"RTC" (space) message & send to 7575

’’انتخابات 2013ء… کالم کہانی‘‘

جنابِ عرفان صدیقی کے لئے یہ ایک مشکل فیصلہ تھا۔ میاں صاحب کی پیشکش قبول کرنے میں خود ان کا اپنا فکر و فلسفہ حائل تھا۔ اخلاقیات کے کچھ معیار ہمارا مذہب اور ہماری معاشرتی اقدار متعین کرتی ہیں، اور کچھ اخلاقی اصول انسان خود اپنے لئے مقرر کر لیتا ہے۔ عرفان صاحب کو یہ دوسرا معاملہ درپیش تھا۔ دسمبر 2013ء کی اس شام پرائم منسٹر ہاؤس میں میاں صاحب پھر یہی بات لے بیٹھے تھے۔ اس روز ہم بھی اسلام آباد میں تھے اور میاں صاحب نے ملاقات کے لئے شام کو طلب کر لیا تھا۔ اس غیر سرکاری اور غیر سیاسی ملاقات میں مریم بی بی بھی چلی آئی تھیں۔ میاں صاحب کی خواہش تھی کہ عرفان صاحب ان کے معاونِ خصوصی برائے قومی امور کی ذمے داری قبول کر لیں۔ عرفان صاحب کو متذبذب پا کر میاں صاحب نے ہمیں مخاطب کیا اور ہنستے ہوئے کہا، آپ ہی میری طرف سے سفارش کر دیں اور پھر گفتگو کا رخ ایک اور طرف مڑ گیا۔ 
ہم نے ڈرائیور واپس بھجوا دیا تھا کہ ہمیں ہوٹل ڈراپ کرنے کی ذمہ داری عرفان صاحب نے رضاکارانہ اٹھا لی تھی‘ اور واپسی پر ہم نے عرفان صاحب سے کہا: آخر آپ وزیرِ اعظم کی یہ پیشکش قبول کیوں نہیں کر لیتے؟ ان کا جواب تھا: اس حوالے سے تمہیں میرا فلسفہ معلوم ہے کہ سرکاری ذمہ داری قبول کر لینے کے بعد میں کالم لکھنا چھوڑ دوں گا... لیکن آپ کالم نویسی جاری بھی تو رکھ سکتے ہیں۔ اس کے لئے مثالیں موجود ہیں (جدے سے واپسی پر ہم وزیرِ اعلیٰ کے میڈیا کنسلٹنٹ ہو گئے لیکن کالم نویسی بھی جاری رکھی۔ میاں صاحب کی موجودہ حکومت میں ہم ریلوے کے ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشن کی ذمہ داری کے ساتھ کالم نویسی بھی کرتے رہے۔ مارچ کے بعد یہ سرکاری ذمہ داری ختم ہوئی اور اب ہم آزاد و مختار ہیں) عرفان صاحب کا کہنا تھا: لیکن میرا دل نہیں مانتا۔ یہ بجا کہ کالم نویس غیر جانبدار نہیں ہوتا۔ مختلف مسائل پر اس کی رائے کسی کے حق میں اور کسی کے خلاف جاتی ہے‘ لیکن یہ اس کی اپنی رائے ہوتی ہے۔ میں عموماً سیاستِ حاضرہ پر لکھتا ہوں۔ کسی مسئلے پر میری رائے سرکار کی پالیسی سے مختلف بھی ہو سکتی ہے، لیکن سرکار کاحصہ بن جانے کے بعد (خود ان کے اپنے الفاظ میں ''دسترخوانی قبیلہ‘‘) پالیسی سازی کے مرحلے میں وہ جو بھی رائے دیں، فیصلہ ہو جانے کے بعد انہیں اس کی پابندی کرنی چاہیے۔ 
ایک بڑے اخبار سے وابستہ ایک مقبول کالم نگار کے لئے اپنے قارئین سے قطع تعلق یقینا آسان نہ تھا، لیکن عرفان صدیقی بالآخر یہ مشکل فیصلہ کر گزرے۔ 2014ء کے اوائل میں وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے قومی امور کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد انہوں نے کالم نویسی کو طلاق دے دی، لیکن یہ طلاقِ رجعی ہے۔ انہوں نے 1998ء میں صدرِ مملکت رفیق تارڑ کا پریس سیکرٹری بننے کے بعد بھی یہی کیا تھا۔ جناب تارڑ کے ساتھ عرفان صاحب کے آغازِ تعلق کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ 1989ء میں فیڈرل سر سید کالج راولپنڈی سے اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر رضاکارانہ ریٹائرمنٹ لے کر انہوں نے صحافت کو ہول ٹائم جاب کے طور پر اختیار کر لیا تھا۔ تب ان کی عمر 45-46 سال تھی اور سرکاری قواعد کے مطابق ریٹائرمنٹ میں 14-15 سال پڑے تھے۔ 1994-95ء میں انہوں نے کراچی کے ہفت روزہ تکبیر کے لئے تارڑ صاحب کا انٹرویو کیا۔ یہ محترمہ کا دوسرا دورِ حکومت تھا۔ سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے ریٹائرمنٹ پر انہوں 
نے فل کورٹ ریفرنس دینے سے معذرت کر لی تھی‘ اور اب حکومت انہیں واجبات کی ادائیگی کے سلسلے میں پریشان کر رہی تھی۔ کم آمیز رفیق تارڑ اخبار والوں سے میل ملاقات کم ہی رکھتے تھے، لیکن تکبیر کے لئے عرفان صاحب کو انٹرویو دینے پر آمادہ ہو گئے۔ اس انٹرویو میں انہوں نے بعض ججوں کے بارے میں ان کے کچھ ریمارکس بھی تھے۔ اس وقت تو کسی نے اس کا نوٹس نہ لیا۔ پھر دسمبر 1997ء میں لغاری صاحب کے استعفیٰ کے بعد وہ مسلم لیگ کے صدارتی امیدوار بنے تو مخالفین نے اس انٹرویو کے حوالے سے ان کی نااہلی کی درخواست دے دی کہ توہین عدالت کا مرتکب صدارتی امیدوار نہیں ہو سکتا۔ اس پر الیکشن کمیشن نے انہیں نااہل قرار دے دیا۔ تارڑ صاحب اپیل میں چلے گئے۔ وکیل کا مشورہ تھا کہ آپ انٹرویو کی متنازع باتوں سے یہ کہہ کر اظہار لاتعلقی کر دیں کہ انٹرویو نگار زیبِ داستان کے لئے کچھ رنگ آمیزی بھی کر دیتے ہیں۔ اس سے آپ کو ریلیف ملنے میں آسانی 
ہو جائے گی‘ لیکن تارڑ صاحب کا جواب تھا: صدارت جائے بھاڑ میں، میں اس کے لئے جھوٹ نہیں بولوں گا۔ عدالت میں ان کا کہنا تھا کہ میں اس انٹرویو کے ایک ایک لفظ کو ''اون‘‘ کرتا ہوں... بہرحال ہائیکورٹ سے انہیں ریلیف مل گیا۔ یکم جنوری 1998ء کو تارڑ صاحب نے صدارت کا حلف لیا‘ اور 15 جنوری کو عرفان صدیقی ان کے پریس سیکرٹری ہو گئے۔ 12 اکتوبر 1999ء کے فوجی ٹیک اوور کے بعد عرفان صاحب نے جناب صدر سے رخصت چاہی لیکن ان کا جواب تھا: اکٹھے آئے ہیں، اکٹھے جائیں گے (صدر تارڑ نے اس غیر آئینی اقدام کے باوجود Continue کیوں کیا؟ یہ کہانی پھر سہی)۔ 20 جون 2001ء کو ڈکٹیٹر نے پی سی او کے تحت تارڑ صاحب کو صدارت سے سبکدوش کیا‘ تو عرفان صاحب بھی مستعفی ہو گئے، حالانکہ ڈکٹیٹر کے ترجمان میجر جنرل راشد قریشی کی طرف سے یہ پیشکش موجود تھی کہ عرفان صاحب سبکدوش نہ ہوں۔ اسی طرح کی پیشکش 12 اکتوبر 1999ء کے بعد جناب عطاالحق قاسمی کے لئے بھی تھی کہ وہ سفیر کی حیثیت سے کام کرتے رہیں، لیکن وہ بھی اس پر آمادہ نہ ہوئے۔ 
رواں سال (2016ء) کے اوائل میں عرفان صدیقی کو نئی ذمے داریاں سپرد ہوئیں۔ اب وہ وزیرِ اعظم کے مشیر برائے قومی ورثہ و ادبی تاریخ ہیں (یہ منصب وفاقی وزیر کے مساوی ہے)۔ اکادمی ادبیات، مقتدرہ قومی زبان، نیشنل بک فاؤنڈیشن، اردو سائنس بورڈ، قائدِ اعظم اکیڈمی، قائد اعظم مزار مینجمنٹ بورڈ، علامہ اقبال اکیڈمی، ایوانِ اقبال، اردو ڈکشنری بورڈ، نیشنل لائبریری، آرکیالوجی اور میوزیمز سمیت کوئی درجن بھر ادارے اس میں آتے ہیں۔ یہ ادارے ایک عرصے سے بیوروکریسی کے زیرِ تصرف تھے۔ عرفان صاحب نے آتے ہیں ان کی اوورہالنگ اور تنظیم نو کی طرف توجہ دی۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن میں انعام الحق جاوید پہلے ہی آ چکے تھے۔ اب باقی اداروں کے لئے بھی ان کے شایانِ شان ان کے سربراہوں کا انتخاب ہو چکا۔ چند روز میں نوٹیفکیشن بھی ہو جائے گا۔ 
قارئین سے عدم رابطے کے اس دور میں قندِ مکرر کے طور پر عرفان صاحب کے کالموں کا مجموعہ منظرِ عام پر آیا ہے... انتخابات 2013ء کالم کہانی... یہ 24 اکتوبر 2011ء سے 20 دسمبر 2013ء تک شائع ہونے والے کالموں کا انتخاب ہے۔ ''انتخابات کا امکانی منظرنامہ‘‘ سے ''خان صاحب کے تحفظات تک‘‘ یہ ایک سو کالم ہے۔ 30 صفحات کے ''حرفِ آغاز‘‘ میں 2014ء کی دھرنا مہم اور انتخابی دھاندلیوں کے الزامات کا جائزہ لینے کے لئے جوڈیشل کمیشن کے قیام اور انتخابات کو کسی منظم دھاندلی سے پاک اور عوامی رائے کے عکاس قرار دیے جانے کے فیصلے تک، کی کہانی سمٹ آئی ہے۔ 
شامی صاحب کے الفاظ میں ''2013ء کے انتخابات سے پہلے انہوں نے مختلف سیاسی جماعتوں کا جس طرح جائزہ لیا، ان کی خوبیوں اور کمزوریوں کی جس طرح نشاندہی کی اور ان کے دعووں اور وعدوں کو جس طرح میزان پر تولا، وہ ان کی ژرف نگاہی پر دلیل بن گیا۔ ان کی وہ تحریریں آج پڑھی جائیں تو انگلیاں دانتوں تلے دب جاتی ہیں... ان کا تازہ مجموعہ پاکستانی سیاست اور تاریخ کے طالب علموں کی بھرپور توجہ کا مرکز بنے گا‘‘۔ 
کالم نگار اور تجزیہ کار عرفان صدیقی نے پاکستان کے تاریخ کے فیصلہ کن مرحلے پر جو کچھ لکھا، اس حوالے سے اپنی فردِ عمل قوم کے سامنے رکھ دی ہے۔ اخبارات کے صفحات پر ہمارے کچھ اور سینئر کالم نگاروں کی فہم و دانش کے جواہر پارے بھی محفوظ ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ تاریخ اور تحقیق و تنقید کا کوئی طالب علم ذرا زحمت کرے اور انہیں بھی منظرِ عام پر لے آئے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں