سوموار کی شب جوہر ٹائون کے جناح پارک میں لمبی لمبی قطاریں دور تک چلی گئی تھیں۔ ان میں اہلِ علم و فضل اور اربابِ سیاست و صحافت سمیت مختلف شعبہ ہائے حیات کے وابستگان شامل تھے۔ یہ سب ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کو سفرِ آخرت پر روانہ کرنے آئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے 92 سال عمر پائی۔ آخری برسوں میں قویٰ مضحمل ہو گئے تھے، لیکن آخری دنوں تک بساط بھر فعال رہے۔ وصی شاہ ایک حدیث سنا رہے تھے: (مفہوم) اگر تمہیں معلوم ہو کہ آج کی رات تمہاری زندگی کی آخری رات اور کل کا دن آخری دن ہو گا تو بھی اپنے حصے کی کھجور کا پودا ضرور لگاتے جائو۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی اسی کے مصداق تھی۔ انہوں نے زندگی کورب کی دی ہوئی ایک نعمت سمجھا اور اس کے ہر لمحے کو بامقصد بنانے میں لگے رہے۔ گھر کے مذہبی ماحول اور والدہ محترمہ کی تربیت کے باعث انہوں نے اپنے رب کی رضا کے حصول کو مقصدِ حیات بنا لیا تھا۔ (والد صاحب ملازمت کے باعث اکثر گھر سے دور رہتے تھے) وہ جو نعیم صدیقی (مرحوم) نے ایک ''رفیق جماعت‘‘ کے انتقال پر کہا تھا ؎
نفس نفس کو رہِ عاشقی میں کرکے نثار
تم اہلِ دل کا سا جینا ہمیں سکھا کے چلے
کراچی میں جماعت اسلامی کا ترجمان ''جسارت‘‘ اور اسکے مدیر محمد صلاح الدین بھٹو صاحب کے دور کا بیشتر حصہ ابتلا کا شکار رہے‘ ڈیکلریشن منسوخ اور صلاح الدین پسِ دیوارِ زنداں رہے۔ پروفیسر غفور احمد کہا کرتے تھے: بھٹو صاحب اور جسارت و صلاح الدین اکٹھے نکلیں گے۔ یہی بات ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی اور الطاف حسن قریشی کے ہفت روزہ ''زندگی‘‘ پر بھی صادق آتی تھی۔
سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد بھٹو صاحب کے ''نئے پاکستان‘‘ میں یہ قریشی برادران کی صحافت کا بھی نیا دور تھا۔ پیپلز پارٹی کے قیام کے روزِ اول سے قریشی برادران بھٹو صاحب کی سیاست اور طرزِ سیاست کے نکتہ چیں رہے تھے۔ یہی صورتحال 1970 کی انتخابی مہم کے دوران بھی تھی۔ انتخابات کے بعد مشرقی پاکستان کی منتخب قیادت کے ساتھ بھٹو صاحب کی محاذ آرائی کے بھی وہ سخت ناقد تھے (انہیں یحییٰ خاں کے طرز عمل پر تنقید سے بھی گریز نہ ہوتا)۔ بھٹو صاحب اس پر اتنے زچ ہوئے کہ چیئرنگ کراس پر ایک اجتماع سے خطاب میں انہیں یہ کہنے میں بھی عار نہ تھی کہ وہ اقتدار میں آئے تو قریشی برادران کو نہیں چھوڑیں گے (البتہ یہ کہتے ہوئے انہوں نے منہ پر ہاتھ نہیں پھیرا تھا)۔
قریشی برادران کے لیے عافیت کا راستہ بھی تھا، مفاہمت کا راستہ۔ ذہین و فطین میاں ممتاز محمد خان دولتانہ نے بھی تو سیاست ترک کر کے انگلستان میں سفارت قبول کر لی تھی۔ دولتانہ صاحب مسلم لیگ کونسل کے سربراہ تھے، جس نے پنجاب میں بھٹو صاحب کے طوفان میں قومی اسمبلی کی سات نشستیں حاصل کر لی تھیں۔ ان میں دولتانہ صاحب کے علاوہ چودھری ظہور الٰہی اور سردار شوکت حیات بھی تھے۔ چند ماہ بعد شوکت حیات نے بھی قائدِ عوام کی اطاعت قبول کر لی؛ البتہ چودھری ظہور الٰہی ڈٹے رہے اور ان خوش نصیبوں میں شمار ہوئے، جن کے لیے درِ زنداں 5 جولائی 1977 کے بعد کھلا۔ قریشی برادران نے عافیت کا راستہ، مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے مزاحمت کا فیصلہ کیا۔ بھٹو صاحب کے نئے پاکستان کا چوتھا مہینہ تھا، جب قریشی برادران گرفتار کر لئے گئے، اردو ڈائجسٹ اور زندگی کے ڈیکلریشن ضبط۔ صعوبتوں کے صحرا میں شامی صاحب بھی ان کے ہم قدم تھے۔
1977 میں رہائی کے بعد قریشی برادران نے ''زندگی‘‘ کے احیا کا فیصلہ کیا۔ ہماری خوش بختی جو اپنی باقاعدہ صحافتی زندگی قریشی برادران کے زیر سایہ شروع ہوئی۔ یہاں ہم ''برگد‘‘ کے دو درختوں کے زیر سایہ تھے‘ لیکن یہ اردو محاورے والے ''برگد‘‘ نہیں تھے جن کے زیر سایہ پودے بڑے نہیں ہوتے۔ یہاں مناسب ڈسپلن کے ساتھ آزادی کا ماحول تھا۔ کاپی پریس چلی جاتی تو اگلی صبح آئندہ شمارے کے لیے میٹنگ ہوتی۔ عموماً ڈاکٹر صاحب میٹنگ لیتے۔ کسی انویسٹی گیٹو سٹوری پر کام کا فیصلہ ہوتا تو ڈاکٹر صاحب اس کے لیے درکار مالی وسائل کی فراہمی میں بخل نہ کرتے۔ الطاف صاحب ضروری نکات کے حوالے سے رہنمائی کرتے اور متعلقہ لوگوں (اخباری اصطلاح میں ''ذرائع‘‘ کہہ لیں) سے رابطے میں مددگار ہوتے۔ وہ اپنے نوجوان رفقا (جنہیں شاگردکہنا زیادہ مناسب ہو گا) کی تجاویز پر بھی پورا دھیان دیتے۔ یہاں اردو ڈائجسٹ کی بڑی لائبریری سے استفادے کی سہولت بھی تھی۔ بیرون ملک چھپنے والی نئی کتابیں بھی ڈیڑھ دو ہفتے میں پہنچ جاتیں۔ انگریزی اور اردو کے تازہ شمارے بھی دستیاب ہوتے۔ ہم نے ہوائی جہاز کا پہلا سفر ''زندگی‘‘ سے وابستگی کے دنوں میں کیا۔ یہ تھاہکوٹ میں شاہراہ ریشم کے افتتاح کی تقریب تھی، جس کیلئے چینی وزیر اعظم بھی تشریف لا رہے تھے۔ جنرل ضیاء الحق اور ان کے ساتھ جنرل چشتی کی پہلی زیارت بھی یہیں ہوئی۔ ہوائی ٹکٹ کے علاوہ ڈاکٹر صاحب نے معقول ''زادِ سفر‘‘ بھی مہیا کر دیا تھا۔
ڈاکٹر صاحب فرصت کے اوقات میں‘ ہفتے میں دو تین بار ''رفقائے زندگی‘‘ کے ساتھ مجلس آرائی کا اہتمام بھی کرتے۔ ڈاکٹر صاحب کی فیملی اوپر والی منزل میں رہتی تھی؛ چنانچہ معقول اور مزیدار طعام کا اہتمام بھی ہو جاتا اور اس کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کی مزے مزے کی حکایتیں۔ ہجرت کے بعد پاکستان میں پیش آنے والی مشکلات کا ذکر، عسرت اور تنگ دستی کی کہانیاں، نا مساعد حالات میں ہمت اور حوصلے سے آگے بڑھنے اور مشکلات کے پہاڑوں سے جوئے شیر نکال لانے کی داستانیں جن میں نوجوانوں کے لیے آگے بڑھنے کا جذبہ ہوتا۔ کراچی کے ممتاز صحافی اور دانشور نصیر احمد سلیمی سندھ کی کوئی ایک صدی کی سیاست کا انسائیکلو پیڈیا ہیں۔ ان کے بقول، 1946 کے انتخابات میں علی گڑھ یونیورسٹی کے جن طلبا نے سندھ میں مسلم لیگ کی مہم چلائی، ان میں نوجوان اعجاز حسن قریشی بھی تھے۔ طلبہ کے اس وفد کی قیادت ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کر رہے تھے جو بعد میں سندھ یونیورسٹی حیدر آباد/ جام شورو کے وائس چانسلر بھی بنے۔ بچے پڑھ لکھ کر اپنے اپنے کاروبار میں لگ گئے، تو ڈاکٹر صاحب نے اردو ڈائجسٹ کے انتظامی امور طیب کے سپرد کئے (ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات) اور 2003 میں کاروانِ علم فائونڈیشن کی بنیاد ڈالی۔ یہ اس احساس کا نتیجہ تھا کہ معاشرے کے کتنے ہی ہونہار طلبہ و طالبات محض مالی وسائل کی عدم دستیابی کے باعث آگے نہیں بڑھ پاتے۔ ایس ایم ظفر اس کے پہلے صدر مقرر ہوئے۔ انتظامی امور ڈاکٹر صاحب نے اپنے ذمے لیے۔ وہ خوش قسمت تھے کہ اس کا رِ خیر میں انہیں مجیب الرحمن شامی سمیت کتنے ہی احبابِ خیر کی عملی معاونت حاصل ہو گئی۔ کچھ عرصہ قبل ظفر صاحب نے صحت کی کمزوری کے باعث معذرت کر لی تو شامی صاحب ان کے جانشین ہوئے۔ ان نوجوانوں کی بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے زندگی کے مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہی ہے۔
خالد ارشاد صوفی بتا رہے تھے کہ زندگی کے آخری ایام تک ڈاکٹر صاحب فائونڈیشن کے معاملات میں سرگرم رہے اور پھر مہلتِ عمل ختم ہو گئی۔ کوئی ہفتہ بھر قبل نمونیے کا شدید حملہ ہوا۔ طبیعت سنبھلتی اور بگڑتی رہی۔ بالآخر سوموار کی صبح بلاوا آ گیا‘ اور بندہ اپنے رب کے حضور حاضر ہو گیا، اس عالم میں کہ اپنے حصے کے سارے کام نمٹا گیا تھا۔
عمر بھرکی بے قراری کو قرار آ ہی گیا