"RTC" (space) message & send to 7575

ولے بخیر گزشت

اسے کسی کی فتح اور کسی کی شکست قرار دینے... کسی کو چڑانے اور کسی کو مبارک باد دینے کی بجائے، کیوں نہ آئین کی فتح قرار دیا جائے۔ ڈان لیکس پر سول اور عسکری قیادت میں ''تنازعہ‘‘ بخیر و خوبی انجام کو پہنچا۔ گزشتہ کالم میں ہم نے مرحوم نواب زدہ صاحب کے حوالے سے لکھا تھا کہ صدر، وزیر اعظم اور آرمی چیف کی ملاقات کی خبر ''تین بڑوں کی ملاقات‘‘ کی سُرخی کے ساتھ شائع ہوتی تو بابائے جمہوریت دن بھر کبیدہ خاطر رہتے۔ ان کا بس نہ چلتا کہ نیوز ایڈیٹر سے کہیں، کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جمہوری پارلیمانی نظام میں ایک ہی بڑا ہوتا ہے، ملک کا منتخب وزیر اعظم، آئین بھی اسی ایک کو چیف ایگزیکٹو قرار دیتا ہے۔ کہتے ہیں، عالمِ برزخ میں نیک ارواح کو اچھی اچھی خبریں ملتی رہتی ہیں، مملکتِ خداداد میں نواب زادہ سمیت آئین کی بالا دستی پر یقین رکھنے‘ اور اس کے لیے ساری عمر جدوجہد کرنے والی نیک ارواح کے لیے پاک فوج کا یہ اعلان یقینا بے پایاں آسودگی کا باعث بنا ہو گا کہ وزیر اعظم فائنل اتھارٹی ہے، اس کے حکم پر عمل ہونا چاہیے اور یہ بھی کہ فوج آئینی اور جمہوری عمل کی حامی ہے۔
آئی ایس پی آر کی 29 اپریل کے ٹویٹ نے ہیجان اور بے یقینی کی فضا پیدا کر دی تھی۔ ''ٹویٹ‘‘ تو گزشتہ دور کے فوجی ترجمان کی طرف سے بھی جاری ہوتے رہتے تھے‘ لیکن اس بار معاملہ اور تھا۔ پرائم منسٹر ہائوس کی طرف سے متعلقہ محکموں کو جاری کردہ انٹرنل نوٹ کیلئے "Rejected" کے لفظ کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
یکم مئی کو جاتی عمرہ میں میاں صاحب سے ہماری ملاقات، وزیر اعظم اور اخبار نویس کی کوئی ''پروفیشنل‘‘ ملاقات نہ تھی۔ حسین نواز جدہ سے آئے ہوئے تھے۔ جدہ میں قیام کے دوران، سرور پیلس میں ان سے بھی ملاقاتیں رہتی تھیں۔ سوموار کی دوپہر اس ملاقات میں ان دنوں کی یادیں بھی تازہ ہوئیں۔ میاں صاحب سے یاد اللہ ان کی سیاست کے آغاز ہی سے ہو گئی تھی۔ اِن کی دوسری وزارتِ عظمٰی میں پرائم منسٹر کی ''بیٹ‘‘ ہمارے سپرد ہوئی تو رابطہ مزید بڑھ گیا۔ اکتوبر 1998ء میں نظامی صاحب (مرحوم) کی اجازت سے، ہم ایک سعودی اخبار میں ملازمت کے لیے جدہ سدھار گئے۔ دسمبر 2000ء میں میاں صاحب بھی جلا وطن ہو کر جدہ پہنچ گئے۔ سعودی عرب میں میاں صاحب کے چاہنے والے بڑی تعداد میں موجود تھے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل درانی کو مشرف نے سفیر بنا کر بھیجا تو سعودیہ میں نواز شریف کے چاہنے والوں پر خاص نگاہ رکھنا بھی ان کے فرائض میں شامل تھا۔ تب کئی پاکستانیوں کو سفیر صاحب نے سعودی عرب سے ڈی پورٹ بھی کروایا۔ سالہا سال سے مقیم ان پاکستانیوں میں وہ بھی تھے‘ جنہوں نے اپنی محنت سے وہاں کاروبار Establish کر لیے تھے۔ ان میں سے بعض سعودی کمپنیوں میں ایگزیکٹو عہدوں پر کام کر رہے تھے۔ 
سرور پیلس سے قریبی رابطہ رکھنے کے باوجود ہم اس لیے بچ رہے کہ اخبار میں کام کرتے تھے‘ لیکن میاں صاحب سے ہمارا تعلق اخبار نویس کا نہ تھا۔ وہ ہمیں اپنے ''یارانِ جدہ‘‘ میں شمار کرتے۔ سرور پیلس کے استقبالیہ کی فہرست میں ہم بھی ان خوش نصیبوں میں تھے، جو کسی بھی وقت یہاں آ جا سکتے تھے۔ اس فہرست کو ''ضیوف الرئیس‘‘ (وزیر اعظم کے مہمان) کا عنوان دیا گیا تھا۔
قارئین سے معذرت کہ بات کسی اور طرف نکل گئی۔ ہم سوموار یکم مئی کی ملاقات کا ذکر کر رہے تھے۔ میاں صاحب ہمیشہ کی طرح مطمئن اور پُراعتماد تھے۔ ٹویٹ والی بات خود ہم نے چھیڑی۔ میاںصاحب کے نزدیک معاملہ ان کی ذات کا نہیں، ''وزیر اعظم کی آئینی اتھارٹی‘‘ کا تھا۔ تب ہمیں جدہ کی وہ شام یاد آئی۔ سرور پیلس کے سبزہ زار میں میاں صاحب کے ساتھ ''واک‘‘ کرتے ہوئے ہم نے بے تکلفانہ پوچھ لیا، فوج کے ساتھ آپ کی کیوں نہیں بنتی؟ میاں صاحب رُک گئے، اورکہنے لگے، کیا آپ بھی یہی سمجھتے ہیں؟ قدرے توقف کے بعد گویا ہوئے، فوج سے نہیں، اس کے کسی سربراہ سے اگر کوئی مسئلہ ہوا تو وہ ''ذاتی‘‘ نہیں تھا۔ مسلح افواج کے سربراہوں کا تقرر وزیر اعظم کا آئینی اختیار ہے۔ اس کے علاوہ میں نے فوج کے ''معاملات‘‘ میں کوئی مداخلت کی ہو تو بتائیں۔ کمیشنڈ اور نان کمیشنڈ بھرتیوں سے لے کر، تھری سٹار جرنیلوں کی پرموشن تک، میں نے کسی پسند، ناپسند کا اظہار کیا ہو تو بتائیں۔ فوج اپنے داخلی معاملات اپنے طریق کار کے مطابق طے کرتی ہے۔ اس میں اس کا معاملہ وزارتِ دفاع سے ہوتا ہے۔ 
اہم دفاعی (اور بعض خارجی) معاملات میں فوج سے ''ان پٹ‘‘ لے جاتی ہے، اس کے نقطہء نظر پر سنجیدگی سے غور (اور اسے اکاموڈیٹ) بھی کیا جاتا ہے۔ 
میاں صاحب وزیر اعظم بنے تو پہلا واسطہ جنرل اسلم بیگ سے پڑا۔ تب خلیج کے بحران کا سامنا تھا، عراق کے صدر صدام حسین کا کویت پر ناجائز قبضہ، ساری دنیا جس کی مخالفت کر رہی تھی۔ اقوامِ متحدہ نے کویت کی آزادی کے لیے طاقت کے استعمال کی قرارداد بھی منظور کر لی تھی۔ مڈل ایسٹ میں صدام کے دوست بھی اسے عقل کا راستہ دکھانے میں ناکام رہے۔ عدل و انصاف کے عالمی تقاضوں کے علاوہ، مڈل ایسٹ میں پاکستان کے قومی مفادات کا بھی تقاضا تھا کہ پاکستان کویت کی آزادی کی حمایت کرے‘ لیکن پاکستان کے آرمی چیف پر امریکہ کی مخالفت کا بھوت سوار تھا۔ وہ صدام حسین کی حمایت کا پرچم لے کر نکل کھڑے ہوئے۔ تب صدر ضیاالحق کے دور والی آٹھویں ترمیم کے تحت، مسلح افواج کے سر براہوں کا تقرر صدر کا اختیار تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف ایوانِ صدر پہنچے اور صدر غلام اسحاق خان سے صاف صاف کہا، میں یہاں نوکر ی کرنے نہیں آیا، پاکستان کے عوام نے مجھے حکومت کرنے کیلئے بھیجا ہے۔ وزیر اعظم کے طور پر پاکستان کے قومی مفادات کا تحفظ میری آئینی ذمہ داری ہے۔ آپ آرمی چیف کو منع کریں ورنہ مجھے ایسی وزارتِ عظمیٰ میں کوئی دلچسپی نہیں ہو گی۔ صدر کی ہدایت پر آرمی چیف نے پسپائی اختیار کر لی لیکن منتخب وزیر اعظم کے خلاف ان کے دل میں گرہ پڑ گئی تھی۔ 
پاکستان میں ''سول، ملٹری تعلقات‘‘ کا معاملہ بہت پیچیدہ رہا ہے اور وزیر اعظم نواز شریف کا موقف بہت واضح کہ ہر کوئی اپنے اپنے آئینی دائرے میں رہے۔ خوش قسمتی سے موجودہ آرمی چیف کا موقف بھی یہی ہے‘ لیکن 29 اپریل کی ٹویٹ نے سارا منظر ہی بدل ڈالا، وزیر اعظم کا موقف اب بھی وہی تھا۔ 
یہ خود فوج کے وقار اور ساکھ کا معاملہ بھی تھا۔ یہ کل کی بات ہے، مشرف دور کے آخری سال کی بات، جب راولپنڈی جیسے گیریژن سٹی میں فوجیوں سے کہا گیا کہ وہ پبلک مقامات پر وردی پہن کر نہ جائیں۔ یہ جنرل کیانی تھے جنہوں نے فوج کو سیاسی دلدل سے نکالا۔ ضربِ عضب نے فوج کے وقار کو بڑھاوا دیا اور اب اندرونِ ملک ردالفساد کا مرحلہ ہے اور سرحدوں پر دُشمن کی شرارتوں سے نمٹنے کا مرحلہ۔
خدا کا شکر ہے کہ تدبر بروئے کار آیا، کسی نے اَنا کا مسئلہ نہ بنایا اور ''تنازعہ‘‘ یوں انجام کو پہنچا کہ آئندہ کے لیے بھی وزیر اعظم کے چیف ایگزیکٹو ہونے کی آئینی حیثیت تسلیم کر لی گئی۔ اس کی اطاعت فرض قرار پائی اور یہ واشگاف اعلان کہ پاک فوج آئینی و جمہوری عمل کی حامی ہے۔ 
آئی ایس پی آر کی 29 اپریل کے ٹویٹ نے ہیجان اور بے یقینی کی فضا پیدا کر دی تھی۔ ''ٹویٹ‘‘ تو گزشتہ دور کے فوجی ترجمان کی طرف سے بھی جاری ہوتے رہتے تھے‘ لیکن اس بار معاملہ اور تھا۔ پرائم منسٹر ہائوس کی طرف سے متعلقہ محکموں کو جاری کردہ انٹرنل نوٹ کیلئے "Rejected" کے لفظ کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں