مجبوراً سہی‘ ایم کیو ایم اچھے بچوں کی طرح Behave کرنے لگی تھی۔ گزشتہ دسمبر کی یکم‘ دو کو ہم کراچی میں تھے۔ تین دن بعد یہاں بلدیاتی الیکشن ہونے والے تھے۔ جماعت اسلامی اورپاکستان تحریک انصاف باہم مل کر ایم کیو ایم کا مقابلہ کر رہی تھیں۔ اس سے چند ماہ قبل قومی اسمبلی کے حلقہ 246 کے ضمنی انتخاب میں دونوں ایک دوسرے کے مدمقابل تھیں۔ ایک خاص حکمت عملی کے تحت نبیل گبول سے استعفیٰ دلوا کر یہاں ضمنی انتخاب کا ڈول ڈالا گیا تھا۔ ایم کیو ایم کے لیے یہ خاصے بُرے دن تھے۔۔۔ چھاپے اور پکڑ دھکڑ۔ عزیز آباد میں الطاف حسین کی ہمشیرہ کا گھر بھی چھاپے سے محفوظ نہیں رہا تھا۔ ان حالات میں این اے246 کا ضمنی انتخاب ایم کیو ایم کے لیے حقیقی ٹیسٹ بن گیا تھا‘ ایک سنگین چیلنج۔۔۔ رینجرز کی کڑی نگرانی میں کسی دھاندلی کا امکان نہ تھا۔ ''ریاست‘‘ نے فری اینڈ فیئر الیکشن کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ اس کے باوجود ایم کیو ایم 95 ہزار ووٹ لے گئی۔ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے ووٹ مل کر بھی تیس بتیس ہزار سے زیادہ نہ تھے۔
1980ء کی دہائی کے وسط تک جماعت اسلامی یہاں کی تین چار بڑی سٹیک ہولڈرز میں شمار ہوتی تھی۔ 1985ء میں مہاجر قومی موومنٹ کا ظہور ہوا اور وہ کراچی و حیدر آباد کے سیاسی و انتخابی افق پر چھا گئی۔ نورانی میاں ''مہاجر عصبیت‘‘ کے خلاف پورے قد کے ساتھ کھڑے رہے جبکہ ان کی جمعیت علماء پاکستان کے کارکن ہی نہیں‘ اس کے بڑے بڑے لیڈروں نے بھی عافیت کی راہ لی۔ جماعت اسلامی کو داد دینی چاہیے کہ ووٹروں کی بڑی تعداد سے محروم ہونے کے باوجود اس کے قائدین اور کارکنوں نے بے مثال استقامت کا ثبوت دیا۔
اب کراچی کا سیاسی کلچر بدل چکا تھا۔ پرامن سیاسی جدوجہد کی بجائے تشدد کا دور دورہ تھا۔ ٹارچر سیل‘ ٹارگٹ کلنگ‘ بوری بند لاشیں‘ ڈرل مشینیں‘ لیکن جماعت اسلامی اور اس کی تنظیم بڑی سخت جان نکلی۔ نواز شریف کی زیر قیادت مسلم لیگ بھی اپنا وجود منوانے لگی تھی۔1997ء کے عام انتخابات میںاس نے کراچی سے قومی اسمبلی کی 2 سیٹیں نکال لی تھیں۔ 2002ء کے عام انتخابات میں جب اسٹیبلشمنٹ کراچی کی حد تک غیر جانبدار تھی، جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام (ف) نے یہاں متحدہ مجلس عمل کے انتخابی نشان (کتاب) کے ساتھ قومی اسمبلی کی پانچ نشستیں جیت لی تھیں۔ تین نشستیں پیپلز پارٹی اور ایک نشست آفاق احمد کی ایم کیو ایم (حقیقی) لے اڑی۔ حیدر آباد میں جے یو پی کے صاحبزادہ ابوالخیر ایم ایم اے کے ٹکٹ پر جیت گئے۔
اور پھر ایم کیو ایم پرویز مشرف کی اتحادی ہوگئی۔ جناب عشرت العباد کی گورنری کے ساتھ‘ صوبائی حکومت میں داخلہ سمیت اہم وزارتیں اس کے پاس تھیں۔ وفاق میں بھی وہ مشرف کی قاف لیگ کے ساتھ شیر و شکر ہو گئی تھی۔ پھر 2008ء آ گیا۔ تب حالات میں جوہری تبدیلی آ چکی تھی۔ ڈکٹیٹر کی گرفت پہلے جیسی نہیں رہی تھی۔ عملاً وہ Lame Duck بن کر رہ گیا تھا۔ جنرل کیانی کی سربراہی میں فوج سیاست سے لاتعلق ہو کر اپنے اصل کام کی طرف لوٹ گئی تھی۔ کراچی میں پچاس لاشوں والے12مئی کے زخم ابھی پرانے نہیں ہوئے تھے۔ نواز شریف وطن واپس آ چکے تھے۔ محترمہ کا قتل پیپلز پارٹی کے لیے سنگین صدمہ تھا لیکن ان کا خون پیپلز پارٹی کو نئی توانائی دے گیا تھا۔ ایم کیو ایم میں اب پہلے والی بات نہ رہی تھی۔ حالات ساز گار تھے لیکن جماعت اسلامی نے انتخابات کے بائیکاٹ کی راہ اپنائی اور ایم کیو ایم کا کام آسان ہو گیا۔ کراچی میں اس کی نمائندہ حیثیت (2002ء کی نسبت) کہیں زیادہ مضبوط ہو گئی تھی۔
گیارہ مئی2013ء کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی آدھے راستے سے واپس ہو گئی۔ دوپہر ایک بجے اس نے بائیکاٹ کر دیا لیکن اس کا فائدہ تحریک انصاف کو یوں پہنچا کہ جماعت کا جو ووٹ گھر سے نکل آیا تھا‘ تحریک انصاف اس کا چوائس ہو گئی۔ این اے 246 کے ضمنی انتخاب کے تلخ تجربے کے بعد اب بلدیاتی الیکشن میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے باہم مل کر ایم کیو ایم کے مقابلے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے نتیجہ وہی نکلا، ڈھاک کے تین پات۔ ایم کیو ایم پھر تقریباً کلین سویپ کر گئی تھی۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے اتحاد سے زیادہ سیٹیں تو مسلم لیگ ن (نیم دلی سے الیکشن لڑنے کے باوجود) لے گئی تھی۔
اور یہ بلدیاتی الیکشن سے تین روز پہلے کی بات تھی۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر جناب حافظ نعیم الرحمن کی میزبانی سے لطف اندوز ہونے کے بعد کراچی میں ہمارے یارِ مہربان نصیر احمد سلیمی کے ذریعے فاروق ستار سے رابطہ ہوا تو انہوں نے کہا 6 بجے کے بعد چلے آئو۔ ہم جناب عطاء الرحمن اور سلیمی صاحب کے ہمراہ عزیز آباد پہنچے تو
جناح گرائونڈ میں پتنگ میلے کی تیاریاں تھیں۔ یہاں امین الحق بھی تھے۔ ہم ان کے ساتھ نائن زیرو چلے آئے۔ اسی دوران نسرین جلیل بھی آ گئیں۔ شاید ہمارے بیشتر قارئین کے لیے یہ بات دلچسپ انکشاف کی حیثیت رکھتی ہو کہ نسرین جلیل کا پیدائشی تعلق لاہور سے ہے۔ پاکستان بنا تو نسرین کے والد جناب ظفرالاحسن لاہور کے پہلے ڈپٹی کمشنر تھے(متحدہ ہندوستان میں الٰہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے اکنامکس میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے کے بعد وہ انڈین سول سروس میں منتخب ہو گئے تھے۔) لاہور میں ان کا گھر جیل روڈ پر تھا۔ نسرین کو انہوں نے دبستان صوفیہ میں داخل کرا دیا۔ نسرین کو یاد ہے کہ تب وہ اپنے دیگر بہن بھائیوں کے ساتھ چار نمبر بس پر یاتانگے پر اسکول جاتی تھیں کہ سرکاری گاڑی صرف سرکاری استعمال کے لیے تھی۔ ڈپٹی کمشنر صاحب اسے اپنی فیملی مصروفیات کے لیے استعمال نہیں کرتے تھے۔ نسرین نے آٹھویں تک یہیں تعلیم حاصل کی۔ اسی دوران ظفر صاحب نے لندن میں گھر خرید لیا اور نسرین سمیت چاروں بہن بھائی مزید تعلیم کے لیے لندن چلے گئے۔ تب اس کی عمر صرف بارہ سال تھی۔
فاروق ستار کا کہنا تھا‘ ستمبر2013ء میں میاں صاحب نے کراچی کی روشنیاں لوٹانے اور یہاں امن و امان بحال کرنے کا فیصلہ کیا تو ہم نے اس کارِ خیر میں بھر پور تعاون کا اعلان کیا (تب جنرل کیانی سپہ سالار تھے) پھر ضرب عضب میں بھی ہم کسی سے پیچے نہ رہے۔ پرائم منسٹر ہائوس میں اس سلسلے میں منعقد میٹنگ اختتام کو پہنچی تو جنرل راحیل شریف پاس آئے اور میرے کندھے پر باقاعدہ تھپکی دی۔ فاروق ستارکہہ رہے تھے: پالیٹکس کو کرائم سے علیحدہ کرنے کا کام تو اپنی صفوں میں خود ہم نے 2012ء میں شروع کر دیا تھا۔ تب سے اب تک ہم تین ہزار سے زائد افراد کو اپنی صفوں سے نکال چکے ہیں۔ اس سال مئی میں ایجنسیوں نے جارحانہ آپریشن شروع کیا تو ہم نے اس کی بھی مزاحمت نہ کی۔ ہمارے سینکڑوں لوگ پکڑے گئے اور تفتیش کے مراحل میں بے گناہ قرار پا کر لوٹ آئے۔ ڈھائی تین ہفتے پہلے ڈی جی رینجرز کی دعوت پر مفصل میٹنگ میں ان سے تبادلہ خیال ہوا۔ ہمارے خیال میں یہ ملاقات اعتماد افزا تھی لیکن رینجرز کے قتل کے بعد پھر پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی۔ فاروق ستار پُر امید تھے کہ بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم کی کامیابی کی صورت میں کرائم کو پالیٹکس سے الگ کرنے کے لیے آپریشن جاری رہ سکتا ہے، اس کے لیے صرف باہم اعتماد کی ضرورت ہے۔
ایم کیو ایم نے بلدیاتی الیکشن بھاری اکثریت سے جیت لیا۔ 9ماہ بعد‘ آج جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں‘ کراچی کے میئر کا انتخاب ہو رہا ہے۔ ایم کیو ایم کے امیدوار وسیم اختر جیل سے ووٹ ڈالنے آئے۔ وہ 12مئی کے قتل عام سمیت متعدد سنگین مقدمات میں زیر حراست ہیں۔ مصطفی کمال (اور انیس قائم خانی) کا پاک سرسزمین پارٹی کا تجربہ بھی مطلوبہ نتائج نہیں لا سکا۔ اپنے مسنگ پرسنز کے لیے بھوک ہڑتال اس کا آئینی جمہوری حق تھا۔ معاملات پرامن‘ سیاسی و جمہوری طریقے سے آگے بڑھ رہے تھے کہ سوموار کی سہ پہر قائد تحریک کے ''خود کش حملے‘‘ نے سارا منظر بدل دیا۔ اب ایم کیو ایم اپنے سروائیول کی (شاید) آخری کوشش کر رہی ہے۔ فاروق ستار(اور ان کے رفقا) کی حکمت عملی کیا رنگ لاتی ہے؟ اس حوالے سے یقین کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے۔ لیکن مہاجروں کو سیاسی دھارے میں رکھنا ضروری ہے اور ہمارے خیال میں تو یہ کارِ خیر فاروق ستار کی حکمت عملی کے ذریعے ہی انجام پا سکتا ہے۔