"RTC" (space) message & send to 7575

بلاول اہم ہوگئے!

بلاول بھٹو زرداری نے احتیاط سے کام لیا‘ اس کے باوجود بات تھی مزیدار۔ سنگین علالت کے شکار میاں محمد نواز شریف کی مزاج پرسی کے لیے بلاول کوٹ لکھپت جیل گئے تو وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے ''بھٹو کے نواسے‘‘ کی ''ضیاء الحق کے منہ بولے بیٹے‘‘ سے ملاقات کو ''رواں صدی کا سب سے بڑا یو ٹرن‘‘ قراردے دیا۔ اس پر انسانیت کو سیاست سے اوپر قرار دیتے ہوئے بلاول کی بزرگانہ نصیحت تھی، ''پہلے انسان بنو اس کے بعد سیاستدان‘‘ اور پھر نوجوان سیاستدان کی رگِ ظرافت پھڑکی: نئے پاکستان میں ''یو ٹرن لینے والا بڑا لیڈر ہے، تو میں صدی کا بڑا لیڈر ہوں‘‘ (ظاہر ہے، اشارہ فواد چودھری کے موجودہ لیڈر کے اس ارشاد کی طرف تھا‘ جس میں انہوں نے یو ٹرن کو بڑے لیڈر کی پہچان قرار دیا اور کہا تھا کہ (دوسری جنگِ عظیم کے دوران) ہٹلر اور مسولینی بھی یو ٹرن لے لیتے تو شکست کے انجام سے دوچار نہ ہوتے) اور فواد چودھری نے اسے ''صدی کا سب سے بڑا‘‘ یو ٹرن کہا تھا۔ بلاول نے احتیاط سے کام لیا اور خود کو صدی کا ''سب سے بڑا‘‘ لیڈر ٹھہرانے سے گریز کیا۔ ''صدی‘‘ کی بات بھی بلاول نے جواباً کہی (وہ جو انگریزی میں ''In the Same Coin‘‘ کہا جاتا ہے) 
ویسے بلاول خوش قسمت ہیں کہ ان چند دنوں میں، وہ واقعی ملک کے بڑے لیڈروں میں شمار ہونے لگے ہیں۔ بڑا لیڈر کون ہوتا ہے، وہ جو سیاست میں Relevant ہو جائے۔ حالیہ چند دنوں میں وہ جس طرح سیاسی تجزیوں اور تبصروں کا موضوع بنے، اس کا مطلب ہے کہ سیاست میں Irrelevant نہیں رہے۔ میڈیا تو روزانہ تبصروں اور تجزیوں کے لیے موضوعات کی تلاش میں رہتا ہے، لیکن اگر ملک کا وزیر خزانہ (اسمبلی میں) اور وزیر اعظم (جلسۂ عام میں) کسی سیاستدان کو اپنی گفتگو کا موضوع بنائے بغیر نہ رہے تو اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ آپ اتنے اہم ہو گئے ہیں کہ آپ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یاد آیا، ہمارے قاضی صاحب (مرحوم) نے 1993ء کے (وسط مدتی) انتخابات کے لیے پاکستان اسلامک فرنٹ (PIF) بنایا تھا۔ 1988ء اور 1990ء کے انتخابات میں وہ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں، اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم پر نواز شریف کے اتحادی تھے۔ 1990ء کے انتخابات کے بعد وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ وہ زیادہ دیر نہ چل سکے۔ اب وہ ''دونوں کو برابر کی برائی‘‘ قرار دے رہے تھے۔ اسی نعرے کے ساتھ انہوں نے 1993ء کے انتخابات میں پاکستان اسلامک فرنٹ بنایا۔ انتخابی مہم میں، بے نظیر صاحبہ سے زیادہ نواز شریف ان کا ہدف تھے۔ ادھر نواز شریف تھے کہ قاضی صاحب کے جواب میں کبھی ایک لفظ نہ کہا۔ ان کے ساتھ جواب الجواب میں الجھنے کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ انہیں بھی برابر کا حریف سمجھتے ہیں۔ یہ گویا ان کی اہمیت تسلیم کرنے (انہیں اہم بنانے) والی بات ہوتی۔ اس حکمت عملی کا یہ فائدہ بھی ہوا کہ جماعت اسلامی کا روایتی ووٹر، بڑی تعداد میں نواز شریف کی طرف آ گیا (اور آج تک واپس نہیں گیا)
بلاول خوش قسمت ہیں کہ انہوں نے اہمیت والی منزل، جس کے لیے ابھی طویل سفر طے کرنا تھا، ان چند دنوں میں حاصل کر لی۔ 
کل کی بات لگتی ہے، جب فرزند لال حویلی، بلاول کو ''بلّو رانی‘‘ کہا کرتا، پھر اسے ''بے بی بلاول‘‘ کہا جانے لگا۔ اسی دوران والدِ بزرگوار نے یہ کہہ کر صاحبزادے کو سیاسی منظر سے ہٹا دیا کہ اسے ابھی تربیت اور تجربے کی ضرورت ہے۔ جولائی 2018 کے الیکشن میں وہ کراچی میں لیاری کے روایتی حلقے سے (جو اس کے نانا کے دور سے پیپلز پارٹی کا گڑھ چلا آ رہا تھا) پی ٹی آئی کے ایک نسبتاً غیر معروف امیدوار سے شکست کھا گئے‘ لیکن سندھ میں اپنے ''آبائی حلقے‘‘ سے جیت کر قومی اسمبلی میں پہنچ گئے۔ زرداری صاحب بھی کچھ اپنی صحت اور کچھ دیگر مجبوریوں کی بنا پر، پیچھے ہٹنے لگے (خود پیپلز پارٹی کے باقی ماندہ وابستگان بھی بزرگوار کے بوجھ سے نجات ہی میں، ڈوبتی ہوئی پیپلز پارٹی کی عافیت سمجھتے تھے)۔ 
اور اب بلاول ہے کہ کھل کر کھیل رہا ہے (والدِ بزرگ اب بھی شاید پس پردہ رہ کر کچھ دائو پیچ سمجھاتے ہوں) گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں اس کی تقریر وفاقی وزیر خزانہ کے جوابی خطاب کا موضوع تھی۔ جناب اسد عمر سیاست پر کم ہی بولتے ہیں کہ ان کا اصل میدان ''معیشت‘‘ ہے (ویسے معیشت کے میدان میں بھی ان کی چھ، سات ماہ کی کارکردگی کے سامنے کئی سوالیہ نشان ہیں۔ (سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین جیسے دوستوں کی طرف سے جو سہولتیں ملیں، اس کریڈٹ کے وہ کس حد تک مستحق ہیں؟) لیکن بلاول کی تقریر پر وہ خوب بولے۔ کالعدم جماعتوں کے حوالے سے بلاول کی تنقید کو انہوں نے انڈیا کے بیانیے کا عکس قرار دیا۔ بلاول کے ساتھ ''بھٹو‘‘ کے لاحقے پر بھی انہیں اعتراض تھا اور اس کے ساتھ یہ سوال بھی کہ وہ اپنے نام کے ساتھ ''زرداری‘‘ لگاتے ہوئے کیوں شرماتے ہیں؟ (حالانکہ ان کے نام میں ''بھٹو‘‘ کے ساتھ ''زرداری‘‘ بھی موجود ہے) بلاول کی انگریزی تقریر پر وہ دور کی کوڑی لائے۔ ان کے بقول، بلاول کے اصل مخاطب اس کے غیر ملکی آقا تھے، جہاں ان کے خاندان کی (لوٹی ہوئی) دولت پڑی ہے۔
اور بات وزیر خزانہ تک محدود نہ رہی، اگلے روز وزیر اعظم صاحب تھرپارکر گئے تو وہ بھی بلاول کو موضوعِ بحث بنائے بغیر نہ رہے۔ نوجوان سیاست کی چند اور سیڑھیاں چڑھ گیا تھا۔ بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا۔ بقول شاعر ؎
ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے
آئے تو سہی برسرِ الزام ہی آئے
وزیر اعظم صاحب کے اس دورے پر پیپلز پارٹی کی سینیٹر کرشنا کماری کا تبصرہ بھی دلچسپ تھا: ''کل ایک اجنبی شخص میرے محبوب تھر میں آیا۔ کل چھاچھڑو میں غیر اعلانیہ کرفیو نافذ تھا۔ اس اجنبی شخص کی آمد کی وجہ سے ہسپتالوں کو جانے والے راستے بند تھے۔ اس نے تھر کے عوام کو کچھ دینا نہیں تھا تو ادھر آنے کی زحمت کیوں کی... سلیکٹڈ وزیر اعظم جس طرح خالی ہاتھ آئے تھے، تھر کے عوام نے بھی (ان کے جلسے میں شرکت نہ کرکے) انہیں اسی طرح خالی ہاتھ واپس کر دیا‘‘۔ سندھ کے پسماندہ ترین علاقے سے پہلی بار سینیٹر بننے والی، نوآموز سیاستدان کا سیاسی تبصرہ سیاسی حلقوں میں دلچسپی کا باعث تھا۔ ایک دن قبل سینیٹر کرشنا کماری اس طرح دنیا کی توجہ کا مرکز بنیں کہ چیئرمین سینیٹ جناب صادق سنجرانی نے عالمی یوم خواتین کے حوالے سے ان کے لیے اپنی سیٹ خالی کر دی تھی۔
بدھ کی سہ پہر سندھ اسمبلی کے کمیٹی روم میں بلاول کی پریس کانفرنس اس ہفتے، ایک اور اہم سیاسی سرگرمی تھی۔ وہ سپیکر سندھ اسمبلی سراج درانی کے خلاف نیب کی کارروائی پر احتجاج اور درانی صاحب سے اظہار یک جہتی کے لیے آئے تھے۔ کہا جاتا ہے، یہ ان کی (اب تک کی) طویل ترین پریس کانفرنس تھی، جس میں وہ کبھی سنجیدہ، کبھی رنجیدہ اور کبھی جذباتی نظر آئے۔ میڈیا پرسنز کے تند و تیز سوالات کا بھی انہوں نے بڑی جواں مردی اور پا مردی سے سامنا کیا۔ ان کی زبانی ''جیل بھرو تحریک‘‘ کے امکان سیاسی و صحافتی حلقوں میں بحث مباحثے کا نیا موضوع تھا۔ ''جیل بھرو تحریک‘‘ کے اس آئیڈیا نے کیا مسلم لیگ (ن) کے قائد سے جیل میں ہونے والی حالیہ ملاقات میں جنم لیا؟ علیل سیاستدان کی مزاج پرسی کے لیے یہ ملاقات کسی ایجنڈے کے بغیر سہی، لیکن اس کے سیاسی اثرات تو پھر بھی تھے۔ جہاں تک کسی سیاسی حکمت عملی، کسی مشترکہ لائحہ عمل کا معاملہ ہے، سپرنٹنڈنٹ سمیت جیل کے تین سینئر حکام کی موجودگی میں اس حوالے سے کیا بات ہو سکتی تھی؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں