الطاف حسن قریشی صاحب کا پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل افیئرز(پائنا) وقت کے سلگتے ہوئے مسائل پر بحث‘ مباحثہ اور غور و فکر کا اہتمام کرتا ہے۔ لیکن اس ہفتے اس نے ایک ایسے موضوع کا انتخاب کیا‘ ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کے ''گیلپ پاکستان‘‘ کے مطابق ‘ جو پاکستانی معاشرے میں‘ ایک عرصے سے Relevantہی نہیں۔ تعلیمی اداروں میں اسٹوڈنٹس یونینز کی بحالی اب اپنے ہاں''نان ایشو‘‘ ہے جس میں خود طلبہ کو بھی کوئی دلچسپی دکھائی نہیں دیتی‘ جہاں تک والدین کا تعلق ہے‘ ان کی غالب اکثریت تو اسٹوڈنٹس یونین کے نام پر ہی کانوں کو ہاتھ لگا لیتی ہے۔
پاکستان میں یہ جنرل ضیاء الحق کا دور تھا‘1984ء ،جب تعلیمی اداروں میں اسٹوڈنٹس یونینز کے انتخابات ممنوع قرار پائے۔ غیر جمہوری اور غیر سیاسی حکمرانوں کو سوسائٹی کے مختلف طبقات میں‘ مختلف اداروں میں‘ تنظیموں کے تصور ہی سے وحشت ہوتی ہے۔1984ء میں ملک کی قدیم اور عظیم جامعہ پنجاب میں اسلامی جمعیت طلبہ کی یونین تھی(امیر العظیم اس کے صدر تھے۔) جمہوریت کے لیے اس کی تڑپ اپنی جگہ‘ لیکن ضیاء الحق کی افغان پالیسی کے باعث اس کا مارشل لاء بھی(دائیں بازو کے دیگر عناصر کی طرح) اس کے لیے گوارا تھا۔ چنانچہ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ تب تعلیمی اداروں میں اسٹوڈنٹس یونین پر پابندی کا سبب چھوٹے صوبوں‘ خصوصاً سندھ اور بلوچستان میں‘ ابھرنے والی طلبہ قیادت تھی‘ جس کی ''قوم پرستی‘‘، ''قومی سلامتی‘‘کے تقاضوںسے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سٹوڈنٹس یونین کے حوالے سے مارشل لاء آرڈر طلبہ تنظیموں(مثلاً اسلامی جمعیت طلبہ‘ ترقی پسند یا قوم پرست تنظیموں) پر لاگو نہیں ہوتا تھا۔ جمعیت نے اس مارشل لاء آرڈر کے خلاف زبردست تحریک چلائی۔ انہی دنوں اخبارات میں‘ امیر العظیم کی حوالات کی سلاخوں کے پیچھے تصویر بھی شائع ہوئی۔ کمر پر بید زنی کے نشانات نظر آ رہے تھے۔ اسی روز جنرل ضیاء الحق لاہور تشریف لائے‘ تو ایئر پورٹ پر اخبار نویسوں سے گفتگو میں سٹوڈنٹس یونینز پر پابندی کی بات بھی ہوئی۔ ہم نے امیر العظیم کی تصویر کا ذکر کیا‘ تو جناب جنرل نے قدرے خفگی کے ساتھ کہا‘ امیر العظیم ہو یا امیر الاعظم‘ قانون سے کوئی بالاتر نہیں۔''سرکاری ذرائع‘‘ نے کیمرہ پر تشدد کے نشانات کو فلمی قسم کا کیرہ ٹرِک قراردیدیا تھا۔ تب سٹوڈنٹس یونینز کے خلاف پراپیگنڈہ مہم بھی شروع ہوئی۔ انہیں تعلیمی امن کی تباہی اور تعلیمی معیار کی پستی کا سبب قرار دیا جانے لگا۔
بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں پابندی اٹھا لی گئی۔ پنجاب یونیورسٹی سمیت کہیں کہیں انتخابات بھی ہوئے لیکن یہ سلسلہ آگے نہ بڑھا۔ اب الطاف صاحب نے اس ''نان ایشو‘‘ کو ''ایشو‘‘ بنانے کا فیصلہ کیا تو ان کی دلیل تھی کہ سیاست سمیت زندگی کے ہر شعبے میں قیادت کا انحطاط دراصل کردار سازی کے اس عمل پر پابندی کا نتیجہ ہے جو اسٹوڈنٹس یونینز کے انتخابات اورپھر سال بھر ان کی کارکردگی‘ نوجوانوں کی صلاحیتوں کو جلا بخشنے اور ان کی توانائیوں کو مثبت کاموں میں لگانے کا باعث بنتا تھا۔
قائد اعظم لائبریری کے اشتراک سے اس ''مباحثے‘‘ میں بڑی تعداد سابق طالب علم راہنمائوں کی تھی۔ ان میں جاوید ہاشمی بھی تھے کہ 1970ء کے عشرے کی طلبہ سیاست ان ہی کے نام تھی۔ وہ 1971ء میں پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکرٹری اور اگلے سال1972ء میں صدر منتخب ہوئے۔ تب ''نئے پاکستان‘‘ میں بھٹو کی''بادشاہت‘‘ تھی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ملک کی سب سے عظیم اورقدیم یونیورسٹی میں‘ اپنی مخالف یونین کاراستہ روکنے کے لیے حکومت کو مسلح مداخلت سے بھی گریز نہ تھا۔ یونیورسٹی کا طالب علم برکات اندھا دھند فائرنگ کا نشانہ بن گیا اور ''دلچسپ‘‘ بات یہ کہ اس کا مقدمہ بھی سرکار نے جاوید ہاشمی کے خلاف درج کر لیا۔
''پلڈاٹ‘‘ کے سربراہ‘ احمد بلال محبوب بھی‘ اُسی دورِ پُر آشوب میں جمعیت کے'' ٹکٹ‘‘ پر لاہور کی انجینئرنگ یونیورسٹی کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا‘ آج کل کے طالب علم کو احساس ہی نہیں کہ سٹوڈنٹس یونینز نہ ہونے کے باعث وہ کیا چیزMissکر رہے ہیں۔ انہوں نے سٹوڈنٹس یونینز کے فوائد و برکات پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور کہا کہ آج اِن پر کوئی قانونی پابندی نہیں لیکن اس کے باوجود خود طلبہ کی عدم دلچسپی کے باعث یہ کالعدم ہیں۔ انتظامیہ کی خواہش اور کوشش بھی یہی ہے کہ اس ''مصیبت‘‘ سے جان چھوٹی رہی۔
تنویر عباس تابش1969ء میں حافظ ادریس والی یونین میں نائب صدر منتخب ہوئے تھے۔ تب علامہ علائوالدین صدیقی پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ جنرل سیکرٹری کا الیکشن تنازع کا شکار ہو گیا تھا۔ اس پر وی سی صاحب سے بات کرنے حافظ صاحب کی زیر قیادت ایک وفد ان کے گھر پہنچا‘ جہاں ایک دو نوجوانوں کا خون کچھ زیادہ ہی گرم ہوگیا۔ فوجی عدالت میں مقدمہ چلا اور حافظ صاحب اور ان کے ساتھیوں کو سزا ہو گئی۔ یہ یحییٰ خاں کا مارشل لاء تھا۔ انصاف کا تقاضا یہی سمجھا گیا کہ مخالف فریق کو بھی سزا سنا دی جائے۔ چنانچہ جہانگیر بدر سمیت لیفٹ کے کچھ نوجوان بھی دھر لیے گئے۔ دلچسپ اتفاق یہ کہ جہانگیر بدر اور تنویر عباس تابش نے کوئی سال بھر کا عرصہ شاہ پور جیل میں ایک ہی سیل میں گزارا۔ دو ''سیاسی مخالفین‘‘ کی طرف سے یہ برداشت اور رواداری کا شاندار مظاہرہ تھا۔ جہانگیر بدر کی والدہ اپنے ''بادشاہ‘‘ سے ملاقات کے لیے آتیں‘ تو کھانے کی جو سوغات لاتیں‘ اس میں تابش کا حصہ بھی ہوتا۔
غلام عباس‘ پنجاب یونیورسٹی میں لیفٹ کی سٹوڈنٹس پالیٹکس کا بڑا نام تھا۔ فرید پراچہ کی قیادت میں عبدالشکور جنرل سیکرٹری کے امیدوار تھے۔ اگلے سال وہ خود صدارت کے امیدوار بنے۔ دونوں بار غلام عباس نے انہیں ٹف ٹائم دیا اور شکور بھائی بڑے کم مارجن کے ساتھ منتخب ہوئے۔ غلام عباس کا کہنا تھا‘ یونیورسٹی میں رائٹ اور لیفٹ میں کشیدگی بس الیکشن کے چند دنوں میں ہوتی( یہ تو یونین کونسل سے لے کر اسمبلی تک ہر انتخاب میں ہو جاتی ہے) اور اس کے بعد سارا سال برداشت اور رواداری کا مثالی معاملہ ہوتا۔ جیتنے والے‘ ہارنے والوں کو بھی اہم فیصلوں میں اعتماد میں لیتے۔
شامی صاحب بھی سٹوڈنٹس یونینز کی بحالی کے لیے پرجوش نہیں تھے۔ وہ طنزو مزاح کے ساتھ کئی کام کی باتیں کہہ گئے: ''ہم مبالغہ کرنے والی قوم ہیں‘ سٹوڈنٹس یونینز کے حق میں دلائل سن کر یوں لگا جیسے ہمارے تمام مسائل سٹوڈنٹس یونین نہ ہونے کے باعث ہیں‘ ورنہ ہم امریکہ بن چکے ہوتے۔ آج ہماری یونیورسٹیوں یں ایسے استاد بھی ہیں‘ جو پرائمری سکول میں پڑھانے کے قابل بھی نہیں‘ یہ اُس دور کی سٹوڈنٹس یونینز کی دین ہیں ‘‘۔ ان کا کہنا تھا‘ یونینز کو بحال کرنا ہے تو اس کے لیے ڈسپلن کا اہتمام بھی لازم ہو گا۔ اپنی بات انہوں نے اس دلچسپ فقرے کے ساتھ ختم کی: میرے بچے تو پڑھ چکے‘ اب جو بھی تجربے ہوں گے‘ دوسروں کے بچوں پر ہوں گے۔
جاوید ہاشمی کا جواب تھا‘ ہم امریکہ تو نہ ہوتے لیکن ایک مہذب قوم ضرور بن چکے ہوتے۔ ان کا کہنا تھا‘ مجھے یونیورسٹی میں اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کا موقع نہ ملتا تو اپنے علاقے کی جاگیردارانہ سیاست میں زیادہ سے زیادہ یونین کونسل کا چیئرمین بن جاتا۔ یہ فیوڈل پالیٹکس ہے‘ جس نے ملک کو تباہ کیا۔ لوئر مڈل کلاس سے آنے والے صنعت کار‘ جرنیل اور صحافی بھی'فیوڈل‘‘ بننے کے خواب دیکھتے ہیں اور دائو لگتا ہے تو اس میں دیر نہیں لگاتے۔ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا‘ میں بھی ''مخدوم‘‘ بن گیا۔
سرگودھا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اکرم چودھری نے خطبۂ صدارت میں سٹوڈنٹس یونینز کی بحالی کی حمایت کی‘ اس شرط کے ساتھ کہ یہ سیاسی جماعتوں کے زیر اثر نہ ہوں اور مادرِ علمی میں اسلحہ کلچر کے فروغ کا باعث نہ بنیں۔