سب قارئین کو گزشتہ عید مبارک۔ تمام دوستوں، عزیزواقارب قارئین و ناظرین سے رابطوں اور گپ شپ کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ پوری قوم کیلئے اس سال عید کُچھ مختلف نوعیت کی تھی۔ کورونا کی وجہ سے سب کے مزاج میں پژمردگی تھی اور کُچھ کُچھ ڈپریشن بھی طاری رہا۔ اس کی وجہ شاید یہ رہی کہ رمضان المبارک کو امت مسلمہ سمیت اہل وطن بھی روایتی انداز میں نہیں منا سکے۔ عبادات، نمازِ تراویح کا اہتمام‘ اعتکاف کے روح پرور مناظر اور سحر و افطار کے وقت دستر خوانوں کا اہتمام بھی نہ ہو سکا جیسا کہ ماضی میں بھرپور انداز میں ہوتا تھا؛ تاہم پھر بھی ہمارے تمام طبقوں نے اپنے سے کمزوروں کا بہرحال خیال رکھا اور بالعموم صورتحال بہتر رہی۔ ایسی ہی اطلاعات حرمین شریفیں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے موصول ہوئیں۔ وہاں بھی کورونا کی نحوست کے سائے غالب رہے اور پوری دنیا سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے امتی اور اللہ کے بندے حرمین شریفین میں نمازوں اور عبادات سے محروم رہے۔ حرمین شریفین کے آئمہ کرام کی امامت میں آخری عشرے کے شبینے اور اجتماعی دعاؤں کے روح پرور اشک بار مناظر سے دوری کی چُبھن محسوس ہوتی رہی اور وہاں بھی سُفروں یعنی دستر خوانوں کا اہتمام نہ ہو سکا۔ ان بدنصیبوں میں یہ خاکسار بھی شامل ہے کیونکہ ہر سال رمضان المبارک میں چند افطاریاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک کے پاس روضہ رسول کے کنجی بردار شیخ نوری کے سُفرے پر اصحاب صُفہ کے چبوترے پر میسر آ جاتی تھیں؛ چنانچہ فیاض بھائی فرحان بھائی اور قدیر بھائی سمیت وہاں پر موجود روزے داروں کی خدمت پر مامور دیگر مقامی نوجوان بہت یاد آئے جو دنیا بھر سے آئے ہوئے مہمانوں کی دل جان سے خاطر مدارت کرتے ہیں۔ حرمین شریفین میں افطاری کے مناظر بلکہ اسے مقامی ثقافت کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا‘ ایک مثالی عمل ہے کہ وہاں ہزارہا نمازیوں کیلئے مساجد کے اندر ہی افطار کا اہتمام کیا جاتا ہے‘ جس میں مہمانوں کی آب زم زم‘ کھجور‘ دہی‘ خشک میوہ جات‘ تازہ پھلوں‘ گرما گرم قہووں‘ چائے‘ مزیدار مختلف النوع مقامی بریڈز اور مزیدار دُکے سے نمازیوں کی خاطر مدارت کی جاتی ہے۔ روزے دار محض چند منٹ میں روزہ افطار کرتے ہیں‘ پھر چند لمحوں میں سب دسترخوانوں کو سمیٹا جاتا ہے اور نماز مغرب با جماعت ادا کی جاتی ہے۔ ریاض الجنہ اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قدمین مبارک میں چند ساعتیں گزارنے کی سعادت سے محرومی کا احساس بھی طبیعت پر غالب رہا۔ اس نوعیت کی بہت ساری نعمتوں سے مسلم اُمّہ امسال محروم رہی؛ تاہم دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری عبادات‘ دعائیں قبول فرمائے اور وبائی مرض کورونا سمیت تمام آفات سے محفوظ رکھے۔ پروردگار دو عالم پاکستان کو ایک مضبوط ملک بنائے اور ہماری قیادتوں کو ایسے دلیرانہ فیصلے کرنے کی ہمت دے کہ پوری قوم سینہ تان کے فخر کر سکے۔ پی آئی اے کے طیارے کا حادثہ بھی ماحول کو سوگوار کر گیا۔ وطنِ عزیز میں فضائی حادثوں کی تحقیقات منظر عام پر کم ہی آتی ہیں اور جو آتی ہیں تو ان میں بھی حقائق چھپائے جاتے ہیں۔ اس بار توقع کی جا رہی ہے کہ شاید ماضی کی روایات کے برعکس ہو اور تحقیقاتی رپورٹ سامنے آ جائے۔ حالیہ فضائی حادثے میں معجزہ بھی ہوا اور اللہ تعالیٰ نے دو مسافروں کو محفوظ بھی رکھا۔ عید کا دن میرے صحافتی کیریئر کے لیے بے مثال ثابت ہوا اور ایک ایسا موقع میسر آیا کہ کم ہی صحافیوں کو ملتا ہے۔ عید سے دو روز قبل ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس بات کی تصدیق کی کہ عید کے روز ہم یعنی یہ ناچیز اور میرے شریک میزبان چوہدری غلام حسین پاک فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کے ہمراہ لائن آف کنٹرول پر آزاد کشمیر کی اہم ترین پوسٹ پر اور اہم ترین یونٹ پر اگلے مورچوں میں جوانوں اور افسروں کے ساتھ منائیں گے اور کور کمانڈر 10 کور لیفٹننٹ جنرل اظہر‘ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار بھی ان کے ہمراہ ہوں گے۔ یہ ہمارے لئے کسی بھی صورت ایک اعلیٰ اعزاز سے کم نہیں تھا۔ پروگرام کی جزئیات برادرم کرنل شفیق نے طے کیں اور ہم اپنی ٹیم کے ارکان کے ہمراہ فجر کی نماز پڑھ کر عید کے روز اسلام آباد ہیلی پیڈ پر پہنچے اور وہاں سے ہماری منزل آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر پر عین لائن آف کنٹرول پر واقع ہوپونا سیکٹر کے زیر کنٹرول اہم مورچے تھے جہاں پاک فوج کے جوان اور دشمن ہمہ وقت آمنے سامنے ہوتے ہیں۔ یہ وہ یونٹ تھی جس نے گزشتہ سال پانچ فروری کو بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو زندہ گرفتار کیا تھا اور اگر پاک فوج کے جوان بروقت نہ پہنچتے تو مقامی آبادی کے نوجوان اس کا کریاکرم کر چکے ہوتے۔ ان مورچوں سے کُچھ ہی فاصلے پر وہ برساتی تندڑ نالہ تھا جہاں پر ابھی نندن جان بچانے کیلئے اپنے تباہ شدہ جہاز سے اجیکٹ کرکے چھلانگ لگا کر جان بچانے میں کامیاب ہوا تھا۔ ابھی نندن کو پکڑنے والے ایک مقامی شہری سے بھی بات کرنے کا موقع ملا۔ اس نے تصدیق کی کہ ابھی نندن نے اپنا علاقہ سمجھ کر ہی جہاز سے چھلانگ لگائی تھی اور جب مقامی آبادی کو پتا چلا کہ یہ دشمن کا پائلٹ ہے تو پھر جو اس کے ساتھ ہوا وہ پوری دنیا نے دیکھا۔ پاک فوج کے جوانوں نے ابھی نندن کو بچایا اور اسے تندرست و توانا کر کے انڈیا کے حوالے کیا۔ یہ تاریخی مناظر ساری دنیا نے براہ راست دیکھے۔
سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے عید کی نماز اپنے جوانوں کے ساتھ باجماعت ادا کی۔ خطیب نے خطبہ دیا اور ملک و ملت کیلئے دعائیں کی گئیں۔ اس موقع پر کورونا سے بچنے کیلئے تمام ایس او پیز کو بروئے کار لایا گیا تھا۔ نماز کی ادائیگی کے بعد انہوں نے فرداً فرداً عید مبارک کہا‘ سب کے پاس جا کر ملے اور پھر جوانوں اور افسروں سے ایک جاندار خطاب کیا‘ دشمن کو للکارا بھی اور پیغام بھی دیا۔ جوانوں کو اسلامی تعلیمات پر کاربند رہنے اور قرآن مجید سے جُڑے رہنے کا مشورہ دیا۔ جنرل باجوہ نے جوانوں کو واضح پیغام دیا کہ پاک فوج کا جوان اور افسر برابر ہیں‘ دشمن کے ساتھ ہم سب مل کر شانہ بشانہ لڑیں گے اور آج عید کے دن آپ کے ساتھ گزارنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ آپ اکیلے نہیں‘ ہم سب آپ کے ساتھ ہیں۔ آرمی چیف نے جوانوں میں تحائف تقسیم کیے اور پوری یونٹ کیلئے ایک بونس کا اعلان بھی کیا۔ آرمی چیف نے جوانوں سے کہا کہ ہمارے سامنے صرف اور صرف وطن کا دفاع ہے۔ ہماری منزل شہادت ہے یا غازی اور دونوں کا اجر سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی اور دینے کی سکت نہیں رکھتا۔ اس یونٹ میں چاروں صوبوں‘ کشمیر‘ گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے جوانوں اور افسروں سے ملنے کا موقع ملا۔ ہمارے شہر بہاولنگر کی نمائندگی بھی وہاں موجود تھی۔ مقامی کمانڈر بریگیڈیئر منیر اور کرنل عامر سے بھی مقامی صورتحال کو سمجھنے کا موقع ملا۔ آرمی چیف نے بعد ازاں جوانوں کے ساتھ چائے پی اور کفایت شعاری کی پالیسی پر کاربند رہتے ہوئے بسکٹ وغیرہ بھی کھائے۔ آرمی چیف کا جوانوں سے مخاطب ہونا اور بے تکلفی سے ملنا جلنا‘ گپ شپ لگانا ایسا فوجی کلچر تھا جو ہم نے پہلی بار دیکھا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ سے قریب ڈیڑھ گھنٹے کی نشست رہی اور ایک گھنے درخت کے نیچے بیٹھ کر تمام سینئر عسکری قیادت کے ساتھ پاکستان اور خطے کی سکیورٹی کی صورتحال اور ہماری تیاریوں کو سمجھنے اور سننے کا موقع ملا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے تمام امور پر سیر حاصل گفتگو کی اور مطمئن کیا۔ ایک افسر کی اہلیہ کی ویڈیو وائرل ہونے کے واقعہ پر آرمی چیف نے بتایا کہ افسر اور ان کی اہلیہ کیخلاف کارروائی ہو چکی ہے کیونکہ پاک فوج کے اندر احتساب کا کڑا نظام موجود ہے۔ اگر ایسا نظام ہمارے قومی نظام میں آ جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان ایک ترقی یافتہ خوشحال ملک نہ بن سکے۔ ان الفاظ پر یہ نشست برخاست ہوئی اور ہم اور آرمی چیف الگ الگ ہیلی کاپٹرز پر واپس اپنے گھروں کو لوٹے۔