منگل کی صبح میجر (ر) محمد عامر کا فون آیا۔ وہی جو پاکستان کی سپریم انٹیلی جنس ایجنسی کا سٹار افسر‘ سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد کے برسوں میں آئی ایس آئی اسلام آباد کا چیف تھا۔ پروٹوکول میں ایک میجر کا درجہ ''درمیان‘‘ سے بھی نیچے ہوتا ہیٍ‘ لیکن اپنی بے پناہ پیشہ ورانہ صلاحیت اور غیر معمولی کارکردگی کی بدولت اسے اپنے چیف تک براہ راست رسائی حاصل تھی۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ صدر جنرل ضیاء الحق بھی اس سے براہ راست رابطے میں ہوتے۔ عامر موڈ میں ہو تو قابلِ اعتماد دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں اس دور کی کہانیاں مزے لے لے کر سناتا ہے۔ ایک تو کہانی کا Content دوسرے اس کا اندازِ بیاں ع
وہ کہے اور سنا کرے کوئی
لیکن عوامی سطح پر اس کی شہرت بے نظیر بھٹو صاحبہ کی پہلی حکومت کے خلاف ''آپریشن مڈ نائٹ جیکالز‘‘ کے حوالے سے ہوئی۔
آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کا کہنا تھا‘ ''میجر! میں اس کیس کی حقیقت جانتا ہوں‘ لیکن کسی نے تمہارے خلاف وزیر اعظم کے کان بھر دیئے ہیں۔ وہ تمہاری برطرفی (جبری ریٹائرمنٹ) پر اصرار کر رہی ہیں‘‘۔ سویلین بالا دستی کی بات ہو تو عامر ہنستے ہوئے کہتے ہیں‘ کون کہتا ہے کہ ملک میں سویلین بالا دستی نہیں رہی۔ مجھے دیکھو میں خود اس کا شکار ہونے والوں میں سے ہوں (آپریشن مڈ نائٹ جیکالز) کے الزام میں جبری ریٹائر ہونے والے دوسرے افسر‘ بریگیڈیئر امتیاز تھے‘ بھُوری آنکھوں کے باعث جنہیں بریگیڈیئر بلاّ بھی کہا جاتا۔) عامر یاروں کا یار ہے‘ وہ اپنی دوستی اور دُشمنی کو چھپاتا نہیں۔ فوج سے جبری ریٹائرمنٹ کے بعد وہ میاں صاحب کے حلقۂ احباب میں داخل ہوا اور تھوڑے ہی عرصے میں ان لوگوں میں شمار ہونے لگا‘ میاں صاحب جن پر بے پناہ اعتماد کرتے اور ان کے مشوروں کو خاص اہمیت دیتے۔ 12 اکتوبر 1999ء کے ''کائونٹر کوُ‘‘ کے ستم زدگان میں عامر بھی تھا۔ اس دوران قید و بند کی صعوبتوں سے وہ ہنستے مسکراتے گزر گیا۔ وہ جو نعیم صدیقی (مرحوم) نے کہا تھا ؎
یہ ہجر کی شب جو تیرہ تر ہے‘ دراز تر ہے‘ مہیب تر ہے
کہانیاں تیری کہتے کہتے‘ یہ رات بھی ہم گزار دیں گے
2014ء کے اوائل میں وزیر اعظم محمد نواز شریف نے پاکستانی طالبان سے مذاکرات کے لیے جو چار رکنی کمیٹی بنائی‘ عامر اس کے اہم رکن تھے۔ مذاکرات کے لیے اولین مرحلہ ''اعتماد سازی‘‘ (Confidence Building measures) کا تھا۔ عامر کا دعویٰ ہے کہ یہ مشکل مرحلہ کامیابی سے طے پا رہا تھا‘ لیکن ہمارے امریکی مہربانوں کو یہ گوارا نہ تھا‘ چنانچہ حکیم اللہ محسود امریکی ڈرون کا نشانہ بن گیا۔ وہ کہتے ہیں‘ اس پر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں کا یہ جارحانہ تبصرہ سو فیصد درست تھا کہ امریکیوں کا یہ ڈرون حملہ حکیم اللہ محسود پر نہیں‘ مذاکرات کے عمل پر ہوا ہے۔ باجوڑ کے دینی مدرسے پر ڈرون حملے میں علی الصباح قرآن پاک پڑھنے والے 80 بچوں کی شہادت سے لے کر مولوی نیک محمد پر ڈرون اٹیک تک‘ میجر عامر کے پاس اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے کئی ثبوت ہیں کہ امن مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لیے امریکی کیا کیا کارروائیاں کرتے رہے۔ وہ یاد دلاتے ہیں کہ مولوی نیک محمد اور گورنر صوبہ سرحد/ کور کمانڈر کے مابین ''مذاکرات‘‘ کامیاب ہو گئے تھے۔ ''معاہدہ‘‘ طے پا گیا تھا۔ ایک دوسرے کے گلے میں پھولوں کے ہار بھی ڈالے گئے‘ مٹھائی سے منہ بھی میٹھے کرائے گئے اور دوسرے تیسرے دن نیک محمد ڈرون حملے میں مار دیا گیا۔
منگل کی صبح میجر عامر کا فون تھا‘ بتایا کہ وہ لاہور میں ہے اور شام کو دنیا نیوز پر شامی صاحب (اور جامی) کے نقطۂ نظر میں شریک ہو گا۔ وہ اس روز کا جمہور نامہ ''نواز امریکہ تعلقات‘‘ پڑھ چکا تھا۔ ظاہر ہے‘ کالم میں ہر بات تفصیل سے نہیں لکھی جا سکتی۔ امریکی سفیر رابرٹ اوکلے کو یہ احساس دلانے کے لیے کہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی حکومت ختم ہو چکی‘ جس میں اسے اسلام آباد میں ''امریکی وائسرائے‘‘ کا درجہ حاصل تھا‘ وزیر اعظم نواز شریف نے اسے ملاقات کے لیے طویل انتظار کرایا تھا۔ 1993ء میں بے نظیر بھٹو صاحبہ دوبارہ برسر اقتدار آ گئیں‘ تب میاں صاحب بڑی جرأت کے ساتھ اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کر رہے تھے‘ اس کی پاداش میں شہباز شریف اور حمزہ کو اڈیالہ جیل میں ڈالنے کے علاوہ بڑے میاں صاحب (مرحوم) کی ان کے دفتر سے نہایت توہین آمیز انداز میں گرفتاری اور مریم کے نو عمر بچوں کے سوا‘ شریف فیملی کے سبھی افراد کے خلاف مقدمات سمیت دبائو کا ہر حربہ اختیار کیا جا رہا تھا۔
نواز شریف ایوان کے اندر اور باہر اپوزیشن لیڈر کے طور پر بھرپور کردار ادا کر رہے تھے۔ میجر عامر کو اسلام آباد کے فائیو سٹار ہوٹل میں وہ بڑا اجتماع یاد تھا‘ جس میں نواز شریف نے بے نظیر حکومت کے امریکہ نواز اقدامات کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا ''کیا نام تھا اُس ''لمبو‘‘ کا جسے میں نے 9 مہینے تک ملاقات کا وقت نہیں دیا تھا‘‘؟ (رابرٹ اوکلے کی دراز قامت کے باعث نواز شریف اسے ''لمبو‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔) ہمیں یاد آیا‘ لاہور چیئرنگ کراس پر واقع ہوٹل میں وکلاء کے ایک اجتماع میں بھی میاں صاحب نے کہا تھا‘ ''وہ ''لمبو‘‘ جو اسلام آباد میں وائسرائے بنا پھرتا تھا‘‘۔
1960-70ء میں پاکستان‘ ایران اور ترکی پر مشتمل علاقائی تعاون برائے ترقی (RCD) کی تنظیم ہوتی تھی‘ جو وقت کے ساتھ معدوم ہو گئی۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد‘ یہ نواز شریف کی پہلی وزارتِ عظمیٰ تھی جب ''آر سی ڈی‘‘ کو وسعت دینے کا سوچا گیا۔ ECO کا نام اختیار کرنے والی اس تنظیم میں اب افغانستان‘ اور سوویت یونین سے آزاد ہونے والی وسطی ایشیاء کی ریاستیں بھی شامل ہونا تھیں۔
امریکیوں کے خیال میں یہ ایک نئے اسلامی بلاک کا آئیڈیا تھا‘ جس پر اظہارِ تشویش کے لیے امریکی سینیٹرز کا ایک وفد اسلام آباد بھی آیا تھا۔ میجر عامر کو یاد تھا‘ محمد نواز شریف ان دنوں ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس میں شرکت کے لیے ڈیووس میں تھے۔ مغربی اخبار نویس ECO کے حوالے سے استفسار کر رہے تھے‘ جنہیں اس میں ایک نئے اسلامی بلاک کا خاکہ نظر آ رہا تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف کا جواب تھا‘ یورپی یونین میں تمام کرسچین ممالک شامل ہیں (ترکی کا اس میں داخلہ بند ہے) اسے اگر کرسچین بلاک کا نام نہیں دیا جاتا‘ تو اقتصادی تعاون کے لیے خطے کے مسلم ممالک کی تنظیم کو آپ نیا اسلامی بلاک کیوں قرار دے رہے ہیں (اور اس پر تشویش کا اظہار کیوں کر رہے ہیں)؟
سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے میجر عامر کسی معذرت یا ندامت کا اظہار نہیں کرتے۔ وہ اسے افغانستان کی آزادی کے علاوہ پاکستان کی خودمختاری اور سلامتی کی جنگ بھی قرار دیتے ہیں جس کا فیصلہ جنرل ضیاء الحق نے خالص جذبۂ حب الوطنی کے تحت کیا۔ پاکستان کی تائید و تعاون کے ساتھ افغانوں نے اس کا آغاز توڑے کی بندوقوں کے ساتھ کیا۔ صدر کارٹر کی چالیس ملین ڈالر کی امداد کو ضیا نے مونگ پھلی قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔ سوویت جارحیت اور اس کی خلاف جاندار مزاحمت کو دو سال ہو چکے تھے‘ جب امریکیوں کے ساتھ پاکستان کے معاملات طے پائے۔ تب رونلڈ ریگن امریکہ کے صدر تھے۔ افغان جہاد کا پوٹینشل اب اندھوں کو بھی نظر آ رہا تھا۔ سوویت جارحیت کے خلاف پہلی قرارداد کو یو این او کے 104 ممالک کی تائید حاصل تھی جو آخر میں 127 تک پہنچ گئی۔
ایران سمیت او آئی سی کے تمام ممالک بھی افغان جہاد کی حمایت کر رہے تھے۔ پاکستان نے امریکی امداد اپنی شرائط پر قبول کی‘ یہ کہ اسلحہ اور ڈالر پاکستان کو ملیں گے اور یہ فیصلہ کہ کس مجاہد تنظیم کو کتنا دینا ہے‘ اس کا فیصلہ بھی پاکستان کرے گا۔ امریکی سفارت کاروں‘ سی آئی اے اور ایف بی آئی سمیت کسی ادارے کو افغانوں سے رابطہ کی اجازت نہیں ہو گی۔ میجر عامر افغان جہاد کے ثمرات گنوانا شروع کریں تو دونوں ہاتھوں کی انگلیاں اور ان کی پوریں کم پڑ جاتی ہیں‘ سب سے بڑا ثمر یہ کہ اس کے نتیجے میں پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا۔