"SKC" (space) message & send to 7575

مصر ‘ترکی اور پاکستان

مصر کا تحریر سکوائر دوسال پہلے ملکی سیاست میں جو تبدیلی لایا تھا آج اسی چوک نے دوبارہ مصر کی جمہوریت کو پٹڑی سے اتاردیا۔ مصر ہمیشہ سے فوجی آمریت کا شکار رہا ہے۔ معاشرہ جمہوری قدروں سے نابلد ہے۔ مصری عوام آمریت کے فرسودہ نظام سے تنگ تھے اسی لیے انہوں نے جمہوریت کو آزمانا چاہا۔ لیکن عوام کو شاید یہ پتا نہیں تھا کہ مصر کی سیاسی معیشت (political economy) آمریت سے جڑی ہوئی ہے۔ مصر میں فوج طاقت کا سرچشمہ ہے۔ فوج نے ہی اہم فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ مصری انقلاب کے بارے میں ہمارا شروع سے تجزیہ تھا کہ اس کی بدولت مصر میں کوئی اساسی سیاسی تبدیلی نہیں آسکتی۔جمہوریت کا راستہ بہت طویل اور کٹھن ہوتا ہے مگر عوام فوری نتائج چاہتے تھے۔ حسنی مبارک کے جانے سے وہاں کی سیاسی معیشت بھی افراتفری کا شکارہوئی۔ جب ملک میں سیاسی افراتفری ہو تو سرمایہ کاربھی وہا ں سے محفوظ ممالک میں سرمایہ منتقل کردیتے ہیں۔ اسی لیے مصر میں بیروزگاری اور غربت میں مزید اضافہ ہوا۔ شہریوں کے جان ومال سلامت نہ رہے۔ محمد مرسی کی حکومت ملک کے پہلے شفاف انتخابات کے نتیجے میں بنی تھی۔ یہ جمہوریت کی پہلی سیڑھی تھی‘ لیکن ایک اسلامی پارٹی کا جیت جانا مصر کے اندر اور باہر کافی لوگوں کو قبول نہیں تھا۔ اس پر طرہ یہ کہ مرسی نے ملک کی سب سے بڑی قوت ،فوج کے ساتھ ٹکر لی۔ بہتر تھا کہ پہلے حکومت پر اپنی گرفت مضبوط کرتے اور عوام میں حمایت حاصل کرتے مگر انہوں نے زمینی حقائق کے برعکس قدم اٹھائے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آج وہ نظر بند ہیں۔ فوج نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور مصر پھر وہیں چلا گیا جہاں سے اس نے دوسال پہلے شروعات کی تھی۔ مصر ی انقلاب کے بعد صرف اخوان المسلمین ہی ایک ایسی پارٹی تھی جو منظم تھی‘ اسی لیے انتخابات جیت گئی۔ لیکن لبرل اور مخالف جماعتوں کا سیاسی وجود اور نظم و نسق نہ ہونے کے برابر تھا۔ ان مخالفین کا خیال تھا کہ مصر میں انقلاب ہائی جیک ہوچکا ہے‘ اسی لیے انہوں نے دوبارہ تحریر سکوائر کو میدان کارزار بنالیا ۔ مرسی کی مخالفت میں وہ یہ بھی بھول گئے کہ وہ جمہوری طریقے سے اقتدار میں آئے ہیں۔ عوام کی اکثریت نے ان کو چنا ہے۔ ان کو عوامی رائے کا احترام کرنا چاہیے تھا لیکن وہ اپنی مرضی مسلط کرنے کے لیے فوجی مداخلت میں بھی کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔ عوامی احتجاج کا یہ انداز جمہوری قدروں کے بالکل منافی ہے۔ ایک جمہوری لیڈر کو اس طرح بزور طاقت اقتدار سے ہٹانا انتہائی قابل مذمت فعل ہے۔ مصر میں فوجی بغاوت کا خطے میں اور بالخصوص اسلامی ممالک میں انتہائی منفی پیغام گیا ہے‘ وہ یہ کہ مسلمان ممالک میں جمہوریت نہیں چل سکتی۔ اس سے جمہوری قوتوں میں مایوسی پھیلے گی۔ اسلامی جماعتوں کو بھی یہی پیغام مل رہاہے کہ سیاسی عمل میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ وہ انتہائی قدم اٹھانے کے لیے مجبور ہوسکتے ہیں۔ مرسی کی برطرفی پر عرب مما لک کے حکمران بے حد خوش ہیں کیونکہ ان کو بھی عوامی مزاحمت کا سامنا ہے۔ مصر میں جمہوریت کی ناکامی کو وہ اپنی کامیابی سمجھتے ہیں کیونکہ مصر باقی عرب دنیا اور شمالی افریقہ پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ افسوس اس با ت کا ہے کہ مغربی ممالک نے جو جمہوریت کا پرچار کرتے ہوئے تھکتے نہیں، مصر میں فوجی مداخلت کی کھل کر کوئی مخالفت نہیں کی۔ وہ تو اس کو فوجی بغاوت کہنے کو بھی تیار نہیں۔ کیا مسلمان مما لک کے لیے ان کی پالیسی دوغلی نہیں۔ صرف ترکی واحد ایک ملک ہے جس نے مصر میںفوجی بغاوت کی کھل کر مخالفت کی اور مغربی مما لک کے ردعمل پر بھی تنقید کی۔ ترکی کے وزیراعظم نے صاف لفظوں میں کہا کہ مصر میں فوجی بغاوت ہوئی ہے اور فوج سے مطالبہ کیا ہے کہ صدر مرسی کی حکومت کو بحال کرے ۔ ترکی نے یہ بھی تنبیہ کی ہے کہ ایسا نہ ہو کہ 25 جنوری کے انقلاب پر کوئی آنچ آجائے۔ ترکی کا یہ ردعمل باقی سارے ممالک سے ہٹ کر ہے۔ یہ ایک اصولی پالیسی ہے۔ اس کی ایک وجہ ترکی کی اپنی سیاسی صورت حا ل بھی ہے۔ ترکی فوجی بغاوتوں اور مداخلتوں کا شکار رہاہے۔ وزیراعظم طیب ایردوان نے بڑی دانشمندی سے فوج کے سیاسی کردار کو کم کیا ہے۔ دوسری طرف ترکی میں بھی مخالفین نے ایک مہینہ تک تقسیم سکوائر پر قبضہ جمائے رکھا۔ ملک میں افراتفری پھیلا دی گئی اور جمہوری اقدار کی کھل کر پا مالی ہوئی ۔ ماضی میں اگر اس طرح ہوتا تو شاید ترکی میں فوجی مداخلت ہوتی لیکن ایردوان نے ترکی کے سیاسی حالات کافی تبدیل کر دیے ہیں۔ فوج اب اتنی طاقتور اور فعا ل نہیں‘ اس کی وجہ حکومتی پا لیسیاں ہیں جن کی بدولت ترکی نے ترقی کی ہے۔ عوام کو غربت سے نکالا اوران کی معاشی زندگی بہتر کی۔ اس طرح جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی عوامی حمایت میں اضافہ ہوا جس کے سامنے غیر جمہوری قوتیں بے بس ہوئیں۔وہ مسلم ممالک جہاں فوجیوں کی طاقت چلتی ہے کے لیے طیب ایردوان کا ماڈل قابل تقلید ہے۔ مصر میں اگر محمد مرسی ڈیلیور کرکے عوامی حمایت حاصل کرتے اور اس کے بعد فوج کا کردار کم کرتے تو شاید آج یہ حالات نہ ہوتے۔ یہی بات پاکستان پر صادق آتی ہے۔ وزیراعظم نوازشریف کی حکومت کو پہلے عوام کی معاشی حالت بہتر بنانی ہوگی اور ان کو تحفظ دینا ہوگا۔ اس کے بعد و ہ اس قا بل ہوں گے کہ فوج کے سیاسی کردار کو کم کرسکیں۔ سیاست میں اصولوں کی اہمیت کبھی کم نہیں ہونی چاہیے‘ لیکن کسی مخصوص علاقے کے زمینی حقائق سے چشم پوشی بھی سیاسی موت کے مترادف ہوتی ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں