جتنا بھی ہوا ‘مبارک ہو!

چودہ اگست کی چمکیلی صبح ساڑھے دس بجے کا وقت تھا۔ لاہور میں ساون کا روایتی حبس زدہ انتہائی گرم دن تھا مگر داتا کی نگری کے ایک پوش علاقے میں ایک گھر، مکین کے چاہنے والوں سے ایسے بھرا ہوا تھا کہ لوگ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے بیٹھے تھے۔ وہ ہل بھی نہیں سکتے تھے۔ گھر کا دروازہ کھل نہیں سکتا تھا‘ اندر باہر لوگ ہل پاتے تو کھلتا۔ دروازے کے باہر گلی کا بھی یہی حال تھا۔ گلی سے لب نہر سڑک تک لوگ اور لب نہر سڑک بھی بھری ہوئی تھی۔ سڑک کی بات ہی کیا جگہ نہ پا کر لوگ نہر کے اندر اتر رہے تھے اور نہر کے دوسری جانب بھی سڑک بھر چکی تھی۔ تمام لوگ ہشاش بشاش تھے اور کیوں نہ ہوتے گزشتہ دو دنوں میں ان کے لیے انتظام ایسا شاندار تھا کہ امیر ترین علاقے کے مکین سوچ رہے تھے کہ کاش ان مہمانوں نے ان کے گھر میں وقت گزارا ہوتا اور وہ ان کی جگہ قافلہ سالار کے انتظامات سے عیش کرتے۔ ملک بھر سے آئے مہمانوں کی خدمت کا فریضہ کیسے جی جان سے ادا کیا گیا اور کیسے آنکھیں فرش راہ کی گئیں اس کی تفصیل بتانے بیٹھیں تو دفتر درکار۔ مختصراً میں آپ کو بتا یہ رہا تھا کہ قافلہ چل نہیں پا رہا تھا کیونکہ مال روڈ، لوئر مال پھر داتا دربار اور اس کے بعد شاہدرہ تک لوگوں کا ایک سمندر تھا۔ عالم وہی کہ لوگ تب چلتے جب چلنا ممکن ہوتا کیونکہ اسلام آباد میں دھرنے کے طے شدہ مقام تک لوگ موجود تھے۔ پھر سالار قافلہ کا حکم ہوا کہ راستے میں پڑنے والے ہر شہر اور ہر بستی کے لوگ گھر لوٹ جائیں تاکہ قافلہ چلے اور اس کے گزرنے کے بعد پیچھے پیچھے ہو لیں۔
حکم کی تعمیل ہوئی۔ قافلہ چل پڑا۔ ہوا کے گھوڑے پر سوار، میلوں کا سفر لمحوں میں طے کرنے کے لیے۔ ہر شخص پُرعزم پُرجوش کہ وہ تاریخ بنانے جا رہا تھا۔ عورتوں‘ بچوں اور بوڑھوں کی اتنی تعداد کہ شمار ناممکن اور نوجوانوں کو دیکھ کر یہ سوچ پیدا ہو رہی تھی کہ وطن کے کسی کونے میں شاید ہی کوئی نوجوان گھر میں بچا ہو۔ اس سیل رواں کے جذبوں کا عالم یہ تھا کہ چھ چھ ماہ کے بچے نعرے لگا رہے تھے۔ تین لاکھ موٹر سائیکلز تھیں اور ہر ایک پر چار چار نوجوان سوار تھے۔ جب یہ چلے تو پندرہ سولہ لاکھ لوگوں کے قدموں کی دھمک سے بھونچال آ گیا۔ 
قافلہ چلا تو ساتھ ساتھ بیس بیس ٹرک ٹھنڈے مشروبات اور پانی کے تھے۔ چائے اور کافی کا بھی انتظام تھا۔ کچھ موبائل کنٹینر کھانے کے واسطے تھے۔ چھوٹے بچوں کے لیے بے بی فوڈ کی گاڑیاں بھی ساتھ ساتھ تھیں ۔ تمام راستے گھروں کی چھتوں پر لوگ اس قافلے کو دیکھنے کو موجود ہی نہیں تھے بلکہ پھولوں کی پتیاں نچھاور کرکے اپنی محبت کا اظہار کر رہے تھے۔ قافلہ شہر کے خارجی راستے کے نزدیک پہنچا تو لوگوں کی تعداد اور عزائم دیکھ کر رستے میں رکاوٹ بنائے گئے کنٹینرز خوف زدہ ہو کر چیخیں مارتے ہوئے کھمبوں اور درختوں پر چڑھ دوڑے۔ کچھ کنٹینرز نے راوی میں چھلانگ لگا دی اور کچھ کنٹینرز قافلے کے ٹرکوں پر لد گئے کہ وہ بھی وفاقی دارالحکومت میں تبدیلی کا عمل اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ قافلہ بڑھتا گیا۔ منزلوں پر منزلیں مارتا گیا۔ اسلام آباد میں سب کچھ پہلے سے تیار تھا۔ پندرہ لاکھ افراد کے لیے بیت الخلا بنا لیے گئے تھے۔ ہر پندرہ کے لیے ایک کے حساب سے ڈیڑھ لاکھ بیت الخلا تھے۔ حمام تیار تھے اور نکاسیِ آب کا بہترین بندوبست تھا ۔ مطبخ سے اشتہا انگیز خوشبوئیں آرہی تھیں۔ بستروں کا پہاڑ تھا اور رضا کاروں کی فوج انہیں ترتیب دے رہی تھی ۔ میڈیا یہ تیاریاں مسلسل قوم کو دکھا رہا تھا اور گھروں میں رہ جانے والے پُر تاسف تھے کہ وہ کیوں نہ اس تاریخی عمل کا حصہ بن سکے۔ مگر انہیں اطمینان تھا کہ ان کی زندگیاں بدلنے والی ہیں اور اس خوشی میں انہوں نے گھروں میں ضیافتوں کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ خوشی کے شادیانے بجائے جا رہے تھے اور سبک رفتار قافلے میں ترانے بج رہے تھے۔ 
قافلہ اپنی منزل پر پہنچا تو سالار قافلہ نے اپنے ساتھیوں کے درمیان کھڑے ہو کر تمام انتظامات کا جائزہ لیا اور کارکنوں کو ڈانٹ پلائی کہ انتظامات اس سے بھی بہتر ہونے چاہئیں تھے۔ پھر سالار قافلہ نے تمام ساتھیوں کی خیریت دریافت کی اور سفر کی مشکلات
کے بارے میں جانا اور اسٹیج پر کھڑے ہوکر ان کو اپنے مقاصد سے آگاہ کرنے کے لیے ایک خطاب کیا۔ مدھم، شیریں جھرنوں کی طرح بہتا اور مدھر لے کی طرح دل میں اترتا۔ خطاب کے بعد کارکن آنے والے دن کی لڑائی سے پہلے کمر سیدھی کرنے لگے تو سالار قافلہ نے انہیں روک دیا۔ اس کی نگاہوں میں شعلے تھے۔ اس نے بلند آواز میں کہا: ''کہاں جاتے ہو؟ اسٹیج کی دوسری جانب بسیں کھڑی ہیں۔ خواتین اور بچے ان میں سوار ہو جائیں اور میرے گھر میں قیام کریں جبکہ میں اپنے شاہینوں کے درمیان رہوں گا۔ یہ وہ گھڑیاں نہیں کہ میں نیند پوری کروں۔ مائیں‘ بہنیں اور بیٹیاں میری مہمان ہیں‘ ان کی ضد کے باعث ان کو لایا گیا ہے۔ ابھی گھر جا کر آرام کریں اور کل یہیں ملیں‘‘۔ اس کے بعد ہر دن سالار قافلہ نے اپنے ساتھیوں کے درمیان ان کا حوصلہ بڑھاتے، ان کے ساتھ کام کرتے، ان کے لیے مثال بنتے ہوئے گزارا۔ اس عظیم تبدیلی کو دیکھ کر اقتدار کے ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی۔ کچھ نادان لوگ اب بھی مذاق اڑا رہے تھے کہ ایک کروڑ کا دعویٰ کرنے والے محض پندرہ لاکھ لوگ لے کر آئے ہیں۔حاکم نے اپنا استعفیٰ لکھ لیا جبکہ اس کے حواری اپنے مخالف رہ نما کے حسن سلوک کو دیکھ کر رو پڑے اور کئی اس سے آکر مل گئے۔ حاکم استعفیٰ دینے کی ہمت کر نہیں پا رہا تھا جبکہ سالار قافلہ اسے بار بار اپنے
خطاب میں مخاطب کرتے ہوئے ملائم ترین لہجے میں یہ تلقین کر رہا تھا کہ ''برادرِ محترم آپ اگر استعفیٰ دے دیں گے تو یہ موزوں ترین قدم ہو گا اور ہم بھی ممنون ہوں گے لیکن اگر آپ نے استعفیٰ نہ دیا تو بھی یہ آپ کا اختیار ہے اور آپ کے فیصلے کا ہم احترام کریں گے مگر اپنے حق کے تحت آپ سے ملتمس رہیں گے‘‘۔ حریف سالار قافلہ کے طرز تخاطب پر فدا تھے اور ساتھی شاکی کہ ہمارے غصے کی جھلک ہمارے رہبر میں کب دِکھے گی۔ حاکم دل میں ہار چکا تھا لیکن ہمت نہیں کر پارہا تھا۔ 
پھر سالار نے آگے بڑھنے کا مشکل فیصلہ کیا۔ سب کو پیچھے ہٹا کر دائیں ہاتھ میںاپنے وطن اور بائیں ہاتھ میں اپنی جماعت کا پرچم تھاما اور اپنی سواری سے اتر کر پا پیادہ آگے بڑھا۔ کچھ جذباتی نوجوان اپنے سینے اس کے سامنے لے آئے کہ اس کی حفاظت کریں مگر اس نے روک دیا اور آگے بڑھتا چلا گیا۔ اسے متنبہ کیا گیا لیکن وہ نہ رکا اور حاکم کے محل کے سامنے جاکر نگاہوں میں آگ لیے کھڑا ہو گیا۔ حاکم نے ہتھیار اور استعفیٰ دونوں ڈال دیے۔ کارکنوں نے نعرہ مستانہ لگایا۔ سالار کے نکات کے تحت اکابرین مل بیٹھے کہ قومی غیر سیاسی حکومت قائم کی جائے۔ میں اس ملاقات کے بارے میں جاننے کو ٹی وی ریموٹ اٹھا کر آواز بڑھا ہی رہا تھا کہ اچانک حملہ ہوا۔ میرے کانوں پر پڑنے والی یہ ہلکی سی چوٹ بھی بہت تھی۔ میری آنکھ کھل گئی۔ اوندھے پڑے میرے ساڑھے چار برس کے بیٹے کا پاؤں میرے منہ پر تھا اور میرا ''خواب‘‘ ٹوٹ چکا تھا۔ میں نیند میں بھی مملکت کو نیا ہوتے نہیں دیکھ پایا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں