دھرنے ہوتے رہنے چاہئیں !

دھرنے کا شکریہ ۔ کیا ہوا جو معیشت کو آٹھ سو ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا ۔کیا ہوا جو کچھ شیروانیاں فرنٹ پیج پر نہیں آسکیں ۔ کیا ہوا جو دو بین الاقوامی رہ نماؤں نے اپنا دورہ ملتوی کر ڈالا ۔ کیا ہوا جو راولپنڈی اسلام آباد کے شہریوں کو کچھ دن آمدورفت میں مشکلات پیش آئیں۔ کیا ہوا جو اراکین اسمبلی ایوان صدر کے رستے اسمبلی میں دبے پاؤں آئے اور دبے پاؤں گئے ۔ کیا ہوا جو اسلام آباد کے کچھ سرکاری دفاتر میں راشیوں کی دیہاڑیاں رک گئیں ۔ کیا ہوا جو وہ بھی انصاف کا رستہ ڈھونڈنے لگے جو انصاف کا رستہ دکھاتے تھے ۔ بہت سوں کو ان باتوں پر بڑا افسوس ہے ۔ بہت سوں نے اپنی نیند گنوائی ، اپنی بیماری بڑھائی ، اپنے معمولات درہم برہم کرڈالے اور اپنے ٹی وی لاؤنج کی رونقیں بڑھاکر اپنے بجلی کے بل اور بڑھاڈالے مگر میں کہتا ہوں دھرنے کا شکریہ ۔ میں چاہتا ہوں کہ ایسے دھرنے اور ہوں ایسی ناکامیاں یا جزوی کامیابیاں اور ہوں اور مشکلات اور پیدا ہوں ،ایسے جھٹکے اور لگیں ۔
میں کہتا ہوں دھرنے کا شکریہ کہ اس سے بہت کچھ صاف ہوگیا ۔ دھرنے سے سب کو اپنی اوقات معلوم ہوگئی ۔ حکومت کو پتہ چل گیا اور سترہ جون کو پولیس نے سبق سیکھ لیا کہ زبانی احکامات پر عمل در آمد نہیں کرنا اور حکمرانوں کے کہنے پر جان لینے کا مطلب اپنی جان
دینا ہوسکتا ہے ۔ حکومت کو یہ بھی پتہ چل گیا کہ ہر شخص گیدڑ بھبھکیاں نہیں دیتا بلکہ کچھ لوگ سرپھرے بھی ہوا کرتے ہیں ۔ حکومت کو لگ پتہ گیا کہ چالیس ہزار کی نفری اس نے کھڑی تو کردی مگر ریڈ زون میں داخل ہونے والوں کے سامنے وہ کھڑی کی کھڑی رہ گئی ۔ حکومت کو یہ بھی پتہ چل گیا کہ نائن زیرو والے دل بڑا کرکے نائنٹی ٹو بھلا چکے ہیں ۔حکومت نے یہ بھی جان لیا کہ وہ دھرنوں میں شرکا کی تعداد کا مذاق اڑا سکتی ہے مگر استعداد کا نہیں ۔حکومت نے یہ بھی جان لیا کہ جو خود انحصاری آبپارہ چوک پر پارہ پارہ ہوئی تھی ، اسے بالآخر آب پارہ پر خود انحصار کرنا پڑا ۔ حکومت کو یہ بھی پتہ چل گیا کہ گھسیٹنا اور گھسٹنا کے الفاظ میں کیا فرق ہے اور یہ بھی لگ پتہ گیا کہ اسلام آباد '' راولپنڈی ‘‘ کے بغیر نہیں چل سکتا۔ 
دھرنے کا اس لیے بھی شکریہ کہ اس سے کچھ لوگوں کو یہ پتہ چل گیا کہ ان کی اڑان کتنی ہے ۔ ان کو یہ بھی پتہ چل گیا کہ نو لاکھ نوے ہزار لوگ کم ہوں تو یہ بات کوئی اندھا بھی بتا سکتا ہے ۔ ان کو یہ بھی پتہ چل گیا کہ لنگڑے گھوڑے پر اگر پیسے لگا بھی دیے جائیں تو دوڑ کے آخر میں وہ اپنے فیصلے سے مکر سکتاہے ۔ ان کو یہ بھی پتہ چل جانا چاہیے کہ کرسی اتنی پیاری شے ہے کہ ا ستعفے کے سوال پر اپنی ہی پارٹی میں گانا بجنے لگتا ہے کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے ۔ یہ بات بھی ان کو جان لینی چاہیے کہ کرین سے کنٹینر تو ہٹائے جاسکتے ہیں لیکن حکمران ہٹانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ خود اپنی جگہ سے نہ ہٹیں ۔یہ بھی جان لینا چاہیے کہ دھرنے اور یومیہ جلسے میں وہی فرق ہے جو ارادے اور کوشش میں ہے ۔ 
دھرنے کا اس لیے بھی شکریہ کہ پندرہ سولہ ہزار لوگوں کو احساس ہوگیا کہ اگر ان سے ہر خطاب تین چار گھنٹے لیٹ ہورہا تھا اور ان کو ہر دیدار گھنٹوں کی تاخیر سے مل رہا تھا تو کوئی بات نہیں ،کینیڈا پاکستان سے ویسے بھی پورے نو گھنٹے پیچھے ہے ۔ان لوگوں کو یہ بھی جان لینا چاہیے کہ عالَمِ رویا اور ''عالِمِ ‘‘ رویا دو مختلف کیفیات ہیں ۔ ان کو یہ بھی جان لینا چاہیے کہ گلبرگ اور ماڈل ٹائون لاہور میں جتنا فاصلہ تھا ،اتنا ہی فاصلہ دو چودھریوں سے اسلام آباد میں تھا، جو پہلے بھی مطلب کے ساتھ تھے وہ اب بھی مطلب کے ساتھ ہیں ۔ان کو یہ بھی جان لینا چاہیے کہ اپنے چند ماہ کے بچے کسی کے کہنے پر تب مصیبت میں ڈالیں جب کہنے والے کے درمیانی عمر کے بچے درمیان میں ہوں ۔ ان کو یہ بھی جان لینا چاہیے کہ ان کی عوامی پارلیمنٹ بننے کے بعد بھی ان کا فیصلہ کچھ نہیں بلکہ فیصلہ انہی کا ہے جن کا فیصلہ ہمیشہ مقدم ہوتا ہے۔ہمت اور بہادری کی صفات نعروں کے مرکز و محور شخص میںنہیں بلکہ ان افراد میں تھیں، جو تھے اور اب نہیں ہیں ۔
دھرنے کا شکریہ پولیس کو ادا کرنا چاہیے جس نے جان لیا کہ جن حکمرانوں کے کہنے پر وہ عوام پر گولی چلاتی ہے وہ اس کو گولی دے کر اپنے آپ کو صاف بچالے جانے کے لیے ان کو سولی پر لٹکانے میں دیر نہیں لگاتے ۔ وہ ان سے سکیورٹی چاہیں گے مگر ان کی سکیورٹی نہیں چاہیں گے ۔ ان کو کیل لگے ڈنڈے کے سامنے کرکے خود ''پیتل لگے ڈنڈے ‘‘ کے پیچھے چھپ جائیں گے ۔
دھرنے کا شکریہ عوام کو ادا کرنا چاہیے جس نے جان لیا کہ یہ مفاد پرست عناصر جب مشکل میں ہوں گے، ایک ہوں گے پھر کوئی کسی کو کسی نام سے نہیں پکارے گا ۔ پھر ایک دوسرے کے سیاسی قلعے کا طواف بھی ہوگا ،پھر پیٹ پھاڑ کر دولت نکالنے کے دعویدار پیٹ پوجا کا بندوبست کریں گے ۔
دھرنے کا شکریہ کہ جس کی بدولت چند لوگوں نے سب لوگوں کے سامنے ایک دوسرے کو بے لباس کرکے اپنی تہذیب کا مظاہرہ کیا ۔ اپنی ''شائستگی ‘‘ ثابت کرتے ہوئے یہ بتادیا کہ بعض لوگ مختلف حلقوں میں رہ کر بھی اور اعلیٰ ترین اداروں میں جا کر بھی گفتار کے غازی تک نہیں بن پاتے ۔ اس لڑائی نے ہمیں یہ بھی بتادیا کہ وزیر وزارت سے جائے مگر ہیرا پھیری سے نہ جائے اور فائلیں اپنے ہرکاروں سے چوری کروائے ،اس کا ٹی وی پر فخریہ اعتراف کرے مگر پوچھنے والا کوئی نہیں۔ 
تو ایسے دھرنے ہوتے رہنے چاہئیں کیونکہ ان سے کمزوریوں اور غلاظت کی نشاندہی ہوتی ہے ،باقی رہی آٹھ نو سو ارب کے نقصان کی بات تو جس طرح سڑسٹھ اڑسٹھ برس قوموں کی زندگی میں ایک لمحے کے برابر ہیں،اسی طرح یہ رقم ہاتھ کے میل کے برابر ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں