آزاد ی اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت ہے اور اللہ تعالیٰ جس قوم کو آزادی عطا کرتا ہے‘ وہ کتنی خوش نصیب ہوتی ہے ‘اس کا اندازہ وہی نسل لگا سکتی ہے‘ جو اس آزادی کی فصل بنی ہو اور جس نسل نے غلامی سے آزادی کے سفر کی صعوبتیں برداشت کی ہوں ‘ مگر قوموں کو آزادی کیسے نصیب ہوتی ہے اور یہ آزادی حاصل کرنے کیلئے کیا کیا جتن کرنا پڑتے ہیں ‘کون کون سی منازل طے کرنا پڑتی ہیں ‘ غلامی کس عذاب کا نام ہے ؟آزادی ملنے کے بعد اس کی حفاظت کیسے کرنا ہے ؟یہ احساس ناپید ہوتا جارہا ہے‘ اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا شعور ہماری مملکت خداداد میں آج شاید ہی کسی کو حاصل ہو ۔اگر اس نعمت ِ خداوندی کا ذرہ برابر بھی احساس ہوتا تو آج نوبت یہ نہ ہوتی کہ ہم باہم دست و گریباں ہوتے ۔
نائن الیون کے بعد آنے والے بھونچال سے ہم جس مشکل سے نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں ‘اس سے ہر وہ شخص واقف ہے جس کے پاس اوسط درجے کاشعوربھی ہے ‘اور گزشتہ چند برسوں میں مسلم ممالک عراق‘ مصر‘ لیبیا ‘افغانستان‘ شام اور یمن کا جو حشر عالمی استعمار کر چکاہے ‘وہ بھی ہم سب کے سامنے ہے‘ اور یہ حشر برپا کرنے کیلئے میر جعفر اور میر صادق بھی انہی قوموں کے اندر سے میسر آئے۔سب کْچھ جاننے اور سمجھنے کے باوجود ہم ہیں کہ معاشرے کے تمام طبقے تمام قومیتیں‘ تمام سیاسی جماعتیں اور ریاست کے تمام ادارے بلا تفریق کوئی ایسا قدم اٹھانے سے نہیں چُوک رہے کہ جس سے ریاست مزید کمزور نہ ہورہی ہو۔احساسِ زیاں جاتا جارہا ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہر گروہ ہر طبقہ ہر اتھارٹی اور ریاست کے تمام عناصراپنے آپ کو اپنی جگہ پر عقلِ کْل بنائے بیٹھے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ ریاست کی باگ ڈور صرف اسی کو سونپ دی جائے اور اگر وہ نہ ہوئے تو خدا نخواستہ یہ مملکت خداداد خطرے میں ہوگی ‘نیز یہ کہ ہر ریاستی عنصر چاہتا ہے کہ قانون دوسروں کے لیے ہو‘ اس کی طرف اس کا رخ ہرگز نہیں ہونا چاہیے اور اسے عقل ِکْل ہونے کی وجہ سے استثنیٰ حاصل ہے۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ ریاست کے یہ تمام عناصر کل کے کھلنڈرے نوجوان نہیں ہیں‘ بلکہ سب کے سب پڑھے لکھے‘ اپنے اپنے شعبوں کے ماہر‘مہا تجربہ کار‘ پیشہ ورانہ امور کے طاق اور نہ صرف قائد کہلاتے ہیں ‘بلکہ بلا شبہ قائدانہ صلاحیتوں کے مالک بھی ہیں اور نا صرف اندرون ملک اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواچکے ہیں‘ بلکہ پوری دنیا میں جانے جاتے ہیں اور سب اپنی اپنی عمر کی چھ چھ دہائیاں دیکھ چکے ہیں۔ اس مملکتِ خدا داد کا نظام اور اس کے لاچار اور سادہ لوح عوام ان کو عزت وتکریم کے اعلیٰ ترین مناصب پر پہنچا چکے ہیں‘ لیکن یہ اتنے ناشکرے ہیں کہ باہم لڑ لڑ کر اپنی ہی ریاست‘ جو کہ ماں کے جیسی ہوتی ہے‘ کا چہرہ زخموں سے چُور چُورکرچکے ہیں اور کوئی دن ایسا نہیں ہوا کہ اس ریاست کو تار تار کرنے والے اس کے دشمن اس پر آوازے نہ کس رہے ہوں۔اپنی عصمتیں جانیں اور پانی کی طرح اپنی آزادی کی جنگ کیلئے خون بہانے والے‘ جن کی نظریں اسی مملکت خداداد کے انہی بڑوں پر ہیں ‘ جب ان کو پتا چلتا ہے کہ یہ تو ابھی خود بھی شعور کی اس بلوغت کو نہیں پہنچے کہ ان سے کوئی آس لگائی جائے۔
میری مرحومہ امی ‘اللہ تعالی ان کو کروٹ کروٹ جنت دے‘ جو بلاشبہ ایک مومنہ خاتون تھیں ‘نے آزادی کے حصول کی منازل طے کرنے کے دوران آنے والی صعوبتوں کا جس انداز میں بتایا اور خاص طور پر بے سازوسامان ہجرت جس انداز سے کی گئی‘ کے آنکھوں دیکھے ہولناک مناظر بیان کئے‘ وہ اَن دیکھے مناظر آنکھوں سے کبھی نہیں ہٹنے پاتے ‘لیکن حیرت ہے ان اعلیٰ مناصب پر فائز ‘ریاست اور معاشرے کی اس اعلیٰ ترین اشرافیہ پر جو ریاست کو درپیش خطرات اور اندرونی و بیرونی دشمنوں کے مذموم عزائم سے ایک عام شہری سے کہیں زیادہ معلومات رکھتے ہیں‘لیکن سب نے اناؤں کی ایسی چادریں اوڑھ رکھی ہیں کہ اپنی ذات سے اُٹھ کر بڑے بڑے فیصلے کرنا تو درکنار کچھ نیا سوچنا بھی نہیں چاہتے۔
ہر کوئی صرف اپنے آپ کو ناگزیر سمجھتا ہے اور یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ صرف وہی ہے‘ جس نے ریاست کے تمام ستونوں کو اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے‘ جبکہ ایسا ہوتا نہیں ہے۔دنیا بھر میں ترقی کرنے والے معاشرے‘ ریاستیں اور بڑے بڑے کارپوریٹ اداروں کے ماڈلز کا مطالعہ کریں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ترقی و کامیابی کا راز صرف ایک نکتے میں ہے کہ انہوں نے اپنے ہاں اعلیٰ روایات و اقدار پر مبنی مضبوط سسٹمز بنا دئیے ہیں اور کسی فرد کے آنے اور جانے سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا‘ بلکہ ان کے معاشرے‘ ان کی مملکتیں اوران کے ادارے آگے سے آگے ترقی کرتے جاتے ہیں۔ چہرے آتے ہیں‘ اپنے حصے کا کردار ادا کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں اورمملکت کی گاڑی اپنی ترقی کی منازل طے کرتی جاتی ہے۔ ان قوموں کا انحصار مناصب پر فائز ہو جانے والوں پر نہیں ہوتا‘ بلکہ قوم کے ان گمنام ہیروز پر ہوتا ہے جو پردے کے پیچھے اپنے حصے کا کام کر کے اپنی ریاست کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے آئندہ سو سو برسوں کا ایندھن اکٹھا کررہے ہوتے ہیں‘ جنہیں نہ اپنی پہچان چاہیے ہوتی ہے‘ نہ شہرت کے بھوکے ہوتے ہیں اور نہ دولت ہی ان کی کمزوری ہوتی ہے۔
سیاسات کی اصطلاح میں ایک خودمختار ملک کو اردو زبان میں ریاست اور انگریزی میں سٹیٹ کہتے ہیں اور ریاست کل چار عناصر سے مل کرتشکیل پاتی ہے ‘پہلا انسانوں کا وجود یعنی آبادی‘ دوسرا اس آبادی کو رہنے کیلئے علاقہ چاہیے ہوتاہے‘ یعنی زمین‘ تیسرا اس علاقے اور اس میں بسنے والے انسانوں کے نظام کو چلانے اورنظم و ضبط کو برقرار رکھنے کیلئے ایک حکومت کی ضرورت ہوتی ہے‘ جو اسی آبادی کے ہی ایک طبقے پر مشتمل ہوتی ہے‘ جو ایک باہم سماجی معاہدے کے نتیجے میں وجود پذیر ہوتی ہے‘اسے سیاست کی اصطلاح میں سوشل کنٹریکٹ کہا جاتا ہے‘ یہ سوشل کنٹریکٹ حقوق و فرائض ادا کرنے کے اصول کی بنیاد پراور رضاکارانہ طور پر طے پاتا ہے۔ جب اس آبادی اور علاقے پر کنٹرول کرنے والی حکومت کو دنیا تسلیم کرلے اور اس ملک کی خودمختار حیثیت کو باقاعدہ اکنالج کرلیا جائے‘ تو اسے اقتداراعلیٰ کا حصول کہتے ہیں‘ یعنی دنیا نے اس آبادی‘ علاقے اورحکومت کو ایک خودمختار ملک کے طور پر تسلیم کرلیا ہے۔ یوں ایک ریاست کا وجود مکمل ہوجاتا ہے۔اگر ان چار عناصر یعنی آبادی‘علاقہ‘حکومت‘اور اقتدارِاعلیٰ میں سے کوئی ایک جزو بھی ناپید ہو تو دنیا اسے ریاست تسلیم نہیں کرتی‘یہاں تک کہ پہلے تین عناصر بھی ہوں‘ لیکن جب تک دنیا ان کی حاکمیت خودمختاری اور ساورنٹی پر مہر تصدیق ثبت نہ کردے‘ اسے ریاست کا درجہ حاصل نہیں ہوتا۔
ریاست راتوں رات وجود میں نہیں آتی‘ بلکہ یہ ایک ارتقائی عمل کا نام ہے اور ایک آزاد و خودمختار ملک حاصل کرنے کیلئے نا صرف طویل جدوجہد کرنا پڑتی ہے‘ بلکہ اس کیلئے تن من دھن اور عصمتوں کی قربانیاں بھی دینا پڑتی ہیں ‘ اور سب کچھ کے حصول کے لیے ایک اعلیٰ کردار کی قیادت کا ہونا ناگزیر ہوتا ہے‘ کیونکہ سب عناصر جمع ہو بھی جائیں تو اگر مقدمہ لڑنے کیلئے کوئی حقیقی لیڈرنہ ہوتو بھی منزل حاصل نہیں ہوتی۔پاکستان کا قیام اس کی زندہ و جاوید مثال ہے۔ اور یہ بھی لازم نہیں ہوتا کہ بیش بہا قربانیوں کے نتیجے میں بھی کوئی قوم یا آبادی اپنے لیے آزاد وطن یا ریاست کا وجود دنیا سے تسلیم کرواسکے۔آزاد وطن اور خودمختار ریاست حاصل کرنے کے لیے نسلوں کی قربانیاں دینا پڑتی ہیں ۔معلوم نہیں ہوتا کہ دنیا کب ان کا حق تسلیم کرے گی۔کشمیر اور فلسطین کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔اور جب ریاست وجود میں آجائے تو پھر اس کے امور چلانے کیلئے ایک مربوط اور خودکار نظام وجود میں آتا ہے۔
عصر ِحاضر میں ریاست کے امور چلانے والے وہ نہیں ہوتے جو جلوہ افروز ہوتے ہیں ‘بلکہ ریاست کی اصل مشینری وہ ہوتی ہے‘ جو خلوت میں بیٹھی‘ سات پردوں کے پیچھے اپنا کام کررہی ہوتی ہے‘ جسےDeep State کہتے ہیں۔جب جلوہ افروز کچھ نہ کرپائیں تو ڈیپ سٹیٹ کے پلیئرز اپنی ماں جیسی ریاست کے دست و بازو بن جاتے ہیں۔