں آئیں؟ انہیں بھی جدید سکولوں جیسی سہولتیں حاصل ہوں؟ خان ہمیں بھی بے وقوفوں میں شامل کر لیں جنہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ صرف مولانا سمیع الحق کے مدرسے کو 30 کروڑ دینے سے ملک بھر کے دینی مدارس کے 22 لاکھ طلبہ مین اسٹریم میں کیسے آجائیں گے؟ اور اس کی بھی کیا ضمانت کہ یہ خطیر رقم خود دارالعلوم حقانیہ کو مین اسٹریم میں لانے کا باعث بن جائے گی؟ اس سے یہاں کے حالاتِ کار اور شرائطِ ملازمت بہتر ہو جائیں گے؟ البتہ ہمیں اپنے بعض دوستوں کی طرف سے دارالعلوم حقانیہ کے ماضی کو ہدفِ تنقید بنانے پر اتفاق نہیں۔ 
تحریکِ پاکستان میں کس کا کیا رول تھا، یہ تاریخ کا حصہ بن چکا۔ موجودہ ہندوستان کے مسلمان ''بن کے رہے گا پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان‘‘ کے نعرے لگانے والوں میں پیش پیش تھے۔ پاکستان بن گیا تو قائدِ اعظم نے اُدھر رہ جانے والے مسلمانوں کو ہندوستان کے آئین و قانون کے پابند شہری کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے کی تلقین کی۔ تقسیم کے ساتھ ایک نئے عہد کا آغاز ہوا تھا۔ ادھر پاکستان میں وہ بھی تھے جنہیں تقسیم سے اختلاف رہا تھا، لیکن اب وہ نوزائیدہ مملکتِ اسلامیہ کے شہری تھے۔ وہ یہاں سیاست کی مین اسٹریم میں آ گئے۔ جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں مفتی محمود، ایوب خان کے ساتھ تھے تو ولی خان اور ان کی جماعت قائدِ اعظم کی ہمشیرہ محترمہ کی پر زور حمایت کر رہی تھی۔ پھر ان لوگوں نے 1970ء کا انتخاب لڑا۔ بھٹو، مجیب اور یحییٰ خان کی ہٹ دھرمی اور ہوسِ اقتدار کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران کے پر امن سیاسی حل کے لئے انہوں نے مقدور بھر کوشش کی (بدقسمتی سے یہ بحران 25 مارچ کے ملٹری ایکشن اور بالآخر 16 دسمبرکے سرنڈر پر منتج ہوا۔) نئے پاکستان میں انہوں نے 1973ء کے آئین کی اتفاق رائے سے منظوری میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس میں دارالعلوم حقانیہ کے بانی مولانا عبدالحق بھی تھے۔ تب قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی، مسلم لیگ ، جمعیت علمائے پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام پر مشتمل متحدہ حزبِ اختلاف کے قائد نیشنل عوامی پارٹی کے خان عبدالولی خان تھے۔
سوویت یونین کے خلاف جہاد اورپھر افغان طالبان کے ظہور میں دارالعلوم حقانیہ کا کردار اس دور کی ریاستی پالیسی کے عین مطابق تھا۔ چنانچہ ہمیں ماضی کو کریدنے کی بجائے آج کی بات کرنی چاہیے اور آج کی بات یہ ہے کہ یہ گرانٹ سیاسی عطیہ ہے (سیاسی رشوت کہنا شاید مناسب نہ ہو۔) فضل الرحمن، نواز شریف کے حلیف ہیں تو ان کے سیاسی حریف مولانا سمیع الحق، خان کی صوبائی حکومت کی طرف سے 30کروڑ کی اس خطیر گرانٹ کے مستحق قرار پائے ہیں۔ باقی سب کہانیاں ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں