گورنمنٹ کالج بہاولنگر سے فرسٹ کلاس میں گریجوایشن کا امتحان پاس کیا۔ ماسٹرز ڈگری کے حصول کیلئے یونیورسٹی میں جانا تھااور اس زمانے میں طلبا و طالبات خود سے فیصلے کم ہی کرتے تھے‘ جو والدین نے کہہ دیا اسی کورس میں بچوں کو داخل کروا دیا جاتا تھا۔ہر والدین کی خواہش اور کوشش ہوتی تھی کہ ان کا بچہ ڈاکٹر ‘انجینئر یا سائنسدان بنے اور پھر ہوسکے تو مقابلے کا امتحان پاس کرے ورنہ کوئی دبدبے والی سرکاری ملازمت کرے تاکہ علاقے میں ٹہکہ ہو‘ اور نہیں تو کم از کم وکیل تو ضرور ہی بن جائے۔ صحافت بطور پروفیشن تو ان علاقوں میں دور دور تک کوئی آپشن ہی نہیں ہوتا تھا۔ یہ سوچ ہے آج سے چونتیس سال پہلے کی۔ جنوبی پنجاب کے دور دراز پسماندہ شہروں کے طلبا و طالبات بالعموم ''اعلیٰ تعلیم‘‘ کیلئے بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا رخ کرتے۔ اس کی پہلی وجہ گھر کے قریب ہونا اور دوسری وجہ ان جامعات کے اخراجات کم ہونا تھا‘یعنی افورڈ ایبل تعلیم۔تیسری اور اہم وجہ یہ تھی کہ ان جامعات کا میرٹ بھی کم ہوتا تھا یعنی سیکنڈ کلاس گریجوایشن اور پچاس فیصد تک نمبر حاصل کرنے والے طلبا کو بھی ملتان اور بہاولپور میں داخلہ مل جاتا تھا‘لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے میری خوش بختی تھی کہ خرچے ورچے کا اتنا مسئلہ نہیں تھا اورمجھے فیصلہ بھی خود ہی کرنا تھا۔ میرے والدمیاں شاکر 1982ء میں ہی اللہ کو پیارے ہوچکے تھے اور بڑے بھائی سجاد کی طرف سے کوئی خاص دباؤ نہیں تھا کہ کس یونیورسٹی کا انتخاب کیا جائے۔یوں قسمت مجھے پنجاب یونیورسٹی لاہور میں کھینچ لائی اور اس کی بنیادی وجہ گریجوایشن کے کلاس فیلو سید منظور الحسن بنے ‘کیونکہ وہ گریجوایشن کا امتحان دے کر ملازمت کے سلسلے میں پہلے ہی لاہور پہنچ چکے تھے اورایک برس پہلے کا پنجاب یونیورسٹی کا میرٹ بھی چیک کرچکے تھے ۔جمع تفریق کے بعد برادرم منظور نے بتایا کہ ہمارا داخلہ پنجاب یونیورسٹی میں باآسانی ہوجائے گا۔ دوسری رہنمائی ہمارے کالج کے استاد حافظ محمد ظفر عادل نے کی جو خود بھی پنجاب یونیورسٹی شعبہ سیاسیات کے فارغ التحصیل تھے۔ وہ اُن دنوں بہاولنگر کالج سے تبدیل ہوکر اپنے آبائی شہر لاہور میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے۔باتیں اور یادیں تو اور بہت ساری ہیں کہ انسان سوچتا کْچھ ہے‘ منصوبہ بندی کْچھ کررہا ہوتا ہے‘ لیکن پروردگارِ عالم نے ہر انسان کیلئے ایک الگ منصوبہ بندی کی ہوتی ہے۔ اس لیے اب تک کے ذاتی تجربے کانچوڑ یہی ہے کہ انسان کو خلوصِ دل سے محنت اور صرف محنت کرنی چاہیے اور صراط مستقیم کی دعا کرتے ہوئے اللہ پر توکل کرناچا ہیے۔ قصہ مختصر یہ کہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے ہونہار طالب علم بن گئے اورمیرٹ سکالرشپ کیلئے بھی منتخب ہوگئے جو کہ ماشاء اللہ اچھا خاصا تھا‘ جس کے بارے میں ہم نے گھر نہیں بتایا۔ نامور اساتذہ سے علم وہنر سیکھنے کا موقع ملا۔ ان میں تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن ڈاکٹر منیرالدین چغتائی‘ڈاکٹر محمد سرور‘ ڈاکٹر جہانگیر تمیمی‘ڈاکٹر نسیم زکریا‘ ڈاکٹر حامد حسن قزلباش ‘ڈاکٹر حسن عسکری رضوی‘پروفیسر سجاد نصیر ‘پروفیسر مسعود احمد خان اور ڈاکٹر رشید احمد خان جیسے جیّد استاد شامل تھے۔
استادِ محترم ڈاکٹر جہانگیر خان تمیمی نے ایک دن ہمیں کلاس میں سیاسیات سے ہٹ کر صحافت پر لیکچر دینا شروع کردیا اور اچانک تجزیہ کرنے اور خبروں کا موازنہ کرنے کا فن سکھایا۔ پرائیویٹ ٹیلی ویژن ان دنوں تو تھے نہیں‘ صرف اخبارات ہوتے تھے‘ اس لیے تمیمی صاحب نے ہمیں اخبارات پڑھنے اور اخبارات میں سے خبریں تلاش کرنے کا گْر بھی سکھایا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ خبر کبھی بھی اخبار کی شہ سرخی لیڈ یا سپرلیڈ میں نہیں ہوتی بلکہ خبریں زیادہ تر اور اکثر و بیشتر سنگل کالم کی چھوٹی چھوٹی خبروں میں پنہاں ہوتی ہیں۔ انہوں نے تاکید کی کہ اخبارات کے ادارتی صفحے اور چھوٹی چھوٹی خبروں کوکبھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ استاد محترم نے ایک اور پتے کی بات یہ بتائی تھی کہ جب بھی کسی ایونٹ یا میگا ایونٹ کی کوریج کرنے جائیں تو ان سیمینارز‘ کانفرنسز کے مرکزی سٹیج پرخبر نہیں ہوتی‘ وہاں صرف تقریریں ہوتی ہیں جو حقیقت سے توجہ ہٹانے کیلئے ہوتی ہیں اوراکثر جو تندو تیز لب ولہجہ اورسخت ترین الزام تراشی تقریروں اور پریس کانفرنسوں میں کی جارہی ہوتی ہے‘ درحقیقت تلخی کا درجہ بالعموم وہ نہیں ہوتا اس لیے اپنی نظر سائیڈ ایونٹس اور کارنر میٹنگز پر رکھیں‘ اصل ڈیویلپمنٹس انہی کارنز میٹنگز اور بند کمروں کی ملاقاتوں میں ہورہی ہوتی ہیں۔
جب عملی صحافت میں قدم رکھا تو استاد محترم ڈاکٹر جہانگیر تمیمی صاحب کا وہ لیکچر آج تک رہنمائی کررہا ہے اور ان کا تجزیہ کرنے اور خبر تلاش کرنے کی جستجو کا فن سو فیصد درست ثابت ہوا۔ ایک بار وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے ساتھ شنگھائی تعاون تنظیم کی کوریج کیلئے چین جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں ایسا ہی کْچھ سمجھنے اور دیکھنے کا موقع ملا۔ وزیراعظم گیلانی اور روسی صدر پیوٹن کی ایک ملاقات ہوئی جو دو گھنٹے سے زائد جاری رہی۔ اس کے بارے میں ہمیں علم ہوا تو ہمیں ہمارے آفیشلز نے درخواست کی کہ اس کو رپورٹ نہیں کرنا‘ ورنہ اس کے ثمرات حاصل نہ ہو سکیں گے اور انڈین لابی اس کو سبوتاژ کر دے گی۔اسی طرح صدر پرویز مشرف آگرہ گئے اور کشمیر پر بات چیت کی خبریں نشر ہوگئیں کہ مشترکہ ڈرا فٹ تیار ہوگیا ہے اور کشمیر پر بڑا بریک تھرو ہونے والا ہے‘ لیکن پھر سائڈ لائنزاور بند کمروں میں کْچھ ایسا ہوا کہ اس کی نوبت پھر کبھی نہ آسکی۔ایسی ہی صورتحال ان دنوں ملکی سیاست اور جڑواں چہروں اسلام آبا اور راولپنڈی کی ہے ‘جہاں پوری ریاستی مشینری اس وقت کوروناسے نمٹنے کیلئے شب وروز کوشاں ہے اور الزام تراشیوں اور دشنام طراز یوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بھی جاری ہے‘ لیکن اپوزیشن کے وہ رہنما جو قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں اور میڈیا ٹاکس‘ ٹی وی شوز میں گرجتے برستے نظر آرہے ہیں وہ در پردہ مقتدر سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں کے ساتھ سنجیدہ نوعیت کے موضوعات پر کامیاب مذاکرات پر پہنچتے نظر آتے ہیں‘ جس کے نتیجے میں قومی مالیاتی کمیشن کی ازسر نو تشکیل پر اتفاق ہونے کے بعد اس کا نوٹیفکیشن بھی ہوچکا ہے اور تمام صوبے اپنے نمائندے بھی نامزد کرچکے ہیں۔ اسی طرح ایک نئے آئینی اصلاحاتی پیکیج پر بھی کام شروع ہوچکا ہے جس میں اٹھارہویں ترمیم کو بھی ریویو کیا جائے گا۔ تمام سیاسی اور غیر سیاسی سٹیک ہولڈرز اس ضمن میں ایک صفحے پر جلد ہی پہنچ جائیں گے۔نئے آئینی پیکیج پر اکثریت حاصل ہوچکی ہے‘ کوشش یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ اتفاق رائے حاصل کیاجائے اور اسی نوعیت کی قومی یکجہتی دیکھنے کو ملے جیسی کہ اٹھارہویں ترمیم کے وقت تھی۔ کْچھ مان چکے ہیں اور کْچھ ماننے کے قریب ہیں اور جو کْچھ فاصلے پر ہیں انہیں بھی منا لیاجائے گا‘ کیونکہ آئین کسی ایک کی جاگیر تھوڑی ہے‘ یہ امورِ مملکت چلانے کے سلیقے کا نام ہے اور اگر ریاستی امور ہی نہ چل پارہے ہوں ‘ ریاست ہی مفلوج ہوتی نظر آئے تو پھر پارلیمنٹ کو سوچنا تو پڑے گا‘ ورنہ تشریح کا کْلی اختیار سپریم کورٹ کے پاس تو ہے ہی۔
چینی‘ گندم‘ آٹا تحقیقاتی کمیشن آہستہ آہستہ اپنے اہداف کی طرف بڑھ رہا ہے ۔کمیشن کے سامنے وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر‘ وزیر اعظم کے مشیر رزاق داؤد ‘ اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار پیش ہوچکے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ‘ جو خطرے کی شدت کو قبل از وقت بھانپ چکے ہیں‘ کمیشن کے سامنے پیش ہونے سے انکاری ہوچکے ہیںکیونکہ انہیں کسی سمجھدارنے بتادیاہے کہ موجودہ تحقیقاتی کمیشن اور پانامہ کمیشن میں بہت سی قدریں مشترک ہیں‘ بلکہ یہ کمیشن پہلے سے زیادہ مضبوط اور بے خطر کھیلنے میں آزاد ہے۔ دیکھتے ہیں کہ کون کون اس کی زد میں آتا ہے۔