1962ء میں ایوب خان کا مارشل لاء ختم ہوا۔ اگلے ہی سال پاکستان مخالف سیاسی سرگرمیوں کے الزام میں جماعت اسلامی خلافِ قانون قرار دے دی گئی‘ ملک بھر میں اس کے دفاتر سیل اور سیّد مودودیؒ سمیت بیشتر قائدین گرفتار کر لیے گئے۔ اس سے قبل ایک ملاقات میں جنابِ سیّد اور فیلڈ مارشل میں ایک دلچسپ مکالمہ بھی ہوا تھا۔ جنرل کا کہنا تھا‘ مولانا یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ علما کا سیاست میں کیا کام؟ سیّد نے ترت جواب دیا‘ علما تو سیاست میں حصہ لیتے رہے ہیں‘ آپ یہ بتائیے‘ فوج کا سیاست میں کیا کام؟ پابندی سے قبل لاہور میں جماعتِ اسلامی کے سالانہ اجتماع پر سرکاری سرپرستی میں غنڈوں کے حملے کا افسوسناک واقعہ ہو چکا تھا‘ جس میں جماعت کے رکن اللہ بخش جاں بحق ہو گئے۔ تب سید مودودیؒ تقریر کر رہے تھے‘ ''مولانا بیٹھ جائیے‘‘! جلسہ گاہ میں کئی آوازیں بلند ہوئیں۔ ''میں بیٹھ گیا‘ تو کھڑا کون رہے گا؟‘‘ تاریخ میں امر ہو جانے والا‘ عزم و استقامت کا شاہکار جملہ‘ سیّد نے اسی موقع پر کہا تھا۔ منصوبہ سازوں کا خیال تھا۔ اس حملے کے ردعمل میں جماعت تشدد پر اتر آئے گی اور یوں اس پر ہاتھ ڈالنے‘ اِسے خلافِ قانون قرار دینے کا ''جواز‘‘ ہاتھ آ جائے گا‘ لیکن ادھر صبر اور حوصلے کا بے مثال مظاہرہ تھا۔ اخبار نویسوں نے پوچھا‘ آپ یہ مقدمہ کس کے خلاف درج کرائیں گے؟ سیّد کا جواب تھا‘ ''ہم نے یہ مقدمہ اللہ کی عدالت میں درج کرا دیا ہے‘‘۔ بدترین اشتعال انگیزی کے باوجود‘ قانون کو ہاتھ میں نہ لینے کے باوجود‘ جماعت اسلامی خلافِ قانون قرار پائی۔
جماعت کی قیادت نے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ مغربی پاکستان ہائی کورٹ نے پابندی کے حق میں‘ جبکہ مشرقی پاکستان ہائی کورٹ نے پابندی کے خلاف فیصلہ دے دیا۔ معاملہ سپریم کورٹ میں گیا۔ جنابِِِ اے کے بروہی جماعت کی وکالت کر رہے تھے۔ چیف جسٹس کارنیلیس کی زیر صدارت سپریم کورٹ نے جماعت کی بحالی کا حکم سنا دیا۔ اسی دوران حزبِ اختلاف نے صدارتی انتخاب میں فیلڈ مارشل کے مقابلے میں مادر ملت کو اپنا امیدوار بنانے کا فیصلہ کیا‘ سید مودودیؒ جیل میں تھے‘ انہوں نے وہیں سے اس کی توثیق اور تائید کر دی (حکومت علما کے ایک گروہ سے عورت کی حکمرانی خلافِ اسلام ہونے کا فتویٰ حاصل کر چکی تھی اور زور و شور سے اس کا پروپیگنڈا بھی کیا جا رہا تھا)۔ جماعتِ اسلامی نے بحالی کے بعد مادرِملت کی انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لیا۔ مفتیٔ اعظم پاکستان‘ مفتی محمد شفیع نے بھی مادرِ ملت کے حق میں فتویٰ دے دیا تھا۔
سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد ''نئے پاکستان‘‘ میں یوں تو حزبِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِ اختلاف کی سبھی جماعتیں زیر عتاب رہیں‘ جاوید ہاشمی سمیت طلبہ قیادت پر بھی سرکار کی ''عنایت‘‘ کم نہ تھی‘ سردیوں کی راتیں‘ شاہی قلعے کا عقوبت خانہ اور برف کی سلیں۔ لیکن ولی خاں کی نیشنل عوامی پارٹی کا معاملہ ''قائِد عوام‘‘ کے لیے کچھ زیادہ ہی ناقابلِ برداشت ہو گیا تھا۔ 1970ء کے عام انتخابات کے بعد پیدا کئے جانے والے سیاسی بحران میں پاکستان کو بچانے کے لیے انہوں نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ ان کا خیال تھا‘ مشرقی پاکستان کی منتخب قیادت کے خلاف محاذ آرائی ملکی مفاد میں نہیں‘ انہوں نے مشرقی پاکستان کو فوجی آپریشن سے بچانے کی بھرپور کوشش کی۔ یہی بات بھٹو صاحب کے دل کی پھانس بن گئی تھی۔ ''نئے پاکستان‘‘ کے دو صوبوں‘ بلوچستان اور سرحد (موجودہ کے پی کے) میں مفتی محمود کی جمعیت اور ولی خاں کی نیپ کی مخلوط حکومتیں بنیں۔ صوبہ سرحد میں تو پھر بھی پیپلز پارٹی نظر آتی تھی (اگرچہ ڈیرہ اسماعیل خاں میں خود بھٹو‘ مفتی صاحب کے مقابلے میں الیکشن ہار گئے تھے) لیکن بلوچستان میں تو وہ نہ ہونے کے برابر تھی۔ وہاں عطاء اللہ مینگل ‘ مخلوط حکومت کے سربراہ تھے۔ دو صوبوں میں حزبِ اختلاف کی حکومت‘ بھٹو صاحب کے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔ انہوں نے عراقی اسلحہ کے سکینڈل میں مینگل حکومت کو برطرف کرنے کا فیصلہ کیا‘ تو مینگل ''بڑے بھائی‘‘ کی طرف لپکے‘ اپنی حب الوطنی کا یقین دلانے کے لیے انہوں نے پنجاب کا رخ کیا۔ لاہور میں واشگاف الفاظ میں وہ کہہ رہے تھے: بھٹو صاحب کی ہوسِ اقتدار قائدِ اعظم کا پاکستان توڑ چکی‘ اب ان کی آمرانہ روش کے نتیجے میں خدانخواستہ یہ رہا سہا پاکستان بھی ٹوٹ گیا تو ہم بلوچستان کا نام پاکستان رکھ دیں گے لیکن شُدنی ہو کر رہی۔ مینگل حکومت برطرف کر دی گئی‘ (سرحد میں مفتی صاحب احتجاجاً مستعفی ہو گئے)۔ نیشنل عوامی پارٹی کی قیادت یہ وار بھی سہہ گئی۔ لیاقت باغ راولپنڈی کے جلسے میں حکومتی سرپرستی میں ہونے والی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والوں میں بڑی تعداد سرحد کے پختونوں کی تھی۔ ولی خاں خود‘ لاشوں کے ساتھ پشاور گئے کہ کوئی اس سانحہ کو پنجاب اور پنجابیوں کے خلاف اشتعال انگیزی کے لیے استعمال نہ کر سکے۔ ان کا کہنا تھا‘ پختونوں کی لاشیں پنجاب سے ضرور آئی ہیں‘ لیکن ان کے قاتل پنجابی نہیں۔
اُدھر آئین سازی کا مرحلہ جاری تھا۔ ولی خاں‘ آئین ساز اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تھے‘ انہوں نے ملک کو متفقہ آئین دینے کے لیے بھرپور کردار ادا کیا۔ (اگرچہ بلوچستان سے سردار خیر بخش مری اور پنجاب سے احمد رضا قصوری اور بہاولپور صوبہ تحریک کے نام پر جیتنے والے چند ایم این ایز نے آئین پر دستخط نہیں کئے تھے) لیکن وہ جو اقبال نے کہا تھا ع
مرے کام کچھ نہ آیا یہ طریقِ نے نوازی
ولی خاں کی طرف سے بھٹو صاحب کا دل ''صاف‘‘ نہ ہوا۔1975ء میں نیشنل عوامی پارٹی کو خلافِ قانون قرار دے کر‘ ولی خاں سمیت نیپ کی پوری قیادت حوالہ زنداں کر دی گئی۔ معاملہ سپریم کورٹ میں گیا‘ چیف جسٹس حمودالرحمن بنچ کی صدارت کر رہے تھے۔ ولی خاں نے یہ کہہ کر بائیکاٹ کر دیا کہ بھٹو صاحب نے سانگھڑ (سندھ) میں ایک سیشن جج کو اس کی عدالت میں ہتھکڑی لگوا دی، آپ عدلیہ کے ایک رکن کو نہ بچا سکے‘ ہمیں کہاں انصاف دے پائیں گے؟
ولی خاں اور ان کے رفقا غداری کے الزام میں حیدر آباد ٹربیونل کے سپرد کر دیئے گئے۔ نیپ کی باقی ماندہ لیڈرشپ اور کارکنوں نے ڈیرہ غازی خاں سے آزاد رکن قومی اسمبلی سردار شیر باز مزاری کی زیر قیادت نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (این ڈی پی) بنا لی۔ بیگم نسیم ولی خاں بھی سردار صاحب کے شانہ بشانہ تھیں۔ این ڈی پی‘ پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کا اہم حصہ تھی۔ تب کسی نے ''نام بدل کر کام کرنے‘‘ کا الزام نہ لگایا۔ خود ذہین و فطین بھٹو صاحب کو بھی یہ نکتہ نہ سوجھا۔ ضیاء الحق کی آمد‘ نیپ والوں کے لیے باعث سعادت ثابت ہوئی۔ حیدر آباد ٹربیونل توڑ دیا گیا‘ ولی خاں اور ان کے رفقا رہائی کے بعد دوبارہ سرگرم ہو گئے۔
1985ء کے غیر جماعتی انتخابات سے شروع ہونے والے نئے سیاسی عمل کے بعد ولی خاں اور ان کے رفقاء کا کردار کسی بھی محب وطن سے کم نہ تھا۔ 1993ء میں ''پنجابی وزیر اعظم‘‘ کے خلاف ''پختون صدر‘‘ کی سازشی کارروائی میں وہ پنجابی وزیر اعظم کے ساتھ تھے۔ صدر نے پیغام بھجوایا، پختون قوم پرست لیڈر‘ پختون صدر کے مقابلے میں‘ پنجابی وزیر اعظم کی حمایت کیوں کر رہا ہے؟ ولی خاں کا جواب تھا‘ مسئلہ پنجابی‘ پختون کا نہیں‘ پارلیمنٹ کی بالادستی کا ہے اور میں پارلیمنٹ کے حمایت یافتہ وزیر اعظم کے ساتھ ہوں۔ ولی خاں کی اے این پی نواز شریف کی مسلم لیگ کی اتحادی بھی رہی اور 2008ء والی اسمبلی میں وہ کے پی کے میں پیپلز پارٹی کی اتحادی تھی۔ ہمیں یاد پڑتا ہے‘ پرویز خٹک بھی کبھی نیپ میں شامل رہے۔
مرتضیٰ اور شاہنواز (بھٹو کے صاحبزادگان) کی ''الذوالفقار‘‘ سے تو خود بڑی بیگم صاحبہ اور بے نظیر بھی اظہارِ لاتعلقی کرتیں۔ الذوالفقار کی مسلح کارروائیوں کی تفصیل میں جانے کا محل نہیں۔ پی آئی اے کا طیارہ اغوا کرکے کابل لے جانے اور وہاں اس کے ایک مسافر میجر طارق رحیم کو گولی مار کر لاش رن وے پر پھینک دینے سے لے کر چودھری ظہور الٰہی کے قتل تک، کیا کچھ اس کے کھاتے میں نہیں تھا؟ خود غلام مصطفی کھر نے ہندوستان میں مرتضیٰ کے ساتھ کھڑے ہو کر اعلان کیا تھا کہ ہم ہندوستانی ٹینکوں پر بیٹھ کر پاکستان جائیں گے۔ شاہنواز پیرس میں پراسرار موت کا شکار ہو گیا۔ مرتضیٰ واپس پاکستان آیا۔ سندھ سے الیکشن لڑا اور پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) بنا کر سیاست کے قومی دھارے میں شامل ہو گیا۔ پنجاب سے ڈاکٹر مبشر حسن‘ رائو رشید‘ اسحاق خاکوانی اور ہمارے دانشور دوست فرخ سہیل گوئندی جیسے لوگ اس کے ساتھ تھے۔
مرتضیٰ خود اپنی بہن کے (دوسرے) دور میں کراچی میں مارا گیا۔ لیٹر ہیڈ کی حد تک اس کی پارٹی اب بھی موجود ہے۔ بلاول‘ اپنی پیپلز پارٹی کو ذوالفقار علی بھٹو‘ نصرت بھٹو‘ بے نظیر بھٹو‘ مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو (تمام ''شہدا‘‘) کی پارٹی بھی قرار دیتا ہے۔