ایمبیسی روڈ اسلام آباد پر واقع مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ سیاست کا محور و مرکز بن چکی ہے۔ تمام چھوٹی بڑی قومی اور علاقائی‘ نظریاتی اور غیر نظریاتی‘ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کی قیادت مولانا کے ہاں حاضری دے رہی ہے‘ اور دھرنے‘ لانگ مارچ‘ آزادی مارچ کے لئے صلاح مشورہ کرتی نظر آتی ہے۔ مولانا نے اپنی بند مُٹھی کسی بھی آنے والے کے سامنے نہیں کھولی۔ ہر ملاقاتی ان سے بڑی لجاجت سے بس ایک ہی سوال کرتا نظر آتا ہے کہ دھرنے اور مارچ کا خیال آپ کو کب‘ کیوں اور کیسے آیا؟ مولانا فُل سکرین معنی خیز بلند آواز قہقہے کے ساتھ جواباً کہتے ہیں ''میری مُٹھی میں بند‘ ہے کیا؟ بتا دو ناں‘‘۔ صحافی جلوت اور خلوت میں ان سے یہی سوال پوچھتے ہیں لیکن مولانا سب کو یہ کہہ کر چُپ کرا دیتے ہیں کہ 'مُجھے آپ کا پتا ہے اور جس نے سوال دے کر بھیجا ہے‘ اُس کا بھی معلوم ہے اس لئے ایسے فضول سوال نہ کرو‘‘۔ دھرنے کے تخیل کے ڈانڈے اور تانے بانے کہاں ملتے ہیں اور اس کی حمایت کے چشمے کہاں کہاں سے پھوٹ رہے ہیں یا آئندہ پھوٹیں گے؟ تو یہ راز اب تک فاش کیوں نہیں ہو رہا؟ ان سوالوں کے جوابات دنیا بھر کے دانشور‘ جغادری معلوم کرنے کی کوشش میں ہیں۔ مولانا کے اس تخیل کا ''کُھرا‘‘ ڈھونڈنے کے لئے دنیائے صحافت کے بڑے بڑے کھوجی اپنے ٹھکانوں سے روز نکلتے ہیں اور تھک ہار کے واپس آجاتے ہیں۔ کوئی کُھرے تک پہنچ پاتا ہے یا نہیں لیکن اپنے اندازے کو دوسرے سے شیئر نہیں کررہا۔ ایسا سسپنس، ہُو کا عالم، سینہ گزٹ پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ ہر جغادری سمجھتا ہے کہ سامنے والے کو پتا ہے لیکن بتاتا نہیں۔ راقم کا تعلق ایک کاشتکار خاندان سے ہے۔ پُرانے وقتوں میں گاؤں میں کسی ڈنگر کی چوری چکاری یا گھر میں نقب زنی ہو جاتی تھی تو سب سے پہلے کھوجی کی مدد لی جاتی تھی۔ یہ کھوجی پولیس کی بھی مدد کرتے تھے۔ ان پیشہ ور کھوجیوں کی رائے کو اہمیت دی جاتی تھی۔ گھاگھ کھوجی اس قدر ماہر ہوتے تھے کہ دیکھتے ہی پہچان لیتے کہ یہ کھُرا کس کا ہے۔ کھوجی کھرے کا پیچھا کرتے کرتے اس گھر یا ڈیرے تک بھی پہنچ جاتا تھا‘ جہاں مال مسروقہ ہوتا۔ چوری شدہ جانور بھی برآمد ہو جاتا تھا۔ رکاوٹ اس وقت ہوتی‘ جب کُھرا کسی تگڑے ڈیرے کی طرف جا رہا ہوتا تھا۔ ایسے میں کھوجی اپنی چمڑی بچاتا اور کہتا تھا: اس سے آگے کُھرا سمجھ نہیں آ رہا کہ کہاں گیا۔ اگر ڈیرے دار پہلے سے کھوجی کے پینل پر ہوتا تو پھر وہ کھُرا ہی سرے سے مٹا دیتا اور بعد میں اس ڈیرے دار سے اپنا حصہ وصول کر لیتا تھا۔ بعض کھوجی پولیس کے ساتھ بھی ملے ہوتے تھے اور یوں مال مسروقہ کبھی برآمد نہ ہوتا۔ بڑے بڑے ڈیرے داروں نے ایک اور شوق بھی پالا ہوتا تھا۔ وہ اپنے مدمقابل کے ڈیرے سے ڈھور ڈنگر چوری کروایا کرتے تھے اور یوں مال واپس نہ کر کے مخالف کی پگ کو نیچا دکھاتے تھے۔ یہ کلچر برصغیر کے دیہات میں عام پایا جاتا ہے۔
مولانا کے دھرنے کا کُھرا ملتا ہے یا نہیں‘ اس بارے میں کُچھ کہنا قبل از وقت ہوگا‘ لیکن سیاسیات کا طالبعلم اور ایک ادنیٰ سا رپورٹر ہونے کے ناتے کُچھ واقعات یاد آجاتے ہیں۔ پرویز مشرف کا دور حکومت سکون کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا۔ ایک جمعہ کے روز‘ نماز جمعہ کے بعد ہمارے چینل میں ایک فیکس موصول ہوئی‘ جو صدر مشرف کے کیمپ آفس سے آئی تھی اور جس کے تحت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو معزول کر دیا گیا تھا۔ یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی۔ کوئی بھی ساتھی جج‘ خاص طور پر موجودہ چیئرمین نیب‘ جو اس وقت سپریم کورٹ کے سینئر جج تھے‘ یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا کہ افتخار چوہدری اتنا سٹینڈ لے سکتے ہیں جیسا کہ بعد میں ہوا۔ افتخار چوہدری کو سی جے ہاؤس میں نظر بند کر دیا گیا۔ سپریم جوڈیشل کونسل میں پہلی پیشی تھی اور دو دن پہلے ہی یہ خبر محدود حلقے تک پہنچ چکی تھی کہ افتخار چوہدری گھر سے پیدل اور اپنی بیگم کے ساتھ سپریم کورٹ آئیں گے۔ ہم سپریم کورٹ بلڈنگ کے باہر کیمرہ مین شبیر کے ساتھ افتخار چوہدری کا انتظار کر رہے تھے۔ اچانک ایک سورس نے مجھے بتایا کہ بیٹا‘ خبر سی جے ہاؤس کے باہر ہے یہاں نہیں۔ میں نے کیمرہ مین کو لیا اور خاموشی سے سی جے ہاؤس پہنچ گئے جہاں انتظامیہ نے افتخار چوہدری کے ساتھ ہاتھا پائی کی‘ جو کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کرلی۔ پھر کیا تھا‘ بس جیسے آگ لگ گئی ہو۔ مولانا غفور حیدری اور ظفراللہ جمالی پہنچتے ہیں‘ افتخار چوہدری کو اپنی حفاظت میں لے کر اپنی کار میں سپریم کورٹ آتے ہیں اور سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش ہوتے ہیں۔ وہ پہلی ہی پیشی پر جسٹس جاوید اقبال پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں اور آئندہ پیشی پر تحریری اعتراض داخل کروا دیتے ہیں۔ پھر جوڈیشل کونسل میں جسٹس بھگوان داس آتے ہیں۔ ریفرنس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ کا فُل کورٹ بینچ افتخار چوہدری کی اپیل سن رہا تھا۔ ان میں سے ایک جج صاحب ایسے تھے‘ جن کو پرویز مشرف پسند نہیں کرتے تھے اور انہیں پی سی او پر حلف نہیں دینا چاہتے تھے‘ لیکن طارق عزیز صاحب کے کہنے پر اور ان جج صاحب کی اپنی خواہش پر ان سے بھی حلف لے لیا گیا۔ جب ان جج صاحب کی طرف سے افتخار چوہدری کے حق میں آبزرویشنز آنا شروع ہوئیں تو پرویز مشرف نے طارق عزیز سے پوچھا: یہ کیا ہورہا ہے‘ جاؤ اپنے دوست سے پوچھو۔ طارق عزیز کھوجی بن کر جج صاحب سے ملتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ افتخار چوہدری کے تو آپ خلاف تھے‘ اب آپ اس کو سپورٹ کر رہے ہیں ایسا کیوں ہے؟ طارق عزیز نے اپنا احسان بھی یاد دلایا۔ جج صاحب نے طارق عزیز سے کہا ''طارق‘ سوچاں دے گھوڑے دوڑا‘ دماغ تے زور دے تے ''گویڑ‘‘ لا (یعنی اندازہ لگاؤ) کہ ایہہ کیوں ہو رہیا اے‘‘ طارق عزیز نے معاملے کا کھوج لگایا اور سمجھ گئے لیکن یہ راز سینے میں ہی رکھا اور پرویز مشرف کو بھی ایک سمجھدار کھوجی کی طرح یہ راز نہ بتایا کہ کُھرا کدھر جاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پرویز مشرف کو فوج کی قیادت اور اقتدار دونوں چھوڑنا پڑے۔ محبانِ وطن کا کہنا ہے کہ انہوں نے ریاست پاکستان کی بعض ریڈ لائنز عبور کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
ماضی بعید میں حکومت مُخالف سیاسی تحریکوں کو دیکھا جائے تو دھیان 1977 کی تحریک پر جاتا ہے‘ جس کے مرکزی کردار مولانا فضل الرحمن کے والد مولانا مفتی محمود تھے۔ 1977 کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی بنیاد پر اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل پاکستان قومی اتحاد نے ذوالفقار علی بھٹوحکومت کے خلاف تحریک کا آغاز کر دیا‘ لیکن بعد میں اس تحریک کو تحریک نظام مصطفیٰ کا نام دے دیا گیا۔ خالصتاً سیاسی معاملے کی تحریک کو جیسے ہی مذہبی رنگ دیا گیا‘ یہ تحریک ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی اور گاؤں گاؤں‘ شہر شہر جلسے جلوس اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ہر روز لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلے گی‘ نہیں چلے گی جیسے ایک نئے نعرے کے ساتھ تحریک کا آغاز ہوتا تھا۔ تحریک نے اس قدر شدت اختیار کر لی کہ ہمارے چھوٹے سے شہر بہاول نگر میں جلوس پر پولیس نے فائر کھول دیا جس سے ہماری ہی گلی یاور سٹریٹ کے ایف اے کے طالب علم سلمان شہید ہو گئے‘ جس کے نتیجے میں کشیدگی بہت بڑھ گئی۔ حالات اس قدر بے قابو ہوئے کہ فوج کو طلب کرنا پڑا اور شہر بھر میں کرفیو لگا دیا گیا۔ لوگوں کا غم و غصہ کم نہ ہوا۔ کرفیو میں وقفے کے دوران جلوس نکلا۔ اسے منتشر کرنے کے لئے پھر طاقت کا استعمال کیا گیا۔ لوگ اس قدر مشتعل ہوئے کہ دکانوں کو توڑ کر لوٹ مار کی گئی اور آگ لگانے کی کوشش ہوئی۔ ریلوے بازار میں واقع ہمارے اسلحے کی دکان شاکر اینڈ سنز کو بھی توڑا گیا اور جاتے ہوئے اس میں سے کچھ اسلحہ بھی مظاہرین لے گئے جو کہ بعد میں واپس کر دیا گیا۔ کرفیو میں دو گھنٹے کے وقفے کا دورانیہ فوراً کم کر کے دوبارہ پہلے سے کہیں زیادہ سخت کرفیو لگا دیا گیا۔ شہریوں کو اپنی بالکونیوں سے باہر جھانکنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ پاک فوج نے ملک بھر مظاہرین پر گولی چلانے سے انکار کر دیا تھا۔ حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات طول پکڑتے گئے اور نتیجہ مارشل لا کی صورت میں نکلا۔ افتخار محمد چوہدری‘ پرویز مشرف اور تحریک نظام مصطفیٰ تینوں میں جے یو آئی اور مولانا کا کردار نمایاں تھا۔ لیکن ضروری نہیں کہ ہر بار ایسا ہی ہو۔