"SSC" (space) message & send to 7575

اُٹھ باندھ کمر

ان دنوں ملک سے پھر باہر جانے کی تیاری کر رہا ہوں۔ تیاری صرف ذ ہنی ہوتی ہے، کپڑے سوٹ کیس میں رکھنا تو محض چند منٹوں کا کام ہے جو ہوائی اڈہ جانے سے پہلے کیا کرتا ہوں ۔ اکثر سوٹ کی پتلون یا انڈر وئیر رکھنا بھول جاتا ہوں ، انڈر وئیر جو شلوار پہننے کے دنوں میںایک بے کار لباس تھا جیسے سلیپروں کے ساتھ جرابیں ہوتی ہیں۔ لباس کی وضع قطع بھی تو معاشرے کی پہچان ہوتی ہے ۔ لباس کی طرح معاشرتی قدریں بھی روز بروز بدلتی رہتی ہیں۔ رنگ برنگے ، ریشمی کڑھائی والے کپڑے عورت پہنتی تھی ۔ دھوتی مرد اور شلوار عورت کا لباس تھا۔ بنائو سنگھار نسوانیت کی عکاس اور سادگی کسی کی مردانگی کا نشان ہوا کرتی تھی۔ پچھلے موسم کے فیشن اور پُرانی روائتیں اب یوں لگتی ہیںجیسے سارا دن ٹی وی پر بار بار سنی خبر اگلی صبح کے اخبار میں چھپی باسی سی لگتی ہے۔ باہر جانے کے دنوں میں پتہ نہیں مجھے اُداسی کیوں ہوتی ہے جیسے کوئی محبوب سے جُدا ہو رہاہو جبکہ اکثر گھر سے نکلوں تو اپنے شہر کا یوں ستیاناس ہوا دیکھ کر غصہ سے بے حال ہو جاتا ہوں۔ مگر غصہ کی حالت میں تو منہ سے جھاگ نکلنی چاہیے، آ نکھوں سے آنسو تو نہیں۔ میں اپنی اس عجیب کیفیت کا تجزیہ کر رہا تھا کہ یکایک خیال آیااگر برقعہ پہننا لڑکیوں کے لیے اس لیے ضرور ی ہے کہ ان جوان خوبصورت دوشیزائوں کو دیکھ کر مردوں میں ہیجان کی کیفیت پیدا نہ ہو تو پھر جب وہ بوڑھی ہو جاتی ہیں‘ بُرقعہ بھی ریٹائر کر دینا چاہیے کہ اب وہ محض عزت و تکریم کا رشتہ نظر آتی ہیں۔ سوچ کو نکیل تو نہیںڈالی جا سکتی ۔ خیال آرہا ہے مرد بیشک ننگ دھڑنگ مختصر سا جانگیا پہنے کبڈی کھیلے لیکن عورت کا سر دوپٹہ میں لپٹا ہونا ضروری ہے۔کسی مختلف تہذیبی سوچ کے شخص کو بھلے اس میں تضاد نظر آئے لیکن ہمارے نزدیک تو ساری شرافت محض عورت کو مقیّد کرنے کے گرد گھومتی ہے۔ باقی سب جائز ہے۔ ہاں ، بات کر رہا تھا اپنے اس غم کی، ڈیپریشن کی، جو مجھ پہ روانگی کے دنوں میں طاری ہوتا ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ غم اور ڈیپریشن بھی ایک طرح کی عادت سی بن جاتی ہے اور جب جی بہت گھبرانے لگے تو سکون آورگولیوں کے بعد سُستی نما نشہ ہو جاتا ہے، سوچ سو جاتی ہے، احساسات نیم خوابیدگی کی صورت اختیار کرلیتے ہیں اور بے چینی ، بے تابی ، چڑچڑا پن مدھم ہونے لگتا ہے ، یوں جیسے میرے ملک میں وہ کچھ نہیں ہو رہا جو چند منٹ پہلے نظر آرہا تھا۔ سکون آور گولیوں کی بھی کئی قسمیں ہیں اور پوجا پاٹ‘ قسم قسم کی عبادتیں اندر کے چین کے لیے کی جاتی ہیں۔ یہ سب ادھر اُدھر کی دلچسپیاں‘ مشغلے اور زندگی بِتانے کے قدیم الہامی گورکھ دھندے حقائق سے راہِ فرار ہی تو ہیں۔ نہ کبھی سکون آورگولیوں سے حالات بدلے ہیں، نہ محض تعویذ گنڈوں سے کینسر ختم ہوا اور نہ محض دعائوں کی بنا ء پر کمزور ، نہتے لوگوں کی زندگیاں محفوظ ہوئی ہیں۔ کوئی دولت کے لالچ میں اور کوئی نفرت کے جھکڑ کی صورت اپنی فرسٹریشن دوسروں پر ظلم ڈھا کر دور کرتے ہیں۔ روز کے دھرنے ، ہڑتالیں، گھیرائو جلائو، مار دھاڑبھی تو کئی گروہوں کے لیے ایک طرح کا ’’سوؤموٹو‘‘ ہوتا ہے۔یوں لگتاہے بس انہی کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے باقی سب سکون اور آرام سے ہیں۔ میںاکثر سوچا کرتا تھا کہ شاہی محلہ میں رہتے لوگ جن کو سارا معاشرہ نہایت نیچ سمجھتا ہے ، خود اپنے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے! اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے میں نے وہاں جانا شروع کیا۔ روایتی گاہک کی بجائے خلوص کے ساتھ دوستیاں بنائیں، عزت کے ساتھ برتائو کیا اور اُن کے وقت اور فن کی قیمت بھی ادا کرنا نہ بھولا۔ میرے لیے یہ حیران کُن بات تھی کہ اُنھوں نے اپنی طرزِ حیات کے ساتھ سمجھوتہ کرر کھا تھا۔ وہ اس منطق پر یقین کرنے لگے تھے کہ اگر وہ بُرے ہوتے تو شرفا اُن کے ہاں نہ جاتے، رقص اور موسیقی کو فنونِ لطیفہ میں شامل نہ کیا جاتا، حسّاس اور اعلیٰ قدروں کا معاشرہ اُنھیں اس طرزِ حیات سے نکالنے کے متبادل راستے اور رزق کمانے کے ذرائع مہیاکرتا۔عورت کی بدن فروشی تو بقاء کی خاطر لمحاتی مجبوری ہوتی ہے لیکن ضمیر فروشی اُس سے کہیں زیادہ سنگین عمل ہے اور کسی معصوم کا بہیمانہ قتل سب مذاہب کے خدائوں کے دل ہلا کر رکھ دیتا ہو گا ۔ قصور اُن کا نہیں قصور دوسروںکا ہے، سوچ اور کردار میں اس قدر تفاوت کا ہے۔ جہاں تک پہچان کا تعلق ہے تو ہمیشہ سے دو رہی ہیں: ایک وہ جو کوئی اپنے لیے سمجھتا ہے اور دوسری وہ جو دوسروں کے نزدیک اُس کے لیے ہوتی ہے۔ تین برس پہلے کی بات ہے۔ گرمیاں مغرب میں گزار کر میں اپنے پیارے وطن واپس آنے کی تیاری کر رہا تھا۔ بچوںکے لیے تحائف لینے شہر کے ایک بڑے شاپنگ مال میں گیا ۔ میری بیٹیوں نے ڈیزائنرز کے ایسے ایسے نام لکھ دئیے تھے جنھیں جاننا تو کجامجھے اُ ن کے صحیح تلفظ کا بھی علم نہ تھا۔ شاپنگ کرنا مجھے کبھی بھی پسند نہیں رہا اور گھوم گھام کے تھوڑی ہی دیر میں تھک گیا۔ لیکن سوچا کہ تھکاوٹ کی وجہ شاید بھوک ہو۔ ’فوڈ کورٹ‘ میں گیا تو وہاں بڑی بھیڑ تھی مگر ایک خالی کُرسی نظرآئی جہاں اُس میز پر ایک عمر رسیدہ خاتون کھانا کھا رہی تھی۔ میں اجازت لے کر وہاں بیٹھ گیا۔ کھانا کھانے کے دوران میں نے وہاں کی تہذیب کے مطابق ’سمال ٹاک ‘ شروع کرتے ہوئے کہا کہ ساری شاپنگ مال میں جگہ جگہ کرسمس ٹری ، سجاوٹیں، روشنیاںاور موسیقی سے تمام ماحول خوشگوار اور خوش کُن لگ رہا ہے۔ اس نے میری ہاں میں ہاں ملائی اور بولی کہ یہ ہیں بھی تو خوشیوں کے دن۔ اس دوران کھانے کے بعد کافی کا پیالہ لا کر دوبارہ بیٹھ گئی۔ میں نے چھت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دیکھیں چھت سفید اور اس کے اندر بلب نیلے لگے ہوئے ہیں۔ رنگوں کے تضاد کے باوجود یوں لگتا ہے جیسے ہم ستاروں بھرے آسمان کے نیچے بیٹھے ہوں۔ یہ سب دیکھنے کا انداز ہی تو ہے ناں جو کچھ کو کچھ بنا دیتا ہے۔ وہ کسی قدر حیرت اور ملے جلے تعریفانہ انداز میں بولی ’’ کتنی خوبصورت بات کہی ہے ۔ کیا آپ انڈیا سے ہیں؟‘‘ میں نے جواباً کہا کہ نہیں میں تو پاکستان سے ہوں۔ میرا یہ کہنا یقینا اسے یوں لگا ہوگا جیسے خود کُش دھماکہ ہو گیا ہو۔ اس کے چہرے پہ یکایک خوف پھیل گیا، کافی والا ہاتھ کانپنے لگا اور وہ گھبرا کر اُٹھ کھڑی ہوئی ۔جاتے جاتے کہنے لگی مجھے معاف کر دینا۔ میں نے پوچھا کس بات کی معافی ؟ بولی ، جو بھی کچھ کہا اور آپ کو ناخوشگوار لگاتو معاف کر دینا ۔ اور میں حیران ہو گیا کہ یہ کیا ہوا؟ سوچا تو مجھے اس کی ایک ہی توجیہہ ملی جو اُن دنوںمیڈیا پر ایک دل ہلا دینے والی خبر کی صورت میں تھی۔ہُوا یوں کہ وہاں ایک پرہیز گار، باعزت اور نیک کردار پاکستانی نے اپنی بچی کو ایک ایسے سکول میں ڈالاتھاجہاں صرف لڑکیاں پڑھتی تھیں۔ وہ ہر روز اس کو اپنی کار میں سکول لے جاتا اور لاتا کہ کہیں اُس کے اکیلے سکول آنے جانے میں دوسروں سے بات نہ ہو جائے اور اس معاشرے کی غلیظ قدروں کی چھینٹیں لڑکی کی سوچ کو پلید نہ کر دیں۔ ایک دن اس نے دیکھا کہ سکول سے نکلتے ہوئے اس کی بیٹی سر پر حجاب درست کر رہی تھی۔ یہ ایک دھچکا تھا جس سے وہ غمگین ہو گیا۔ اگلے دن چھٹی سے کچھ دیر پہلے آکر وہ درخت پر چڑھا اور دور بین سے سکول کے احاطہ میں دیکھا تو اس کی بیٹی دوسری بچیوں کے ساتھ بغیر حجاب پہنے کھیل رہی تھی۔ وہ اس بے حیائی کو برداشت نہ کر سکا اورغیرت مند باپ نے اس رات اپنی بیٹی کو تیز دھار چھُری کے ساتھ خود اپنے ہاتھوں سے ذبح کر دیا۔ مجھے خوف ہے کہ ایسے ملک میں جہاں سفّاک ، جاہل، غاروں کی رہائشی ذہنیت اور علم دشمن لوگوں کو طالبان کہا جائے اُن سے کچھ بھی ممکن ہے ۔ اس لیے قارئین سے گزارش ہے کہ میری سیدھی سادی باتوں میں منفی معنی نہ تلاش کریںورنہ یہ میرے ساتھ زیادتی ہو گی، یوں جیسے ریپ ہونے والی لڑکی سے ہوتی ہے اور پھر کہا جاتا ہے کہ اب وہ چار چشم دید مرد گواہ لائے (یاآدھی گواہی والی آٹھ خواتین ؟) جنہوں نے یہ سب کچھ ہوتا اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو۔ قوانین کی تو بے شمار شقیں ہوتی ہیں۔ ظالم، بااثر لوگ بڑے نام اور اونچے دام کے وکیلوں کو کرائے پر لے کر کیے جرائم کی جائز سزا سے بچ جاتے ہیںلیکن مظلوم غریب، مسکین اور کمزور بلکتے ، سسکتے رہ جاتے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں