معزول وزیراعظم لندن سے سعودی عرب پہنچ گئے ہیں۔ 26 ؍ اکتوبر کو اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیشی ہے جس کے لیے انہیں لندن سے براہ راست پاکستان آنا تھا‘ پھر انہوں نے پروگرام میں تبدیلی کی۔ اتوار کو سعودی سفارت خانے سے ویزہ حاصل کیا کہ پاکستان آتے ہوئے عمرہ کی سعادت‘ روضۂ رسولؐ پر حاضری اور والدہ محترمہ سے ملاقات کرتے آئیں جو کچھ عرصہ سے دیارِ حرمین میں مقیم ہیں۔
جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ میاں صاحب (لندن میں بیگم صاحبہ کی علالت کے باوجود) زیادہ وقت پاکستان میں گزاریں کہ لیڈرشپ ملک سے باہر ہو تو سویلین بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے پارٹیوں میں نقب لگانا آسان ہو جاتا ہے۔ جاوید ہاشمی اس کے لیے 12 ؍اکتوبر 1999ء کی فوجی کارروائی کے بعد کی مثال دیتے ہیں۔ ڈکٹیٹر کی خواہش تھی کہ ''مائنس نوازشریف‘‘ سسٹم چلتا رہے (ظاہر ہے‘ اس میں بالاتر حیثیت خود اس کی اور اس کے ''رفقا‘‘ کی ہوتی ) اس کے رفیقِ خاص جنرل احسان سابق آئی ایس آئی چیف نے گزشتہ دنوں 12 ؍ اکتوبر کے اقدام کی دلچسپ توضیح کی‘ ان کے بقول یہ ''مارشل لائ‘‘ نہیں تھا‘ بس یہ ہُوا کہ دو تہائی اکثریت کے حامل وزیراعظم کو برطرف اور گرفتار کر لیا گیا۔ اس کی کابینہ بھی ساتھ ہی رخصت ہو گئی۔ مشرف چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹو نہیں بنے‘ بلکہ چیف ایگزیکٹو کہلائے۔ پارلیمنٹ کو بھی توڑا نہ گیا کہ یہ نئے قائد ِایوان کا انتخاب کر لے۔ جاوید ہاشمی کے بقول‘ میاں صاحب پسِ دیوارِ زنداں ہی سہی‘ جب تک پاکستان میں رہے‘ اسٹیبلشمنٹ ان کا ایک رکن اسمبلی بھی توڑ نہ سکی۔
ہمیں یہاں ملتان کے شیخ محمد بوٹا (مرحوم) یاد آئے۔ اولیاء کے شہر سے مسلم لیگ کے رکن قومی اسمبلی‘ ڈکٹیٹر کے لالچ اور دبائو کے تمام تر حربوں کے باوجود اپنے لیڈر سے بے وفائی پر آمادہ نہ ہوئے۔ عمرہ پر سعودی عرب آئے تھے۔ اس سعادت کے بعد اپنے لیڈر سے ملاقات کے لیے جدہ کے سرور پیلس بھی آئے۔ (اکتوبر 2002ء کے الیکشن کے بعد پاکستان میں قاف لیگ کی حکومت تھی) شیخ بوٹا وضع قطع کے علاوہ اپنی سوچ اور اس کے اظہار میں بھی خالص ''دیہاتی‘‘ واقع ہوئے تھے۔ ذہن میں جو آیا‘ صاف اور سیدھے سبھائو زبان پر لے آئے۔ رات کو کھانے کی میز پر میاں صاحب ''دیس‘‘ سے آنے والے مہمانوں سے دلچسپی کی کئی باتیں پوچھتے‘ ان منصوبوں کے متعلق بھی جنہیں وہ ادھورا چھوڑ آئے تھے۔ ان میں لاہور کے نئے ہوائی اڈے کا ذکر بھی ہوتا۔ شیخ بوٹا سے ایک سوال پارٹی کے حال احوال کے متعلق بھی تھا۔ لیڈر سے حقیقی وفاداری کا تقاضا تھا کہ شیخ کسی مصلحت سے کام لینے کی بجائے دل کی بات صاف صاف کہہ دیتا‘ اس نے دریا کو کوزے میں بند کرتے ہوئے پنجابی کے ایک مقولے کا سہارا لیا ''کھیتی خصماں سیتی‘‘ کھیتی اسی وقت تک ہوتی ہے‘ جب تک مالک سر پر ہو...شیخ کہہ رہا تھا‘ آپ پاکستان سے یہاں آ گئے‘ پیچھے کھیتی بھی اُجڑ گئی‘ یہی بات گزشتہ شب جاوید ہاشمی کہہ رہا تھا لیکن یہ مکمل سچائی نہ تھی۔
12 ؍ اکتوبر کے فوراً بعد مسلم لیگ میں ''ہم خیال‘‘ گروپ اُبھر آیا تھا۔ ان میں میاں محمد اظہر بھی تھے‘ شریف برادران کے ساتھ جن کی دوستی مثالی رہی تھی۔ میاں صاحب کی وزارتِ اعلیٰ کے دور میں وہ لاہور کے لارڈ میئر رہے۔ میاں صاحب کی پہلی وزارتِ عظمیٰ میں پنجاب کے گورنر بنے۔ بابائے اسٹیبلشمنٹ صدر غلام اسحاق خاں کے ہاتھوں 18 اپریل 1993ء کی شب وزیرِاعظم کی برطرفی کے بعد میاں اظہر نے گورنری سے مستعفی ہونے میں لمحہ بھر تاخیر نہ کی۔ میاں صاحب کی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دور میں وہ لاہور سے قومی اسمبلی کے رکن تھے اور یہی وہ دور تھا جب غلط فہمیاں رنجشوں میں تبدیل ہونے لگیں‘ اس ''کارخیر‘‘ میں کچھ حصہ کرم فرمائوں کا بھی تھا۔ 12 ؍ اکتوبر سے پہلے ہی خلیج خاصی وسیع ہو چکی تھی۔ خورشید محمود قصوری کو وزیراعظم کے ساتھ‘ آئین میں 15 ویں ترمیم پر اختلاف ہوا اور نوبت پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں خورشید قصوری کی طرف سے استعفیٰ کی پیشکش تک جا پہنچی۔ بیگم عابدہ حسین کا اپنا دُکھ تھا۔ کبھی وہ میاں صاحب کے قابلِ اعتماد حلقے میں تھیں۔ 1990ء کا الیکشن ہار گئیں تو میاں صاحب نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی انہیں امریکہ میں پاکستان کا سفیر بنا دیا۔ 1993ء کا الیکشن آیا تو سفارت کی سرکاری ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوئے دو سال نہیں ہوئے تھے۔ اس قانونی پابندی کے باعث وہ الیکشن کے لیے کوالیفائی نہیں کرتی تھیں چنانچہ ان کی والدہ محترمہ ٹکٹ کی مستحق قرار پائیں۔ 1997ء میں میاں صاحب کی دوسری وزارتِ عظمیٰ میں بیگم عابدہ حسین وفاقی وزیر تھیں۔بجلی چوروں کے خلاف مہم کے دوران جھنگ میں بیگم صاحبہ کے گھوڑوں کے اصطبل میں بجلی چوری پکڑی گئی‘ اُدھر یہ خبر آئی‘ اِدھر وزیراعظم نے بیگم صاحبہ سے وزارت سے استعفیٰ طلب کر لیا۔
''ہم خیال گروپ‘‘ کے دیگر ارکان میں کرنل (ر) سرور چیمہ بھی تھے۔ کچھ عرصے بعد جنرل اختر عبدالرحمان کے صاحبزادگان بھی چلے آئے۔ اعجاز الحق کا معاملہ نیمے دروں،نیمے بروں کا تھا ۔ فرزند لال حویلی کا اپنا کھیل تھا ۔بیگم کلثوم نواز ڈکٹیٹر کے خلاف میدان میں آئیں تو شیخ منفی فقرے بازی پر اُتر آیا۔ بیگم صاحبہ راولپنڈی پہنچیں تو شیخ کو انہیں ''رابڑی دیوی‘‘ قرار دینے میں بھی کوئی عار نہ تھی۔ شیخ کا روّیہ کارکنوں کے دل زخمی کرتا چلا گیا۔ اکتوبر 2002ء کے الیکشن میں شیخ ہوا کا رُخ دیکھتے ہوئے‘ نوازشریف کے ٹکٹ کے لیے درخواست گزار ہوا۔ اس کے لیے اس نے لاہور کے بزرگ ایڈیٹر کی سفارش بھی جدہ بھجوائی۔ میاں صاحب شاید رضامند ہو جاتے لیکن راولپنڈی کے کارکنوں کی مزاحمت بہت شدید تھی۔ گجرات کے چوہدری برادران کے لیے یہ ایک مشکل مرحلہ تھا‘ بالآخر انہوں نے بھی عافیت کی راہ لی۔ چکوال کے جنرل (ر) مجید ملک بھی ''ہم خیال‘‘ ہو گئے۔ میاں صاحب ابھی اٹک قلعے میں تھے اور مختلف شہروں میں ''مسلم لیگ ہائوس‘‘ پر قبضہ مہم شروع ہو گئی۔ آغاز اسلام آباد سے ہوا۔ اخبارات میں تصویر شائع ہوئی‘ مسلم لیگ ہائوس اسلام آباد پر قبضے کے بعد نوازشریف کی تصاویر فرش پر پڑی تھیں اور ہم خیال گروپ کے لیڈروں نے "V" کے نشان کے ساتھ بازو بلند کئے ہوئے تھے۔ خورشید ندیم کو مولانا ابوالکلام آزاد یاد آئے جن کا یہ فقرہ ضرب المثل بن چکا‘ سیاست کے پہلو میں دل نہیں ہوتا‘ خورشید ندیم نے اس مصرع طرح پر گرہ لگائی‘ مولانا آزاد زندہ ہوتے تو دیکھتے‘ سیاست کی آنکھ میں حیاء بھی نہیں ہوتی۔
میاں صاحب نے دس دسمبر کو جلاوطنی کا سفر اختیار کیا تھا اور مسلم لیگ ہائوسوں پر قبضہ مہم تین چار ہفتے پہلے شروع ہو گئی تھی۔ البتہ ہاشمی کی بات میں اس حد تک صداقت ضرور ہے کہ بہت سے مسلم لیگی‘ میاں صاحب کی جلاوطنی کے بعد ''برگشتہ‘‘ ہوئے۔
جاوید ہاشمی کا کہنا ہے‘ میاں صاحب ملک میں رہیں گے تو پارٹی بھی محفوظ رہے گی‘ سیاسی عمل کو پٹڑی سے اتارنا اور کوئی غیر آئینی اقدام کرنا بھی ممکن نہ ہو گا۔ میاں صاحب قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کر لیں گے‘ اس کے لیے وہ 12 ؍ اکتوبر 1999ء سے دس دسمبر 2000ء تک میاں صاحب کے ساتھ روا رکھے گئے توہین آمیز روّیے اور اذیت دہ حربوں کا حوالہ دیتے ہیں جو میاں صاحب کے اعصاب کو توڑنے میں ناکام رہے تھے (وہ جلاوطنی پر کیوں آمادہ ہوئے؟ یہ ایک الگ کہانی ہے)ہاشمی کا اعلان ہے‘ آزمائشوں کے اس مرحلے میں میاں صاحب اور ان کی مسلم لیگ تنہا نہیں ہو گی‘ میں بھی ان کے ساتھ کھڑا ہونگا۔
پھر بہار آئی وہی دشت نوردی ہو گی
پھر وہی پائوں وہی خارِ مغیلاں ہوں گے