تحریکِ انصاف کا اصل سرمایہ

شفقت محمود تحریک ِانصاف کے مرکزی رہنما‘ رکن قومی اسمبلی‘ سابق بیوروکریٹ اور معتبر کالم نگار ہیں۔ روزنامہ ''دنیا‘‘ کے سینئر کالم نگار جناب ہارون الرشید نے اپنے چند حالیہ کالموں میں تحریکِ انصاف کی مختلف پالیسیوں اور شخصیات کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ شفقت محمود کی یہ تحریر اس تنقید کے جواب میں اُن کے حسب ِخواہش اسی جگہ شائع کی جا رہی ہے جہاں ہارون الرشید صاحب کا کالم شائع ہوتا ہے۔ ہارون الرشید صاحب کا معمول کا کالم کل ملاحظہ فرمائیں! (ادارہ) 
ہارون الرشید صاحب گزشتہ عشرے سے بھی زیادہ عرصے سے پاکستان تحریکِ انصاف کے بارے میں لکھتے آ رہے ہیں۔ تب تحریکِ انصاف پاکستانی سیاست میں ابھی اپنا مقام نہیں بنا پائی تھی۔ وہ واحد کالم نگار تھے جنہوں نے جماعت کو سنجیدگی سے لیا‘ اسے صائب مشورے دیئے اوراس جماعت کو پاکستان کی سیاسی جمود کی سیاست میں امید کی ایک کرن کے طور پر پیش کیا۔ جماعت نے تو اپنی سترہ سالہ جدوجہد میںبہت سے اتار چڑھائو دیکھے، بلکہ پندرہ سال تک تو صرف اتار ہی دیکھے، اس سارے عرصے میں ہارون الرشید صاحب اس جماعت کے قیام اور وجود کے پیچھے کارفرما قوتِ متحرکہ یعنی عمران خان کے بعض اوصاف کی وجہ سے ہی ان کی جماعت کو پاکستان میں تیسری اہم اور مثبت سیاسی قوت کے طور پر دیکھتے رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اُس وقت کے انتہائی نا مساعد حالات میں ہارون صاحب کے‘ بحیثیت غیر جانبدار تجزیہ نگار‘ جماعت کیلئے مشورے صائب ہوتے تھے۔ آج بھی کہ جب تحریکِ انصاف، تاریخی ''دھاندلے‘‘ کے باوجود قومی سطح پر سب سے بڑی اور ووٹوں کی گنتی کے لحاظ سے دوسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے، ہارون صاحب کے مشوروں اور تجزیوں کی پارٹی کے نزدیک بڑی اہمیت ہے۔ تحریکِ انصاف اب بھی ان کے تجزیوں اور خصوصاًتنقید کو مثبت انداز میں لیتی ہے۔ 
ہارون صاحب نے اپنے حالیہ کالموں میں پارٹی کی مختلف پالیسیوں اور شخصیات کے حوالے سے تحریک پر تنقید کی ہے۔ بہتر ہوتا کہ وہ ان من گھڑت الزامات کے بارے میں تحریک انصاف کی رائے بھی لے لیتے اور متوازن تجزیہ پیش کرتے۔ افسوس کہ وہ اپنے کالموں میں اس منصفانہ رویے کا مظاہرہ نہیں کر پائے۔ ان کے حالیہ کالموں میں پارٹی کی تنظیمِ نو، تطہیر، اعلیٰ تر نظریات اور اقدار پر جمے رہنے ، پارٹی کے اندر احتساب اور ناراض یا بے چین کارکنوں کے تحفظات دور کرنے کے بارے میں مشورے بھی دئیے گئے ہیں۔ تحریکِ انصاف کے سامنے بہت بڑے بڑے چیلنجز ہیں اور وہ ان سے نبرد آزما ہونے کیلئے چند رہنما اصولوں پر کاربند ہے۔ کارکن جماعت کا اصل سرمایہ ہیں۔ یہ وہ کارکن ہیں‘ جنہوں نے عمران خان کی آواز پر پاکستان کو نیا پاکستان بنانے کا خواب دیکھا اور پھر اس خواب کی تعبیر کیلئے 
ملکی اور بین الاقوامی سٹیٹس کو کے خلاف نبرد آزما ہو گئے۔ پاکستان تحریکِ انصاف میں اس بارے میں کوئی دوآراء نہیں کہ تبدیلی کا خواب دیکھنے والے کارکن ہی پارٹی کی اصل طاقت ہیں۔ دوسری بات یہ کہ تحریکِ انصاف احتساب کا نعرہ لگا کر ہی اٹھی تھی۔ بے لاگ احتساب اور شفاف طرزِ حکمرانی، اگر جماعت اپنی صفوں کے اندر انہی دو باتوں کو نافذ نہ کر سکی تو سیاسی جمود زدہ طاقتوں کے اوپر ان اصولوں کو کیسے نافذ کر پائے گی۔ تیسری بات یہ کہ تحریک کا اولین مقصد یہی رہا کہ پاکستان کے مڈل کلاس طبقے سے حقیقی جمہوری اور مبنی بر میرٹ نظام کے تحت ایک تعلیم یافتہ اور صاف ستھری قیادت سامنے لائی جائے ‘ جو ملک کی باگ ڈور سنبھال کر اس ملک کو لاحق غیر ملکی تسلط، کرپشن، برے طرزِ حکمرانی جیسے موذی امراض سے نجات دلا سکے اور ملک سے موروثی اور ایلیٹ کلاس طبقے کی سیاست کو ختم کر سکے۔ 
سٹیٹس کو کے حامی بالا دست طبقات کے خلاف جدو جہد میں تحریکِ انصاف اپنے رہنما اصولوں پر کسی حد تک عمل کر پائی اور کچھ معاملا ت میں اس سے غلطیاں بھی ہوئیں بلکہ بعض صورتوں میں بڑی فاش، جن کا اعتراف پارٹی چیئرمین کئی موقعوں پر پارٹی کارکنوںاور پاکستانی عوام کے سامنے برملا کر چکے ہیں‘ اس کے باوجود پارٹی دشمن عناصر بیرونی اور اندرونی مخالفین اور مخالف سیاسی جماعتوں سے مل کر تخریبی کارروائیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ 9فروری کو لاہور میں ہونے والی تقریب اسی شرپسندی کی ایک کڑی ہے۔ تحریکِ انصاف نے پارٹی کے اندر انتخابات کرا کر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جو کارنامہ انجام دیا ہے، اس کی بناء پر اس کے دشمن بہت زیادہ ہیں۔ جمہوریت کی مخالف قوتیں، جن میں ایسی قوتیں بھی شامل ہیں جنہوں نے بظاہر جمہوریت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے، نہیں چاہتیں کہ سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات کا کلچر پروان چڑھے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریکِ انصاف کے اندرونی انتخابات کے تجربے کو ناکام بنانے یا ناکام ثابت کرنے کیلئے طرح طرح کی سازشیں اور پراپیگنڈہ جاری ہے۔ وہ ملک جہاں آج تک کوئی عام انتخابات شفاف طریقے سے نہیں ہو پائے اور ابھی کل کی بات ہے کہ عام انتخابات میں صرف پنجاب میں تحریکِ انصاف کو ''پینتیس پنکچر ‘‘ لگائے جانے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ اندونی انتخابات پر دھاندلیوں اور بے ضابطگیوں کے الزامات کو ہوا دینا کہاں کا انصاف ہے۔ ہاں پارٹی کے انتخابات کے دوران جو شکایات سامنے آئیں ان کا جلداور موثر انداز میں ازالہ کرنے میں پارٹی کو زیادہ سرعت کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا۔لیکن اب بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی، پارٹی نے جسٹس(ر) وجیہہ الدین پر مشتمل ایپلیٹ اتھارٹی کو ہدایات جاری کر دی ہیں کہ اگلے ماہ میں انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق تمام شکایات اور اپیلوں پر شفاف انداز میں فیصلے کئے جائیں۔ 
تیسری شکایت جو وقفے وقفے سے دہرائی جارہی ہے ، وہ پارٹی کے فنڈز کے آڈٹ کے بارے میں ہے۔ اس حوالے سے آڈٹ رپورٹ اگلے ہفتے تک مکمل ہو جائے گی اور ابھی تک کسی بھی قسم کی بدعنوانی کے ثبوت سامنے نہیں آئے۔ 
چوتھی شکایت عام انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے سامنے آئی تھی ، اس حوالے سے تسنیم نورانی رپورٹ نے اس عمل میں خامیوں کی نشاندہی کی ہے، یہ رپورٹ بھی جلد شائع کی جا رہی ہے۔ پارٹی کارکنوں کو ہر اس بات پر آواز اٹھانے کا حق ہے، جنہیں وہ پارٹی کے رہنما اصولوں اور پارٹی سے قائم ان کی اور عوام کی توقعات کے خلاف محسوس کریں۔ لہٰذا کارکنوں کا فرض ہے کہ ڈسپلن کا خیال رکھتے ہوئے ، مہذب اور شائستہ طریقے سے اپنی آواز پارٹی کی ہائی کمان تک پہنچاتے رہیں ۔ پارٹی کارکنوں سے اپیل ہے کہ وہ سٹیٹس کو کی سوچ اور سیاسی جمود کی حامی قوتوں کے خلاف نیا پاکستان‘ بنانے کی جدو جہد جاری رکھیںکیونکہ اس اہم ترین فریضے کی انجام دہی کیلئے ان سے زیادہ اہلیت کسی اور میں نہیں ہے‘ کہ کارکن ہی پاکستان تحریکِ انصاف کا اصل سرمایہ ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں