لندن سے سہیل اختر ملک اور لاہور سے احسان وائیں سمیت نیشنل عوامی پارٹی (موجودہ اے این پی)کے احباب کا کہناتھا کہ تم نے سقوط مشرقی پاکستان کے حوالے سے حالیہ دوکالموں میں خان عبدالولی خان کا نام تو لیا‘ لیکن1971ء کے بحران میںپاکستان کو بچانے کے لیے ان کے کردار کا ذکر نہیں کیا۔انہیں یاد تھا کہ تب حمود الرحمن کمیشن کے روبرو بیان دینے والوں میں ولی خان بھی تھے۔ 47سال بیت جانے کے بعد بھی قائد اعظمؒ کے پاکستان کو یاد رکھنے والوں کے لیے یہ ایک اہم موضوع ہے۔ خان عبدالولی خان کا حمود الرحمن کمیشن میں بیان بھی اس سلسلے میں اہم حوالہ ہے:
''اس بحران کے دوران ڈھاکہ میں شیخ مجیب سے میری پہلی ملاقات 14مارچ کو ہوئی۔ میں نے پوچھا: تم ایک پاکستان میں یقین رکھتے ہو یا دو میں۔ ان کاجواب تھا: میں ایک مسلم لیگی ہوں۔تم پاکستان کے قیام کے مخالف تھے اور اب یہ پوچھنے آئے ہو کہ میں اس میں یقین رکھتا ہوں یا نہیں؟ مجیب نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: یحییٰ ‘ بھٹو اور قیوم خان کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ وہ مجھے صرف مصروف رکھنا چاہتا ہے‘ تاکہ اس دوران ہمارے خلاف کارروائی کے لیے اپنی فورس جمع کرسکے۔ میرے اصرار پر شیخ مجیب ‘ یحییٰ کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ ہوگیا‘ اس شرط پر کہ میں اس دوران ڈھاکہ میں موجود رہوں۔اگلے دن یحییٰ ڈھاکہ پہنچ گیا اور مجیب کے ساتھ تین چار ملاقاتیں کیں۔اس دوران یحییٰ نے مجھے بھی بلابھیجا اور بنگالیوں کے احساسات کے متعلق میری رائے معلوم کی۔ میں نے بتایا کہ بنگالیوں کے احساسات بری طرح مجروح ہیں اور یہی چیز ان کے جارحانہ رویے کا باعث ہے۔ میں نے یحییٰ سے پوچھا کہ اس نے اسمبلی کا اجلاس (غیر معینہ مدت کے لیے) ملتوی کیوں کیا؟ میرے خیال میں یہی چیز اختتام کا آغاز بنی (Beginning of the End)۔یحییٰ نے اعتراف کیا کہ اسے یہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس نے کہا کہ مجیب اب دو آئین ساز اسمبلیوں کی بات کررہاہے‘ جس پر میرا کہنا تھا کہ میں نے مجیب سے دو ملاقاتیں کی ہیں اور ان میں اس نے ایسی کوئی بات نہیں کی اور یہ بھی کہ وہ آئین ساز اسمبلی کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی بات کیوں کرے گا‘ جبکہ اسے اسمبلی میں قطعی اکثریت حاصل ہے۔ میں نے یہ بھی یاد دلایا کہ یہ بھٹو ہے‘ جس نے آئین ساز اسمبلی کو Dissolveکرنے کا مطالبہ کیا (اور اگر آپ اجاز ت دیں‘ تو میں کہوں گا کہ بھٹو نے یہ بات آپ کی تائید کے ساتھ کہی) کیونکہ اس صورت میں بھٹو‘ مغربی پاکستان کی الگ اسمبلی میں اکثریتی لیڈر بن سکتا ہے۔ میں نے صدریحییٰ کو صاف صاف کہا کہ وہ اس واحد شخص کو کمزور کرنے کی کوشش کررہا ہے جو‘اب پاکستان کو متحد رکھ سکتا ہے اوروہ شیخ مجیب ہے‘ جس پر بھاشانی کی زیر قیادت بائیں بازو کے انتہا پسند (علیحدگی کے لیے)بے پناہ دبائو ڈال رہے ہیں اور بھاشانی کو یہ لائن بھی (آپ کی) حکومت نے دی ہے‘‘۔
اپنے بیان میں ولی خان نے یحییٰ کے ساتھ بھٹو کے سوا‘ مغربی پاکستان کے تمام لیڈروں کی آخری ملاقات کا ذکر بھی کیا‘ جس میں یحییٰ کا کہناتھا کہ اس نے تمام طریقے اختیارکرلئے ہیں اور اب اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہا کہ ''میں گولی کے ذریعے راستہ بنائوں‘‘ ۔جس کے بعد ولی خان‘ مجیب سے مغربی پاکستان واپسی کی ''اجازت‘‘لینے گئے۔ مجیب کہہ رہاتھا: ولی خان! آپ پہلی دستیاب پرواز سے اس بدقسمت سرزمین سے روانہ ہوجائیں۔ جرنیلوں نے گولی کے ذریعے راستہ بنانے کا فیصلہ کرلیاہے‘(وہی الفاظ جو یحییٰ نے کہے تھے) اب یہاں بہت خون بہے گا۔ مجیب نے ولی خان کو گلے لگاتے ہوئے کہا: ہم شاید آخری بار مل رہے ہیں‘‘ ۔ولی خان نے دیکھا ‘ مجیب کی آنکھیں آنسوئوں سے لبریز تھیں۔
اپوزیشن کی تمام جماعتیں ذوالفقار علی بھٹو کو سقوط مشرقی پاکستان میں ''برابر کا ذمہ دار‘‘ قرار دے رہی تھیں۔ وہ بھٹو صاحب کے طرزِ عمل کا حوالہ دیتیں‘ جس کے باعث ملک کے دونوں حصوں کے درمیان محاذ آرائی سنگین ترہوتی چلی گئی اور معاملات پوائنٹ آف نوریٹرن تک پہنچ گئے۔ بھٹو صاحب کو مسئلے کی سنگینی کا بخوبی احساس تھا؛ چنانچہ انہوں نے ''کمیشن آف انکوائری 1971ء وار‘‘ کے قیام کا اعلان کیا۔ چیف جسٹس جناب حمودالرحمن کی سربراہی میں یہ کمیشن جناب جسٹس انوار الحق اور جناب جسٹس طفیل علی عبدالرحمن پر مشتمل تھا۔ کمیشن کادائرہ کار اس المیہ کے ''جنگی پہلو‘‘ تک محدود تھا۔ ٹرمز آف ریفرنس کے مطابق اسے ان حالات کے بارے میں تفتیش وتحقیق کرنا تھی ‘جن میں مشرقی پاکستان میں پاکستانی کمانڈر اور اس کی زیر کمان مسلح افواج نے ہتھیار ڈال دیئے۔ کمیشن کو اس بات کی بھی تفتیش کرنا تھی کہ مغربی پاکستان کی سرحدوں پر جنگ بندی کے احکام کیسے دیے گئے اور وہ کیا حالات تھے‘ جن میںجموں وکشمیر کی سیز فائر لائن پر جنگ بندی کا حکم دیا گیا؟بھٹو صاحب نے اپوزیشن کا یہ مطالبہ مسترد کردیا تھا کہ سقوطِ مشرقی پاکستان کے سیاسی پہلوئوں کا جائزہ بھی کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس میں شامل کیا جائے۔ ناقدین کے بقول :کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس کو صرف عسکری پہلوئوں تک محدود کرنے کا مقصد‘ اس سازش کی پردہ پوشی تھا ‘جو اس المیے کا اصل سبب بنی۔
کمیشن نے یکم فروری1972ء کو کام کا آغاز کیا اور ساڑھے پانچ ماہ میں272گواہوں کے بیانات قلمبند کرکے(12جولائی کو) اپنی رپورٹ صدر ذوالفقار علی بھٹو کو پیش کردی۔ یہ ابتدائی رپورٹ تقریباً ایک ہزار صفحات پر مشتمل تھی۔ مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے والے اعلیٰ فوجی افسران (جنرل اے کے نیازی‘ جنرل جمشید ‘ جنرل رائو فرمان علی‘ ریئر ایڈمرل شریف اور ایئر کموڈور انعام وغیرہ) ہندوستان کی قید میں تھے۔ ان کے بیانات کے بعد ہی حتمی رپورٹ تیار کی جاسکتی تھی۔ شملہ معاہدے کے بعد جنگی قیدیوں کی رہائی عمل میں آئی تو کمیشن نے باقی ماندہ کام کا آغاز کیا اور 23ا کتوبر 1974ء کو رپورٹ کا دوسرا حصہ بھی پیش کردیا۔
راز داری کے تقاضوں کے پیش نظر رپورٹ کے ابتدائی حصے کی صرف 4جلدیں تیار کی گئی تھیں۔ جناب بھٹو یہ دیکھ کر سخت حیران اور پریشان ہوئے کہ اس میں تقریباً 34صفحات ایسے تھے‘ جن میں مشرقی پاکستان کے بحران کے حوالے سے ان کے سیاسی کردار کا ذکر بھی تھا۔ انہوں نے چاروں جلدیں اپنے پاس منگوا لیں اور ''قابل اعتراض‘‘34صفحات نکلوا کرنئے صفحات شامل کردیئے۔ اس جعلسازی پر پردہ ڈالنے اور تبدیل شدہ رپورٹ کو ''اصل اور مستند‘‘ ظاہر کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیاگیا کہ کمیشن کے سیکرٹری ایم اے لطیف سے ہر صفحے پر دستخط کرا لیے جائیں۔ ایم اے لطیف ایک ذمہ دار اور دیانتدار افسر تھے‘ وہ ہر ہر صفحہ غور سے پڑھتے اور اس کے بعد دستخط کرتے۔ قدرت نے انہیں حافظہ بھی بلا کا عطا کیا تھا۔ ان 34صفحات کی جعلسازی ان سے چھپی نہ رہی اور انہوں نے ان پر دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ چیف جسٹس حمود الرحمن نے صورتحال کا علم ہونے پر بھٹو صاحب سے رابطہ کیا۔ وہ اپنے رفیق کار کوپرائم منسٹر ہائوس میں حبس ِ بے جا میں رکھے جانے پر سراپا احتجاج تھے( ایم اے لطیف سپریم کورٹ کے رجسٹرار بھی تھے)بالآخر چیف جسٹس کو ''دھمکی‘‘ دینا پڑی کہ ایم اے لطیف کو فوری طور پر رہا نہ کیا گیا‘ تو وہ نہ صرف ان کی حبسِ بے جا کی درخوات منظور کرلیں گے‘ بلکہ قوم کے سامنے حقیقت بھی بے نقاب کردیں گے۔ یہ ''دھمکی ‘‘کار گر ہوئی۔ ایم اے لطیف کو رہا کردیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ برہنہ پا دوڑتے ہوئے وزیر اعظم ہائوس سے باہر نکلے۔یوں تو اس رپورٹ کا ایک ایک ورق دیدۂ عبرت نگاہ کے لیے نصیحت اور عبرت کا سامان لیے ہوئے ہے‘ لیکن آج کے کالم کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے۔