شاعر کے سامنے ''ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا ڈھیر‘‘ تھا۔ سیاسی کالم نگاروں کے لیے طبع آزمائی کو موضوعات کی کمی نہیں (جمہوری معاشروں میں انتخابات کے بعد پولیٹیکل ٹمپریچر ڈائون ہونے لگتا ہے، گرد بیٹھنے لگتی ہے لیکن اپنے ہاں، خدا بھلا کرے، فواد چودھری صاحب اور فیاض الحسن چوہان کا، کہ وہ منتخب ایوانوں کی فضا کو بھی اشتعال آمیز بنائے رکھتے ہیں) میڈیا پر گرما گرم خبروں کے ساتھ عافیہ صدیقی کا انسانی (اور اسلامی) مسئلہ بھی ایک بار پھر نمایاں ہے۔ تو کیوں نہ ہم بھی آج قوم کی مظلوم بیٹی کو یاد کریں:
برطانیہ کی نو مسلم صحافی خاتون ایون ریڈلی کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے جو، جولائی 2008 میں پانچ سال چار ماہ سے لا پتہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ''بازیابی‘‘ کا ذریعہ بن گئی تھی۔ برطانوی اخبار ''سنڈے ایکسپریس‘‘ کی چیف رپورٹر تھی۔ برسوں پہلے طالبان کے افغانستان کا بچشم خود مشاہدہ کرنے کے لیے افغانستان پہنچی۔ اس کے پاس افغانستان کا ویزہ نہیں تھا۔ اس نے افغان خاتون کا بھیس بدلا لیکن واپسی پر پکڑی گئی۔ طالبان کی حراست میں جو عزت و احترام ملا، اس نے اسلام اور مسلمانوں کے متعلق اس کی سوچ کو نیا رخ دیا؛ چنانچہ برطانیہ واپس جا کر دائرہ اسلام میں داخل ہو گئی۔ وہ اب حجاب کا اہتمام کرنے والی ایک با عمل مسلمان خاتون ہے۔
کچھ عرصہ قبل Enemy Combatant کے نام سے ایک کتاب ریڈلی کے ہاتھ لگی۔ فروری 2002ء میں اسلام آباد سے گرفتار کیا جانے والا معظم بیگ تقریباً ایک سال بگرام میں امریکیوں کے ''زیر تفتیش‘‘ رہا۔ بعد میں اسے گوانتانامو بے منتقل کر دیا گیا۔ کوئی بھی جرم ثابت نہ ہونے پر اسے 2005ء میں رہا کر دیا گیا۔ Enemy Combatant انہی دنوں کی روداد تھی۔
بگرام جیل میں اسے کسی خاتون کی ایسی درد ناک چیخیں سنائی دیتیں جو ہزاروں میل دور گوانتا نامو بے میں بھی اس کا پیچھا کرتی رہیں۔ 2005ء میں بگرام سے فرار ہونے والے چار عرب قیدیوں میں سے ایک نے ''العربیہ‘‘ سے انٹرویو میں امریکیوں کے زیر تفتیش ایک خاتون قیدی کا ذکر بھی کیا‘ جس کی چیخیں جیل کی چار دیواری میں یوں گونجتیں کہ سننے والے رات بھر سو نہ پاتے۔ کابل میں ایک افغان تاجر بھی بگرام میں زیرِ تفتیش ایک خاتون کی موجودگی کی شہادت دیتا‘ جس کا دوست یہاں قیدیوں کے لیے کھانے پینے کی چیزیں فراہم کرتا تھا۔
ریڈلی نے اس سٹوری پر کام کرنے کا فیصلہ کیا، ''قیدی 650‘‘ کی سٹوری۔ ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق انویسٹی گیشن سیل میں بے پناہ تشدد کے باعث وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی۔ برطانوی پارلیمنٹ کے لارڈ نذیر احمد کا کہنا تھا کہ جیل کا عملہ خاتون کو مسلسل تشدد کا نشانہ بناتا۔ اسے مردانہ غسل خانہ استعمال کرنا پڑتا جہاں پردے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ یہ صورت حال کسی خاتون، خصوصاً ایک با پردہ اور با عمل مسلمان خاتون کے لیے کتنے گہرے ذہنی صدمے کا باعث ہو گی؟
ریڈلی نے اس المیے کو بے نقاب کرنے کے لیے اسلام آباد کا انتخاب کیا۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے لیے یہ ایک بڑی خبر تھی۔ کالم نویسوں نے کالم لکھے۔ یہ اخبارات کے اداریوں کا موضوع بھی بنی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی انگڑائی لی۔ عافیہ کی بھولی بسری کہانی پھر یاد آ گئی تھی۔
2 مارچ 1972ء کو کراچی میں آنکھ کھولنے والی عافیہ نے جامعہ کراچی سے مائیکرو بیالوجی میں ماسٹرز کرنے کے بعد امریکہ کا رخ کیا، جہاں اس کا ایک بھائی اور بہن پہلے سے مقیم تھے۔ اس نے بوسٹن میں میسی چیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) سے نیورو سائنس میں بی ایس اور پھر برینڈیس یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کیا۔ کلاس فیلوز کے بقول وہ سکارف پہننے والی نسبتاً کم گو لڑکی تھی۔ نصابی کتب کے علاوہ اسلامی لٹریچر بھی اس کے زیر مطالعہ رہتا۔ نائن الیون کے بعد بھی اس کا پاکستان آنا جانا رہا۔ 2003ء کے اوائل میں وہ پاکستان میں تھی۔ 30 مارچ کو وہ اسلام آباد میں مقیم اپنے انکل کے ہاں جانے کے لیے روانہ ہوئی۔ تینوں بیٹے بھی اس کے ہمراہ تھے، سات سال، پانچ سال اور چھ ماہ کے۔ وہ ٹیکسی میں ریلوے سٹیشن جا رہی تھی۔ راستے میں اس پر کیا بیتی؟... یہ کہانی کراچی کے ایک ہونہار کرائم رپورٹر نجیب احمد نے ڈھونڈ نکالی:
ایک پولیس افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا: نائن الیون کے بعد امریکی ایف بی آئی کی ایک ٹیم کراچی آئی۔ اس کے ساتھ کراچی پولیس کی ٹیم بھی کام کر رہی تھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ گلشنِ اقبال میں القاعدہ کا ایک بہت بڑا دہشت گرد ہے جس کی گرفتاری کے لیے ہم گلشن اقبال میں ایف بی آئی کی ٹیم کے ہمراہ تھے کہ ایک ٹیکسی آتی دکھائی دی۔ ہم نے اس میں موجود سکارف پہنے ہوئے خاتون کو زبردستی اتارا اور ایف بی آئی کی گاڑی میں بٹھا دیا۔ بچوں کو دوسری گاڑی میں بٹھا دیا گیا۔ غصے میں بڑبڑاتے ہوئے ایف بی آئی کی ایک خاتون انجینئر نے عافیہ صدیقی کے چہرے پر دو تھپڑ مارے اور گاڑیاں وہاں سے چلی گئیں... ان معصوموں کے چہرے میری آنکھوں کے سامنے رہتے ہیں۔ میں اندر سے ٹوٹتا جا رہا ہوں کہ میں بھی اس ظلم میں شامل تھا‘‘۔
چند روز بعد ایک شخص موٹر سائیکل پر عافیہ کے گھر آیا۔ سرخ ہیلمٹ کے ساتھ چمڑے کی جیکٹ پہنے ہوئے اس شخص نے عافیہ کی والدہ سے قدرے درشتی سے کہا: ''تمہاری بیٹی اپنے بچوں سمیت محفوظ ہے، ان کی شکلیں دوبارہ دیکھنا چاہتی ہو تو زبان بند رکھو۔ کچھ دنوں بعد وہ واپس آ جائے گی‘‘۔ فیصل صالح حیات وزیر داخلہ تھے۔ عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی گرفتاری کی تصدیق کی، اس مشورے کے ساتھ کہ عافیہ کے گھر والے اسے مسئلہ نہ بنائیں، وہ محفوظ ہاتھوں میں ہے اور جلد بچوں سمیت لوٹ آئے گی۔ 2004ء میں ایف بی آئی کی مطلوبہ فہرست پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا نام بھی آ گیا۔
سوا پانچ سال بعد عافیہ ''بازیاب‘‘ ہو گئی۔ امریکیوں نے عافیہ کی گرفتاری کا اعتراف کر لیا لیکن وہ اس کا آغاز 17 جولائی2007ء سے کرتے۔ ان کے بقول افغانستان کے صوبہ غزنی میں گورنر ہائوس کے قریب افغان پولیس نے اسے اس حالت میں گرفتار کیا کہ اس کے پاس بم بنانے کے طریقوں پر مشتمل کچھ دستاویزات اور نیو یارک سمیت بعض اہم امریکی مقامات کے نقشے تھے اور بوتلوں میں دھماکہ خیز مواد بھی۔ اگلے روز امریکی فوجی اور ایف بی آئی ایجنٹ پولیس سٹیشن آئے۔ دوسرے فلور پر میٹنگ روم میں وہ پردے کے پیچھے عافیہ کی موجودگی سے بے خبر تھے۔ امریکی وارنٹ آفیسر نے پردے کے پاس زمین پر اپنی رائفل رکھ دی۔ میٹنگ شروع ہوئی تھی کہ امریکن کیپٹن نے پردے کے پیچھے آواز سنی۔ عافیہ نے امریکی رائفل کے ساتھ امریکی کیپٹن کو نشانہ بنا لیا تھا۔ ترجمان نے رائفل چھیننے کی کوشش کی۔ اس دوران عافیہ دو فائر کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ لیکن فائر خطا گئے۔ وارنٹ آفیسر نے 9 ایم ایم کے پسٹل سے عافیہ پر دو فائر کیے جن میں سے ایک اسے لگا۔ وہ انگریزی میں چیخ رہی تھی: ''میں تمام امریکیوں کو موت کے گھاٹ اتار دینا چاہتی ہوں‘‘۔
عافیہ کو نیو یارک پہنچا دیا گیا۔ اس پر دو الزامات تھے، اس نے امریکیوں کو قتل کرنے کی کوشش کی اور دوسرا اس نے امریکی افسروں اور اہلکاروں پر حملہ کیا۔ ان میں سے ہر جرم کی سزا زیادہ سے زیادہ 20 سال قید تھی لیکن عافیہ کو 86 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔
اور اب پرویز مشرف کی کتاب ''ان دی لائن آف فائر‘‘ کے 23ویں باب ''Manhunt‘‘ سے چند سطور، ''نائن الیون کے فوراً بعد القاعدہ کے کئی ارکان افغانستان سے بھاگ کر پاکستان آ گئے تھے۔ ہم نے ان کے ساتھ ''بلی اور چوہے‘‘ کے کئی کھیل کھیلے۔ اسامہ بن لادن، تادم تحریر مفرور ہے‘ لیکن ہم نے کئی دوسروں کو گرفتار کیا۔ ان میں بعض کا دنیا کو علم ہے اور بعض کا نہیں۔ ہم نے 672 پکڑے، ان میں سے 369 کو امریکیوں کے حوالے کیا‘ اور اس کے عوض کئی ملین ڈالر پائے‘‘۔ ڈکٹیٹر امریکہ میں تھا جب اخبار نویسوں نے اس سے استفسار کیا کہ یہ رقم کس کس کھاتے میں جمع ہوئی؟ اس نے حیرت کا اظہار کیا: ''کیا کتاب میں یہ بات بھی موجود ہے؟‘‘ کتاب کے اردو ترجمے میں یہ بات حذف کر دی گئی تھی۔