خود ہم کو پنجرہ پیارا ہے

30 نومبر کے بعد کیا ہو گا؟ اگر آپ کا خیال ہے کہ کپتان نے اس سوال کو بہت اہم بنا دیا ہے‘ تو پھر بتائیے کہ 14 اگست کے بعد کیا ہوا؟ سول نافرمانی کے اعلان کے بعد کیا ہوا؟ رکاوٹیں توڑ کر آگے بڑھنے کے بعد کیا ہوا؟ شہر شہر جلسے ہو گئے تو کیا ہوا؟ اگر آپ ان سوالوں کا جواب جانتے ہیں‘ تو پھر آپ کو یہ بھی معلوم ہی ہے کہ 30 نومبر کے بعد یکم دسمبر ہو گی۔ اور کچھ ہو یا نہ ہو لیکن انشاء اللہ دنیا نیوز اس روز اپنی سالگرہ کا جشن منائے گا۔احترام محرم کے بعد کپتان نے پہلا جلسہ اپنے امیر ''ترین‘‘ کھلاڑی کے علاقے میں کیا اور ایک بار پھر بتایا کہ 30 نومبر کے بعد ان کی حکمت عملی کے باعث حکومت چلانا مشکل ہو جائے گا۔ (جیسے پہلے بہت آسان ہے)
دھرنا دراصل اب کپتان اور ان کی ٹیم کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔ ختم کریں تو سب ختم اور چلائیں تو چلائیں کیا۔ اب کپتان کا جلسہ ہر بار بھرپور ہوتا ہے مگر دھرنا محض کچھ خاص اخباری کالمز میں سپرہٹ ہے اور باقی حال آپ کی نگاہوں کے سامنے ہے ۔ اب دھرنے کا حال یہ ہے کہ دن میں کپتان اپنے چند خاص رفقاء سے کہا کرتے ہیں ''تم میرے پاس ہوتے ہو گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا‘‘ اور شام کو جب ان کے دھرنے کا وقت ہو جاتا ہے تو وہ آنے والوں سے کہتے ہیں ''تم آ گئے ہو، نور آ گیا ہے‘‘۔
لیکن ایک بات جو خان صاحب کے مخالفین سمجھنے سے قاصر ہیں‘ یہ ہے کہ اپنے عزائم میں ناکامی کے باوجود ان کی مقبولیت بڑھ کیوں رہی ہے؟ ان کے جلسے ایک کے بعد ایک ریکارڈ ساز کیسے ہو رہے ہیں؟ گو نواز گو کا نعرہ ''ورد‘‘ کیوں بنتا جا رہا ہے؟ میاں صاحب کی اپنی نون لیگ ''لیک‘‘ کیوں ہو رہی ہے۔ سندھ کے شاہ اور وسیب کے سردار نے مل کر طبل جنگ کیوں بجایا ہے؟ عوام میں حکومت کے لیے ہمدردی رتی برابر بھی کیوں نہیں؟ بڑا دھرنا مُک جانے کے بعد بھی چھوٹا دھرنا بڑی مصیبت کیوں بنا ہوا ہے؟
اس آسان ترین سوال کا جواب انہیں سوجھ بھی نہیں سکتا‘ کیونکہ اشارے سب کو کافی نہیں ہوا کرتے۔ جواب یہ ہے کہ آپ نے جواب دیا ہی نہیں۔ گیارہ مئی کے الیکشن سے پہلے آپ عوام کے پاس سائل بن کر گئے تھے‘ آپ نے جو مانگا مل گیا‘ مگر عوام کو کیا ملا؟ جن مظلومین سے اچھے دنوں کے وعدے کیے گئے تھے ان کا اب یہی کہنا ہے کہ ان کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ بجلی کا اب بھی وہی حال کہ تاروں میں آتی نہیں تارے دکھانے آتی ہے۔ اسپتالوں میں اب بھی وہاڑی سے کراچی تک نومولود مر رہے ہیں
اور حکمرانوں کا حال وہی کہ موت کے بعد چیک ہاتھ پہ رکھو مگر موت سے پہلے چیک اینڈ بیلنس ہاتھ میں نہ رکھو۔ وہی ترجیحات ایک جانب اموات دوسری جانب شارعات۔ ایک جانب بیماری دوسری جانب بے زاری۔ ایک جانب الیکشن پر سوالیہ نشان دوسری جانب چیف کی تعیناتی کا بحران۔ 
یہ وہ لوگ ہی نہیں جو غلطیوں اور حالات سے سبق سیکھیں۔ ان کے لیے اپنی غلطیاں ''کار خیر‘‘ اور مخالف کی غلطیاں بارود کا ڈھیر ہیں۔ کراچی ایئرپورٹ پر حملے کے بعد جب سندھ حکومت نے اپنی نااہلی چھپانے کے لیے کہا کہ ایئرپورٹ اور سول ایوی ایشن اتھارٹی وفاقی سبجیکٹ ہیں‘ تو نون لیگ کے شیر کھانے کو دوڑ پڑے اور لگے دھاڑنے کے کہ کراچی کیا بھارت کا حصہ ہے‘ جو سندھ حکومت ذمے دار نہیں ہے اور اب واہگہ بارڈر دھماکے کے بعد پنجاب کے وزیر داخلہ شجاع خان زادہ فرما رہے ہیں کہ واہگہ تو بارڈر ہے اور بارڈر وفاق کا معاملہ ہے۔
یہ بات وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کو سمجھ لینی چاہیے کہ کام کریں گے تو کام چلے گا‘ ورنہ کام تمام۔ نون لیگ کی حکومت اس لیے نہیں آئی کہ اس جماعت کو سرخاب کے پر لگے ہیں‘ بلکہ پیپلز پارٹی حکومت کی مکمل ناکامی نون لیگ کی حکومت قائم ہونے کی وجہ ہے۔ اب اگر نون لیگ بھی ڈیلیور نہیں کرے گی تو اسے عوام چاٹنے سے تو رہے؛ البتہ یہ سسٹم اسے چاٹ جائے گا۔ اب تک حکومت نے وعدے اور دعوے کیے ہیں‘ کرکے کچھ نہیں دکھایا۔ جس بجلی کے نام پر نون لیگ نے عوام سے ووٹ بٹورے وہ بجلی اب بھی عوام کی زندگی سے ''ان‘‘ سینگوں کی طرح غائب ہے۔
کشکول توڑنے کا دعوی کرنے والوں نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ یہ مسلسل دوسری حکومت ہے‘ جو جمہور کو سکھا رہی ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ عوام سے یہ انتقام تھر میں لیا گیا۔ کراچی میں کچی شراب کے لائسنس دینے والوں نے لیا۔ یہ انتقام نئی اسمبلی بنانے والوں نے لیا۔ کراچی میں خرکار چورنگی کے اس طرف رہنے والوں نے پورے شہر سے لیا۔ انتقام لینے والے ماڈل ٹاؤن لاہور سے رکاوٹیں 17 جون کو ہٹانے گئے اور 14 لوگ سامنے سے ہٹا دیے جبکہ ماڈل ٹاؤن کی رکاوٹ 17 جون کی جگہ 21 اکتوبر کو ہٹانے میں کامیاب ہوئے اور اس طرح چار مہینے دس دن ناکامی کا انتقام ماڈل ٹاؤن اور اسلام آباد میں ہزاروں افراد کو دونوں جانب سے اذیت دے کر لیا گیا۔ یہ انتقام خیبر پختونخوا میں لیا گیا جب ''کتھک‘‘ ناچ رہے تھے اور پشاور میں طوفانی بارشوں کے بعد موت کا رقص تھا۔ یہ انتقام بلوچستان میں کوئٹہ سمیت صوبے کا کہیں ''مالک‘‘ نہ ہونے کے باعث اندھی گولیوں کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ جانوں کا خراج ہر روز دیا جاتا ہے۔ اس وقت حال یہ ہے کہ چہار سو ایک ناکامی دوسری ناکامی کو للکار رہی ہے‘ رعیت بستر مرگ پر ہے اور نیم حکیم آپس میں لڑ رہے ہیں کہ اس جان پہ حق میرا ہے۔
مجھے ان میں سے کسی سے کوئی امید نہیں۔ یہ سب اپنی اپنی جگہ ناکام ہیں اور ہمیں ناکامی کے تلوے چومنے کا شوق ہے۔ ہم ہی کہتے رہتے ہیں میرے قاتل میرے دلدار میرے پاس رہو۔ اس عبرت ناک کہانی کے سب سے بڑے ولن ہم خود ہیں۔
اوقات کہاں عیاروں کی کہ ہم کو اپنے جال میں لیں
خود ہم کو شوق ہے مرنے کا، خود ہم کو پنجرہ پیارا ہے 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں