"RTC" (space) message & send to 7575

وزیر داخلہ کا انٹرویو ‘ نوازشریف اور ’’مسلم اُمہ‘‘

وفاقی وزیر داخلہ سید اعجاز شاہ سے سینئر اخبار نویس کا انٹرویو ‘ ایک بے تکلف سی ملاقات تھی‘ دوستانہ گپ شپ ‘ خود مہمان اور میزبان کے بقول ان کی باہم شناسائی وآشنائی کا عرصہ چالیس پنتالیس سال پر محیط ہے؛ چنانچہ آپ اس انٹرویو کو کرکٹ کی اصطلاح میں''فرینڈلی میچ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں یاجنگی اصطلاح میں ''فرینڈلی فائر‘‘ بھی ۔اسی بے تکلفی میںوزیر داخلہ نوازشریف کے بارے میں بہت اہم بات کہہ گئے (جس کا ذکر آگے چل کر)...''فرینڈلی میچ‘‘ سے یا دآیا ‘ عمران خان مئی 2013ء کے عام انتخابات سے تین چار روز قبل ایک انتخابی جلسے میں سٹیج سے گر کر زخمی ہوئے تو فرصت پاتے ہی نوازشریف عیادت کے لیے ہسپتال پہنچے۔ کافی دیر اِن کے ساتھ رہے اور اٹھتے ہوئے کہا‘ بس اب تم جلدی سے ٹھیک ہوجائو جس کے بعد ہم فرینڈلی میچ کھیلیں گے۔ ''تم‘‘ کا صیغہ دوستانہ بے تکلفی کا اظہا رتھا۔ برسوں پہلے ان میں خاصا دوستانہ تھا‘ تب لاہور جم خانہ گرائونڈ میں وہ اکٹھے کرکٹ کھیلا کرتے۔ چودھری نثار علی خان سے عمران خا ن کی ''دوستی‘‘ کا حوالہ کرکٹ بھی تھی۔ ایچی سن کالج کے دنوں میں‘ وہ چودھری نثار ہی کی کپتانی میں کالج کی ٹیم کا حصہ تھے۔(نوازشریف نے اپنے ''انتخابی حریف‘‘ کے زخمی ہونے کی اطلاع پاتے ہی‘ ملک بھر میں مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم ایک دن کے لیے معطل کردی تھی)۔ مارچ 2014میں (دھرنوں سے پانچ ماہ قبل) خان صاحب نے وزیر اعظم نوازشریف کو بنی گالہ میں شا م کی چائے پر مدعو کیا۔ اس بے تکلف ملاقات میں مینیو خاصا پُرتکلف تھا۔ یہ سیاست سے ہٹ کر دوستانہ گپ شپ تھی۔ ایک موقع پر خان صاحب کی پشاوری چپل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نے از راہ تفنن کہا : یہ طالبان کا تحفہ ہے؟ وزیر اعظم کی آمد بنی گالہ پہاڑ تک اعلیٰ معیار کی پختہ سڑک کی تعمیر کا باعث بن گئی تھی۔
انٹرویو (اور خصوصاً اہم شخصیتوں کے انٹرویو) دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی (اورٹی وی سکرین پر دیکھی اور سُنی) جانے والی چیزوں میں شمار ہوتے ہیں۔ بائیو گرافیز(اور آٹو بائیو گرافیز) کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ہمارے کالج اور یونیورسٹی کے دنوں میں اٹلی کی ا وریانہ فلاسی (Oriana Fallaci)کے انٹرویوز کی دھوم تھی۔ اپنے دور کی اہم عالمی شخصیتوں سے یہ انٹرویو انٹرنیشنل میڈیا کی شہ سرخیاں بنتے‘ خود اوریانہ اپنی پہچان جرنلسٹ سے زیادہ رائٹرکے طور پرکروانا پسند کرتیں۔ 1960ئ70ء اور 80ئمیں کئے گئے یہ انٹرویوز ''Interviews With History and Power‘‘کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوئے‘ جس میں رابرٹ کینیڈی‘ ہنری کسنجر‘ یاسر عرفات‘ کرنل قذافی‘ دلائی لامہ‘ لیہہ ویلسیا اور ایریل شیرون اور اپنے علاقے کی شخصیتوں میں ذوالفقار علی بھٹو ‘ اندراگاندھی‘ شاہ ایران اور آیت اللہ روح اللہ خمینی کے انٹرویو شامل تھے۔ دنیا کا ہر بڑا لیڈر اور یانہ کے انٹرویو کی خواہش کرتا۔ اگرچہ یہ انٹرویو بہت''ٹف‘‘ ہوتے۔ سوالنامہ پہلے بھجوا دیا جاتا‘ لیکن جواب میں سے نکلنے والے سوال کا بھی اپنا لطف ہوتا۔ اور یانہ کے قلم سے اس کے ''مہمان‘‘ کا ''خاکہ‘‘ اورمنظر نامہ بھی کمال کا ہوتا۔ لیبیا کے کرنل قذافی گھوڑے پر سوار ‘ہاتھ میں تلوار لئے انٹرویو والے کمرے میں داخل ہوئے تھے۔
امام خمینی کے انقلاب پر مغرب کی حیرانی وپریشانی اور غم وغصہ ''فطری‘‘ تھا‘ اور یانہ کے انٹرویو میں بھی یہ کیفیت چھپائے نہ چھپتی تھی۔ اس انٹرویو کے اردو ترجمے پر شامی صاحب نے سرخی جمائی:''اوریانہ فلاسی کے منہ زور سوالات‘ امام خمینی کے منہ توڑ جوابات‘‘۔
قارئین سے معذرت کہ وزیر داخلہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کے انٹرویو سے شروع ہونے والی بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی...وزیر داخلہ سے اس انٹرویو میں سیاسی مخالفین کے احتساب کی بات بھی ہوئی جس پر ان کا وہی روایتی سرکاری موقف تھا‘ یہ نیب کے قیدی ہیں‘ اسی سے بارگین یا پلی بارگین ہونی ہے۔ ان معاملات سے حکومت کا کیا لینا دینا؟ میاں نوازشریف کا ذکر ہوا تو وزیر داخلہ نے بے تکلفانہ فرمایا: ان کے گرد چار پانچ بندے نہ ہوتے تو وہ چوتھی بار بھی وزیر اعظم ہوتے۔ان میں سے دوتین سینیٹر تھے‘ دوتین ایم این اے تھے اور انہوں نے ان (نوازشریف ) کے خاندان کا کوئی آدمی باہر نہیں رہنے دینا۔یہ وہ لوگ تھے ‘ جن کا اپنا Stakeپر کچھ نہیں تھا۔ ان چار پانچ آدمیوں کا پوچھاگیا تو شاہ صاحب نے کہا‘ نام لینے کی ضرورت نہیں‘ آپ کو پتہ ہے‘ ہارڈ لائنر کون ہے؟...وہ (نوازشریف) نثار علی خان کی بات ہی مان لیتے تو مسئلہ صحیح ہوسکتا تھا۔ وزیر داخلہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: کیایہ افسوس کی بات نہیں کہ عوام نے جسے تین بار وزیر اعظم بنایا‘ اب سلاخوں کے پیچھے ہے؟ 
مولاناظفرعلی خاں فکری فورم میں کشمیر پر عالمی ردِ عمل زیر بحث تھا‘ سوالات کی باری آئی تو بیشتر حضرات (اکثریت نوجوانوں کی تھی) فرطِ جذبات میں''مسلم اُمہ ‘‘ پر برس پڑے۔کسی نے OICکو ''مردہ گھوڑا‘‘ قرار دیا جس سے وابستگی کا کوئی فائدہ نہیں‘ کسی نے ''اُمہ ‘‘پر اپنے تجارتی ومعاشی مفادات کو مسلمان بھائیوں کے خون پرترجیح دینے کا الزام لگایا۔ اس تندوتلخ ماحول میں مائک شامی صاحب کے پاس آیا۔ وہ ایک ''اَن پاپولر‘‘ سی بات کہہ رہے تھے‘ جو آہستہ آہستہ دلوں میں اترنے اور دماغوں کو متاثر کرنے لگی... ان کا کہنا تھا: ''مسلم اُمہ‘‘ ہماری ڈھال ہے‘ پچاس پچپن ممالک جنہیں ضرورت کے وقت ‘مصیبت کے وقت ہم پکارتے ہیں اور ہماری پکار پر وہ لبیک کہتے ہیں۔ ہماری حمایت میں تھوڑا بولیں‘ بہت بولیں‘بلند آہنگ ہوں یا دھیمے لہجے میںبات کریں‘ بات تو کرتے ہیں۔ ہم ان پر ''کلیم‘‘ کرتے ہیں‘ ان پر''مان‘‘ رکھتے ہیں جسے وہ قبول کرتے ہیں۔ابھی آئی ایم ایف سے 6ارب ڈالر کے لیے ہمیں کیا کیا جتن کرنا پڑے‘ کیاکیا تسلیم کرنا پڑا‘ لیکن ایک ''مسلم اُمہ‘‘ تھی کہ ادھر ہم نے بات کی‘ اُدھر اس نے چھ ‘ سات ارب ڈالر ہماری نذر کردیئے۔ ادھار پر تیل اس کے علاوہ ہے‘ مئی1998ئکے ایٹمی دھماکوں کے وقت بھی یہی ہواتھا۔ 1965ئاور1971ئمیں پاکستان پر حملے کو ''مسلم اُمہ‘‘ نے خود پر حملہ تصور کیا تھا اور اب بھی کشمیر پر ہلکی پھلکی ہی سہی ‘ آواز یں تو وہیں سے اٹھتی ہیں‘ انہوں نے (مقبوضہ )کشمیر میں کرفیو اٹھانے کے لیے قرار داد یں منظور کی ہیں۔ گزشتہ شام ایک ٹاک شو میں ایک سابق وزیر خارجہ (سردار آصف احمد علی) کی اس بات پر کہ مسلم اُمہ کو تو ہم متروک ہی کردیں‘ شامی صاحب کو نواب زادہ نصر اللہ اور مولانا شاہ احمد نورانی کا ''مکالمہ‘‘یاد آیا۔بھٹو دور میں‘ متحدہ جمہوری محاذ (یو ڈی ایف) بنا تو نورانی میاں کی جے یو پی بھی اس کا حصہ تھی۔ پھر وہ ائیر مارشل اصغر خان کی طرف ملتفت ہوگئے۔ اس حوالے سے ایک سوال پر نورانی میاں کا کہناتھا:ہم تو یوڈی ایف کو چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن ''کمبل‘‘ ہمیں نہیں چھوڑتا‘ اس پر نواب زادہ صاحب نے ترت جواب دیا!''کمبل‘‘ نہ چھوڑیئے گا‘ ورنہ آپ عریاں ہوجائیں گے۔ شامی صاحب کا کہناتھا: مسلم اُمہ کے ''کمبل‘‘ سے ہمارا بھرم قائم ہے‘ ہم اسے چھوڑ یں گے تو پلے کچھ نہیں رہے گا۔ ہمارا رویہ اس غریب رشتے دار کی مانند نہیں ہونا چاہیے جو امیر رشتے داروں سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کیے رکھتا ہے اور اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کوشش نہیں کرتا...پاکستان ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔ یہ ایک بڑی طاقت کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا تھا۔ سارا عالم اسلام‘ ساری عرب دنیا ہماری طرف اُمید کے ساتھ دیکھتی تھی۔ تب ہم ان کی آرزوئوں اور امیدوں کا مرکز ومحور تھے۔ انٹلیکچوئل لیڈر شپ ہماری تھی۔ یہ ہمارے ہی بینکرز تھے جنہوں نے عربوں کی اکانومی کھڑی کی۔ ہمارے پروفیسر ان کی یونیورسٹیوں کا وقار تھے۔ ہمارے انجینئرز ‘ فنی ماہرین اور محنت کشوں نے ان کے صحرائوں کو گل وگلزار کیا۔ انہیں جدید شہر دیئے‘ انہیں فضائی کمپنیاں بنا کر دیں۔ آج ہم جس حالت میں ہیں‘ یہ کسی اور کا نہیں‘ ہمارا اپنا کیا دھرا ہے۔ اب بھی ہم میں عروج وارتقا کا بہت پوٹینشل موجود ہے‘ اسے بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ اپنا آپ پہچاننے کی ضرورت ہے ؎ تعمیرِ خود ی کر‘اثر آہِ رسا دیکھ۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں