جناب جسٹس سعید الزماں صدیقی پر(2قسطوں کے) کالم میں 1997ء کے عدلیہ بحران کی کہانی سمٹ گئی تھی۔ نئے کالم کے لیے لکھنے کو بہت کچھ تھا لیکن اس دوران کچھ دوستوں کی ٹیلی فون کالز اور بعض کے ایس ایم ایس موصول ہوئے‘ مفہوم ایک سا تھا‘ سپریم کورٹ کے کوئٹہ بنچ کے حوالے سے جناب رفیق تارڑ کے بریف کیس کی بات کیوں بھول گئے؟ اشارتاً ہی سہی‘ اس کا ذکر بھی کر دیا ہوتا۔ خیالِ خاطِر احباب کے پیشِ نظر آج کا کالم جناب رفیق تارڑ اور کوئٹہ بنچ کے لیے ان کے بریف کیس کی کہانی پر۔
سادہ دل اور درویش منش‘ لیکن اپنی ہٹ کے پکے‘ بزرگ قانون دان اور سابق صدرِ مملکت کے متعلق کئی باتیں دلچسپ ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صدارت اور کچھ عرصہ سینیٹ کی رکنیت سے قبل وہ 28سال تک عدلیہ سے وابستہ رہے۔ سیشن کورٹ سے لاہور ہائی کورٹ کے جج بنے‘ پھر چیف جسٹس اور اس کے بعد سپریم کورٹ کے جج‘لیکن عدلیہ سے وابستگی کے پورے عرصے میں کبھی غیر ملکی دورے پر نہ گئے۔ بہت ناپ تول کر گھریلو اخراجات میں سے کچھ رقم جمع ہوئی تو حج یا عمرے کا قصد کر لیا۔''تو کیا اُس دور میں قانون دانوں کی کسی عالمی کانفرنس میں جانے کی سبیل بھی نہ نکلی‘‘؟ تارڑ صاحب کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری‘ ''نیت ہو تو راہیں بھی نکل آتی ہیں۔(پنجابی میں... من حرامی‘ حجتاں ڈھیر) لیکن ایک تو سیر سپاٹے کا ذوق نہ تھا اور دوسرے‘ سرکاری خرچ پر اس عیاشی کے لیے طبیعت کبھی آمادہ نہ ہوئی۔‘‘ یہاں انہوں نے ایک دلچسپ بات بھی بتائی‘ غلام حیدر وائیں وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو انہوں نے سرکاری خرچ پر بیرونِ ملک علاج پر پابندی عائد کر دی۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایک محترم جج ہر سال چھٹیوں میں''آنکھوں کے معائنے‘‘ کے لیے امریکہ جایا کرتے۔ وہ بھی اس پابندی کی زد میں آئے تو وزیر اعلیٰ کو کہلوا بھیجا کہ حکومت پنجاب کے کچھ کیس ان کی عدالت میں زیر سماعت ہیں‘ لیکن وائیں صاحب سرکاری پالیسی پر ڈٹے رہے۔ پھر بعض دُور اندیش مشیروں کا اصرار غالب آ گیا۔ جج صاحب کو ''سپیشل کیس‘‘ میں ‘ سرکاری خرچ پر'' آنکھوں کے معائنے‘‘ کے لیے امریکہ جانے کی اجازت مل گئی۔ تارڑ صاحب بتا رہے تھے کہ سپریم کورٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد 1996ء میں انہیں پہلی بار برطانیہ جانے کا اتفاق ہوا۔ برمنگھم میں ختم نبوت کانفرنس میں انہیں بھی مدعو کیا گیا تھا۔ روپے پیسے کی بچت کے حوالے سے یہ بات ہمارے دل کو لگی۔ پنجابی میں ان کا کہنا تھا ''جُڑے نہ تُھڑے‘ تے کم پیا ٹُرے‘‘... پیسے جمع نہیں ہوں گے تو ان کے کم ہونے کی فکر بھی نہیں ہو گی‘ پیسے بس اتنے ہوں کہ کام چلتا رہے۔
بے نظیر بھٹو کا پہلا دورِ حکومت تھا(دسمبر89ئ) جب رفیق تارڑ ‘ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔ جنوری1991ء میں سپریم کورٹ میں آئے اور نومبر94ء میں ریٹائر ہو گئے۔ عدالتِ عالیہ اور عدالتِ عظمیٰ میں انہوں نے کئی اہم آئینی و سیاسی کیسوں کی سماعت کی۔ ان کے متعدد فیصلے اربابِ اقتدار کوناگوار بھی گزرے۔ وہ سپریم کورٹ کے اس فل بنچ میں شامل تھے جس نے بابائے اسٹیبلشمنٹ صدر غلام اسحاق خان کے 18اپریل 1993ء کے حکم کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے نواز شریف حکومت کی بحالی کا فیصلہ دیا تھا۔اپنے اضافی نوٹ میں انہوں نے لکھا‘ حکومت کی برطرفی سے متعلق صدر مملکت کا حکم ایک ایسے شخص کے ذہن کی عکاسی کرتا ہے‘ جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا ہو۔ محترمہ کے دوسرے دور میں ریٹائرمنٹ پر تارڑ صاحب نے اپنے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس قبول کرنے سے انکار کر دیا اور سپریم کورٹ کے ڈنر سے بھی معذرت کر لی۔ یہ تین سینئر ججوں کو نظر انداز کر کے‘ جسٹس سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس بنائے جانے کے خلاف احتجاج تھا۔
سپریم کورٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ مارچ1997ء میں پارلیمان کے ایوان بالا کے رکن منتخب ہو گئے۔ صدر فاروق لغاری کے استعفے کے بعد خیال تھا کہ مملکت کے سب سے بڑے منصب کے لیے قرعۂ فال چھوٹے صوبوں سے کسی کے نام نکلے گا۔ سندھ سے الٰہی بخش سومرو اور سید غوث علی شاہ‘ سرحد سے فدا محمد خان‘ سرتاج عزیز اور محمد علی ہوتی اور بلوچستان سے ظفر اللہ جمالی نمایاں تھے۔ اس سے پہلے جنابِ گوہر ایوب کا نام بھی سننے میں آتا رہا لیکن دامنِ کوہ سکینڈل نے ان کا راستہ روک دیا۔ ان کے دوستوں کا کہنا تھا کہ یہ سکینڈل مخالفین نے انہیں منصبِ صدارت سے محروم رکھنے کے لیے تخلیق کیا تھا۔
اور یہ 15دسمبر1997ء کی سہ پہر تھی جب جوہر ٹائون لاہور میں جناب رفیق تارڑ کی رہائش گاہ پر فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ وزیر اعظم ہائوس کے حکام ان کی تلاش میں تھے۔ گھر والوں کو اتنا پتہ تھا کہ وہ دوپہر کو مولانا امین احسن اصلاحی کے جنازے میں شرکت
کے لیے ڈیفنس گئے اور اب تک واپس نہیں آئے تھے۔ بالآخر انہیں ڈیفنس میں ایک عزیز کے ہاں ''تلاش‘‘ کر لیا گیا ۔ وہ رات کو عام پرواز سے اسلام آباد روانہ ہو گئے۔جہاں وزیر اعظم نے انہیں صدارتی امیدوار کے طور پر نامزدگی کی اطلاع دی۔ کچھ دیر حیرت زدہ رہنے کے بعد انہوں نے یہ پیشکش قبول کر لی۔ ان کی نامزدگی ایک دنیا کو حیران کرگئی تھی لیکن حیرتوں کا سلسلہ ابھی مزید دراز ہونا تھا۔ قائم مقام چیف الیکشن کمشنر نے ان کے حریف‘ پیپلز پارٹی کے آفتاب شعبان میرانی کے اعتراض پر کہ جناب تارڑ اپنے ایک انٹرویو میں توہینِ عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں‘ انہیں صدارت کے لیے نااہل قرار دے دیا تھا جِسے لاہور ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا۔ سندھ سے جناب میرانی کے علاوہ بلوچستان سے مولانا محمد خاں شیرانی (جمعیت علماء اسلام) بھی امیدوار تھے ۔ چھوٹے صوبوں کے حقوق و مفادات کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتیں بڑے صوبے سے تعلق رکھنے والے صدارتی امیدوار کو سپورٹ کر رہی تھیں۔ جناب تارڑ بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہو گئے۔
12اکتوبر1999ء کی فوجی کارروائی کے بعد‘ ایوانِ صدر میں جناب رفیق تارڑ کی موجودگی مختلف قیاس آرائیوں کا موضوع بنی رہی‘ لیکن انہیں اس سلسلے میں اُن کی تائید حاصل تھی جنہوں نے انہیں اس منصب کے لیے نامزد کیا تھا۔ بیگم کلثوم نواز صاحبہ سے گفتگو میں ایک اخبار نویس نے تارڑ صاحب کے متعلق قدرے سخت الفاظ استعمال کئے تو بیگم صاحبہ نے سختی سے ٹوک دیا اور کہا‘ '' ہمارے نزدیک ان کی حیثیت خاندان کے ایک بزرگ کی ہے‘‘... ''کیا 12اکتوبر کے بعد بھی‘‘ ؟ ... ''جی 12اکتوبر کے بعد بھی۔‘‘ بیگم صاحبہ کے لہجے سے عیاں تھا کہ وہ اس سلسلے میں مزید کچھ کہنے سننے کو تیار نہیں۔
اور ہاں! وہ کوئٹہ بنچ والی بات تو ابھی باقی ہے۔ جناب رفیق تارڑ ایوانِ صدر سے جوہر ٹائون لوٹ آئے تھے۔ میں جدے سے چھٹی پر لاہور آیا ہوا تھا۔ رات دس بجے فون کیا تو معلوم ہوا کہ وہ تو سو چکے‘ صبح فون کیا تو خود لائن پر تھے۔ کہا‘ جس وقت چاہو‘ آجائو۔ میں نے اشرف ممتاز کو فون کیا کہ وہ بھی چلا آئے۔ تارڑ صاحب نے سرور پیلس جدہ میں مقیم میاں صاحب کا حال احوال پوچھا۔ کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے کی ملاقات میں‘ کہیں کہیں لطیفہ بھی ہو جاتا۔ اٹھنے سے پہلے ہم نے وہی بات چھیڑ دی‘ عدلیہ کے بحران میں بھرے ہوئے بریف کیس کے ساتھ کوئٹہ جانے کی بات۔''وہ جو کہا جاتا ہے‘ جھوٹ اتنا بولو کہ سچ معلوم ہونے لگے‘‘ تارڑ صاحب کہہ رہے تھے۔''آپ کو یاد ہو گا تب سپریم کورٹ کوئٹہ بنچ کے سینئر جج کون تھے اور ان کے ساتھ میرے تعلقات کی نوعیت کیا تھی؟ جنرل کے ایم عارف سے عزیز داری کے باعث یہ صاحب جنرل ضیاء الحق کے دور میں لاہور ہائی کورٹ کے جج بنے۔ اس دور کے ہمارے رفقا(جج حضرات) کے علاوہ بعض سینئر وکلاء بھی اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ ان کے ساتھ میری کبھی نہ بنی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ہفت روزہ ''تکبیر‘‘ سے انٹرویو میں‘ میں نے پاکستان میں عدلیہ کے کردار کے حوالے سے جن ججوں پر تنقید کی‘ ان میں یہ صاحب بھی تھے۔ صدارتی امیدوار کے طور پر میری نااہلی کے کیس میں اسی انٹرویو کی بنیاد پر مجھ پر توہینِ عدالت کا الزام لگایا گیا تھا۔ کیا اس شخص سے سودے بازی کے لیے مجھے بھیجا جائے گا‘ جو میری شکل دیکھنے کا روادار نہیں تھا۔ الحمد لِلہ ادھر میرا معاملہ یہی تھا‘‘۔ تارڑ صاحب نے ہنستے ہوئے بات مکمل کی۔ دلیل مضبوط تھی۔ ہم نے پُر جوش مصافحہ کے ساتھ اجازت چاہی۔