"RTC" (space) message & send to 7575

بلوچستان…کچھ تو ہے!!

لاہور میں دھند ختم ہو چکی۔ دوپہر کو نرم نرم سی دھوپ کا اپنا مزہ ہے لیکن شام خنک ہوتی ہے۔ جمعہ کی شام معمول سے زیادہ خنک تھی۔ کوئٹہ سے محمود خاں اچکزئی کی پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان خان کاکڑ آئے ہوئے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے دانشور محمد مہدی نے باغ جناح کے کاسمو پولیٹن کلب میں کچھ اخبار نویس دوستوں کو معزز مہمان سے ملاقات کے لیے بلا لیا۔ کوئٹہ کا شمار پاکستان کے سرد ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ کراچی میں سردی کی لہر کو کوئٹہ سے آنے والی ہوا کا نام دیا جاتا ہے۔ ہم نے مزاحاً عرض کیا‘ تو لاہور میں یہ سردی آپ کوئٹہ سے لائے ہیں؟ عثمان کاکڑ نے بتایا کہ کوئٹہ والے اپنے ہاں سردی کی لہر کو قندھار سے آنے والی ہوا کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور قندھار والے اس کا ذمہ دار سائبریا سے آنے والی ہوا کو ٹھہراتے ہیں۔ ''لیکن ان دنوں تو کوئٹہ میں خوب گرما گرمی ہے‘‘۔ عثمان کاکڑ نے مسکراتے ہوئے کہا‘ ''یہ اِدھر سے جانے والی ہوا ہے‘‘؟ (اس مسکراہٹ کو محاورے کی زبان میں ''زہرخند‘‘ کہہ لیں) اِدھر سے آپ کی مراد لاہور ہے؟ ''نہیں! ادھر سے مراد پوٹھوہار ہے‘‘ سینیٹر نے شہر کا نام نہ لیا لیکن اشارہ واضح تھا۔
ہم بلوچستان سے آنے والے بھائیوں کے ساتھ کسی بحث میں نہیں الجھتے۔ان کی شکایات میں مبالغہ بھی ہو تو درگزر سے کام لیتے ہیں کہ ان کا کتھارسس ہو اور دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے۔ وہ اپنی شکایات لے کر لاہور یا اسلام آباد کا رُخ کرتے ہیں تو تشویش کی کیا بات؟ وہ بعض ''ناراض بلوچ بھائیوں‘‘ کی طرح دشمنوں کی گود میں تو نہیں جا بیٹھے۔ وہ دل کا بوجھ ہلکا کر چکیں تو ہم بھی سلیقے سے ان کی شکایات کے جواب میں کچھ معروضات پیش کر دیتے ہیں۔ ''ڈائیلاگ‘‘ بہت سی غلط فہمیوں کے ازالے کے باعث بنتا ہے۔ وہ جو شاعر نے کہا تھا ؎
دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
عثمان کاکڑ کا کہنا تھا‘ آئین پاکستان اسے چار صوبوں پر مشتمل وفاق قرار دیتا ہے لیکن اسے حقیقی وفاق کی طرز پر چلانے کی بجائے ریموٹ کنٹرول سے چلایا جاتا ہے۔ ہم نے عرض کیا‘ کیا اٹھارہویں ترمیم کے بعد بھی یہ حقیقی وفاق نہیں؟ ایک ایسی ترمیم جس کے حوالے سے بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم کنفیڈریشن کی حدوں کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم پر کام کا آغاز ہوا تو مقصد 17 ویں ترمیم کے صدارتی اختیارات کا خاتمہ تھا‘ جس نے پارلیمانی نظام میں صدر کو مطلق العنان بنا دیا تھا۔ وزیراعظم جمالی حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے مشرف کو اپنا ''باس‘‘ کہا کرتے۔ لیکن ترمیم کا مسودہ 102 آئینی شقوں میں تبدیلی کے ساتھ منظر عام پر آیا۔ بلوچستان کے سینیٹر کو اس سے اتفاق تھا لیکن ان کا اصرار تھا کہ کتابِ آئین میں تو سب کچھ درج ہو چکا لیکن مسئلہ عملدرآمد کا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ منتخب اداروں کو آئینی اختیارات کے مطابق بروئے کار آنے دیا جائے۔ بات پھر بلوچستان میں موجودہ سیاسی گرما گرمی کی طرف آ گئی جسے عثمان کاکڑ ریموٹ کنٹرول ہی کا کرشمہ قرار دے رہے تھے۔
ہمیں 11 مئی 2013ء کے انتخابات سے دو ہفتے قبل کوئٹہ کا دورہ یاد آیا جس کا اہتمام جناب الطاف حسن قریشی کے ''پائنا‘‘ نے کیا تھا۔ بلوچستان میں انتخابات کا انعقاد ایک بڑا چیلنج تھا‘ ڈکٹیٹر کی رخصتی کو پونے پانچ سال ہو چکے تھے لیکن اس کی بھڑکائی ہوئی آگ کے شعلے موجود تھے۔ عمر کے آخری حصے میں بھی نواب اکبر خان بگٹی کے وہی تیور تھے‘ وہ اپنی مونچھوں کو اب بھی اونچا رکھتے‘ بلوچستان کے حقوق کی بات کرتے لیکن پاکستان کی حدود کے اندر...بلوچ قوم پرست انہیں آخری تجزیے میں اسٹیبلشمنٹ کا دوست قرار دیتے‘ بعض کو تو ''دوست‘‘ کی جگہ ''ایجنٹ‘‘ کا لفظ استعمال کرنے میں بھی عار نہ ہوتی۔
گزشتہ دنوں ایک انگریزی اخبار میں تصویر چھپی۔ بانیٔ پاکستان کی بلوچستان آمد پر استقبال کرنے والوں میں انگریزی سوٹ میں ملبوس ایک دراز قد سمارٹ سا نوجوان بھی تھا۔ اپنے قائداعظم سے ہاتھ ملاتے ہوئے اس کا جوش و خروش اور چہرے پر مسرت اور افتخار کے جذبات دیدنی تھے۔ اس کے ذاتی البم کا آغاز بھی اسی تصویر سے ہوتا۔ وہ پاکستان کا وزیر دفاع‘ بلوچستان کا گورنر اور وزیراعلیٰ بھی رہا۔ وہ قبیلے کا سردار تھا۔ ایک چرواہا اس کے بیٹوں میں سے ایک کے خلاف شکایت لے کر حاضر ہوا جس نے بھیڑوں کی دیکھ بھال کرتی ہوئی نوجوان لڑکی پر بُری نظر ڈالی تھی۔ نواب کے لیے یہ ناقابلِ برداشت تھا‘ اس نے صاحبزادے کو بلایا اور شام سے پہلے علاقے سے نکل جانے اور دوبارہ کبھی ادھر کا رُخ نہ کرنے کا حکم جاری کر دیا۔
ڈکٹیٹر کے ساتھ نواب کے جھگڑے کا آغاز سوئی پائپ لائنز کے ہسپتال میں تعینات ڈاکٹر شاذیہ کے ساتھ ایک افسر کی زیادتی کے واقعہ پر ہوا۔ ملزم کو قرار واقعی سزا دینے (اور یوں ڈاکٹر شاذیہ کو انصاف فراہم کرنے) کے لیے نواب ڈٹ گیا تھا۔ ادھر مظلومہ کی کردار کشی کا کھیل شروع ہو گیا (بالآخر ڈاکٹر بیرونِ ملک چلی گئی) پھر سوئی کی زمینوں کے کرائے کا تنازع بھی شروع ہو گیا۔ یوں لگتا تھا جیسے ڈکٹیٹر اور نواب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے ہوں۔ مفاہمت کے لیے چوہدری شجاعت حسین سرگرم ہوئے وہ ڈیرہ بگٹی پہنچے (مشاہد حسین بھی ہمراہ تھے) نواب ڈکٹیٹر سے ملاقات پر آمادہ ہو گیا۔ چوہدری صاحب خوشی خوشی اسلام آباد لوٹے۔ نواب کو اسلام آباد لے جانے والے جہاز کا انتظار ہی رہا۔ ڈکٹیٹر اپنی انا کے پہاڑ سے نیچے اترنے کو تیار نہ تھا۔ چند دن بعد وہ ''کوہلو‘‘ آیا اور دھمکی دی‘ یہ 70ء کی دہائی نہیں (جب بھٹو دور میں بلوچ نوجوان پہاڑوں پر جا چڑھے تھے) اب میں وہاں سے ماروں گاکہ پتہ بھی نہیں چلے گا۔ ( ڈکٹیٹر نے ہاتھوں کے اشارے سے باقاعدہ نشانہ لے کر دکھایا) یہ بوڑھے نواب کی شدید علالت کے دن تھے‘ ایک ٹانگ جواب دے چکی تھی۔ بڑھاپے اور معذوری کے اس عالم میں نواب نے ڈیرہ بگٹی چھوڑ کر اپنے وفادار محافظوں کے ساتھ پہاڑ پر بسیرا کر لیا اور 26 اگست 2006ء کو نشانہ بن گیا۔ علیحدگی پسند بلوچوں کو ''شہید‘‘ مل گیا تھا‘ ایک ایسا بزرگ جس نے ڈکٹیٹر کی اطاعت سے تو انکار کیا لیکن پاکستان سے بغاوت کا لفظ کبھی زبان پر نہ آیا۔
پاکستان دشمنوں کی پناہ میں بیٹھے یہی بلوچ نوجوان 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات کو سبوتاژ کرنے پر تل گئے تھے کہ ان کے خیال میں بلوچستان کی منتخب لیڈرشپ ان کے علیحدگی کے عزائم کو ناکام بنانے میں ممدومعاون ہو گی۔ سب سے بڑا چیلنج بلوچ علاقوں کے درجن بھر اضلاع تھے (اواران‘ تربت‘ گواردر‘ پنجگور‘ خضدار‘ قلات‘ مستونگ‘ خاران‘ نوشکی اور مکران وغیرہ) نگران وزیراعلیٰ جناب غوث بخش باروزئی کو ''مرحلہ وار‘‘ انتخابات کی تجویز پیش کی گئی (اس سے ان کی وزارت اعلیٰ کی مدت میں توسیع بھی ہو جاتی) لیکن دوراندیش سیاستدان نے یہ کہہ کر اسے مسترد کر دیا کہ اس سے دشمنوں کی طاقت اور حکومت کی کمزوری کا تاثر پیدا ہو گا۔ فوجی قیادت بھی پُرعزم تھی چنانچہ 11 مئی کو انتخابات کی منزل بخیروبخوبی سر کر لی گئی۔
آزاد ارکان اسمبلی کی شمولیت کے ساتھ مسلم لیگ (ن) صوبے کی سنگل لارجسٹ پارٹی بن گئی تھی‘ لیکن نوازشریف نے ڈرائیونگ سیٹ پر بلوچ قوم پرست جماعت کو بٹھانے کا فیصلہ کیا۔ گورنر شپ پختون خوا ملی عوامی پارٹی کو سونپ دی گئی۔ معاہدے کے مطابق پہلے نصف کے بعد دسمبر 2015ء میں وزارت اعلیٰ مسلم لیگ (ن) کو مل گئی۔
بلوچستان سیاسی استحکام کی راہ پر چل نکلا تھا۔ 28 جولائی 2017ء کے فیصلے کے اثرات بلوچستان پر بھی مرتب ہوئے۔ دہشت گردی پھر سر اٹھانے لگی لیکن حالات پانچ سال پہلے کی نسبت کہیں اطمینان بخش تھے۔ پھر اچانک کیا ہوا کہ ثناء اللہ زہری کی حکومت کی آئینی مدت کی تکمیل سے صرف ساڑھے چار ماہ قبل اسے گرانے کی ایکسرسائز شروع ہو گئی؟ اس حوالے سے سازشی تھیوریاں کچھ وزن تو رکھتی ہیں۔ عثمان کاکڑ اسے ریموٹ کنٹرول کا کرشمہ قرار دیتے ہیں۔ شاید یہ غلط ہو لیکن پھر بھی کچھ تو ہے!!۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں