"SSC" (space) message & send to 7575

کٹی پتنگ

آج صبح میں نے حُبّ الوطنی کا ناشتہ کیا ۔ بے ایمانی کے انڈے ، جھوٹ کی ڈبل روٹی، فرقہ بازی کا حلوہ ، جہالت کے پراٹھے اورخباثت کی چائے پی تو ایک لمبا سا ڈکار آیا ۔ بھا آ آ آ آ ( پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ) شکر الحمد للہ۔ یہ شکرانہ میں نے عادتاً نہیں‘ جو ہم ہر اچھی بُری حالت میں کوئی پوچھے تو کہتے ہیں‘ بلکہ میرا دنیا کی عظیم ترین قوم کا فردہونے اور جنت نما ملک میں رہنے کی وجہ سے کہا ہے کہ یہاں ہر ایک کے سامنے مغلئی کھانا ، ہر بدن پر ریشمی کپڑے اور ہر مکان پر طغرا ’’ھٰذا من فضل ربیّ‘‘ قسم کا سنگِ مرمر سے بنا دیکھ کر دنیا ہم پہ رشک کرتی ہے ۔ جہاں ملک کے سارے پہاڑ سونے کے بنے ہوں، نالیوں میں عطر بہے، ریگستانوں سے تیل کے فوارے چھوٹیں ، کمال ہنر مندی کی فیکٹریاں اور خاص طور پر جان بچانے والی یا کھانسی کی بے مثال دوائیں بنائی جاتی ہوں تو انٹر نیٹ جیسی فضول ایجادات یا مریخ پہ کُھدائی کرتی مشینیں بے معنی سی لگتی ہیں۔کتنی پریشان کُن بات ہے کہ امریکہ ، کینیڈا، یورپ، آسٹریلیا ، جاپان، سعودی عرب اور دبئی تک کے لوگوں کی ہمارے سفارتخانوں کے باہر قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ ہمارے ہوائی اڈے غیر ملکی لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جنہوں نے ہاتھوں میں جعلی ویزے پکڑے ہوئے ہیں۔کھیل کے ہر میدان میں ہم نے اتنے میڈل جیت لیے ہیں کہ اولمپکس کمیٹی کے پاس کوئی میڈل نہیں رہا اور سب منہ بسورے بیٹھے ہیں ، کھیل کھیلنے ہی بند کر دیے ہیں۔ یہ ایک حقیقت بن گئی ہے کہ چاہے سائنس ہو یا ادب، اوّل عالمی انعام پہ نام تو ہمارا ہی لکھا جاتا ہے اورجہاں کہیں چھوٹا موٹا فتور، جھگڑا ہو تو اقوامِ متحدہ دو زانو ہو کر ہمارے ہاں سے ’’عدالتی سؤو موٹو‘‘ کی گزارش کرتی ہے۔ حُب الوطنی بھی تو جذباتی غذا ہوتی ہے۔ اس کے کھانے سے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ’’ اگریہ، اگر وہ ، اگر یوں ‘‘ کی ٹمٹماتی روشنیاں تصور میں اس ڈرائونے ، خوفناک منظر کو کسی ترقی یافتہ مغربی ملک کی صورت میں بدل دیتی ہیں اور سبز ہلالی پرچم کرّہ ارض پر لہرانے لگتا ہے۔ پھر حسن نثار صاحب کا لکھا کالم پڑھتا ہوں تو یُوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہاضمے کا چورن پھانک لیا ہو۔ یکایک محسوس ہونے لگتا ہے جیسے کال کوٹھڑی میں پھانسی لگنے کی صبح کا منتظر کوئی قیدی ہوں۔ سوچ پر ڈیپریشن طاری ہونے لگتا ہے اور اردگرد پھر اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے۔ ٹی وی پر بحث مباحثے ، اپنی ناکامیوں کا دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانا اور سیاست کی شطرنج کے پرانے مہروں کی اوپر نیچے کی چال سے کرشماتی توقعات رکھنا کہیں دور ، اکیلے ، اُجڑے ڈاک بنگلے کے اندر چمگادڑوں کی پھڑ پھڑاہٹ لگتی ہے۔ شکر ہے کہ اس مکروہ، بھیانک معاشرے میں کروڑوں مقید انسانوں میں سے نہیں ہوں۔ بھلے میں ایک کٹی پتنگ سہی لیکن میرے پاس راہِ فرار تو ہے اور میں ہر سال اُن بظاہر گنا ہگار ملکوں میں چلا جاتا ہوں جہاں انسانیت کا راج ہے اور زندگی یُوں ہے جیسے ہمیں موت کے بعد کا خواب دکھایا گیا ہے۔ لیکن انہوں نے تو اپنے مذاہب کو پیارے پالتو پرندے کی طرح پنجرے میں ڈال رکھا ہے ۔ وہ کام کاج سے فارغ ہو کر تھوڑی دیر کے لئے پنجرے کے پاس آتے ہیں، اسے دانہ پانی ڈالتے ہیںاور پیار کی باتیں کرتے ہیں اور بس۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہاں کرشمے سائنسی علوم سے ہوتے ہیں، تجسس کی بنا پر نئی راہیں نکلتی ہیں اور آزاد کُھلے ذہن سے زندگی کو بہتر بنانے کی کاوشیں کی جاتی ہیں۔ گھر میں بجلی کی آنکھ مچولی ، سڑکوں پہ ٹریفک کا بھنگڑا، وَعظوں، تقریروں، دلیلوں کی کامیڈی اور خود کش پٹاخے تھوڑی دیر تو محظوظ کرتے ہیں لیکن ان کا تسلسل خبر کی صورت نہیں رہتا بلکہ ایک گھنائونی طرزِ حیات نظر آنے لگتی ہے ۔ وطن کی مٹی کے اندر یادوں کی خوشبوجو باہر سے مجھے کھینچ لاتی ہے دھیرے دھیرے تعفن میں بدلنے لگتی ہے ۔ ہاں، میں پھر دور کہیں باہر چلا جائوں گا کہ شاید میرے جیسے ایک منفی سوچ کے بندے کی کمی کے باعث یہ وطن وہی ہو جائے جس کا ہم ’’اگر، اگر‘‘ لگا کر خواب لیتے ہیں۔ میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے راہ فرار میسّر ہے اور محض خیالوں، امیدوں ، عبادتوں ، دعائوں میں پناہ نہیں لینا ہوتی۔ اور میرے ماں باپ کے گھر میں مَیں بیٹے کی صورت پیدا ہوا‘ ایک لڑکی کی پیدائش جیسی بُری خبر بن کے نہ آیا۔ یہاں ہماری چار سُو پھیلی بے غیرتی میں اگر کوئی غیرت کی بات ہمیں نظر آتی ہے تووہ لڑکی کا اپنا ایک انسان ہونے کادعویٰ ہے۔ جانور، تہذیب سے نہاں پرندے تو اپنی مؤنث کو چلنے پھرنے اُڑنے کی پوری آزادی دیتے ہیں مگر سوچ کی غاروں کے رہائشی مردوں کے لیے تو وہ محض ایک تفریح کا کھلونا ہے یا بچے پیدا کرنے کی مشین۔ نہیں مجھے یہاں نہیں رہنا۔ اگر باہر نہ گیا تو سر سوچ کی شدّت کے باعث پھٹ جائے گا۔ دماغ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہو کر دیواروں سے چپک جائے گا اور میں بھی ایک روائتی پاکستانی بن جائوں گا۔ نہیں ، مجھے یہ نہیں ہونا، اس گھٹن میں سانس نہیں آرہا۔ مجھے باہر جانا ہے، تازہ ہوا میں سانس لینا ہے ، انسانوں کے درمیان رہنا ہے تا کہ سکون آئے ، آرام سے بیٹھوں ، سوئی یادیں پھر سے کروٹیں لینے لگیں اور وہ دہائیوں پُرانے پیارے پاکستان کے منظر مجھے دوبارہ کھینچ کر واپس لے آئیں۔ خدا حافظ پاکستان۔ اپنا خیال رکھنا۔ انشاء اللہ آپ سے پھر ملاقات ہو گی ۔ اللہ آپ کو خیر و عافیت سے رکھے۔ دُعا ہے جب میں لوٹوں تو آپ خوش باش، صحت مند وجود اور ترقی کی منزل کی طرف گامزن ہوں۔ میرے پیارے پاکستان، میری جان پاکستان، میری پہچان پاکستان خدا حافظ۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں