سوئم ہوچکا ہے ۔ قرآن خوانی کا ایک بڑا سلسلہ مکمل ہوگیا ہے مگر بعض گھروں سے ہچکیوں، سسکیوں اور راتوں کے درمیان اچانک چیخ مار کر اٹھ بیٹھنے کے بعد مصلے مسلسل بچھا ئے جا نے کا سلسلہ جاری ہے ۔ سردی میں ، گیس کی بندش کے عالم میں یخ پانی کے ساتھ وضو کیا جارہا ہے ۔ آنسوؤں کی روانی اور سرد موسم میں شدید ٹھنڈا پانی نزلہ زکام بھی لے آیا ہے ۔پرسے کے لیے گھر میں دور دور سے مہمان آئے ہیں اور بستر کم پڑنے کے ساتھ ساتھ کچن بجٹ بھی کم پڑ رہا ہے ۔ کرائے پر مانگی گئی دریاں چاندنیاں واپس بھجوادی گئی ہیں اور اب سوال یہ ہے کہ دو ایک روز میں معمول کی زندگی شروع کرنی ہے ۔یہ اے پی ایس کے شہیدوں کے گھرانوں کا حال ہے ۔ یہ حال خاص طور پشاور کے کچھ گھرانوں کا ہر تھوڑے دن بعد ہوجایا کرتا ہے لیکن اس بار تعداد زیادہ ہے ۔
ان گھرانوں کے مکین بار بار شہیدوں کی لحد پر جائیں گے ۔ کوئی آنکھوں بھگوئے گا ۔کوئی کالر تر کرے گا اور کوئی ہونٹ بھینچ کر رہ جائے گا ۔ فاتحہ خوانی ہوگی ۔ شہیدوں کی قبروں پر کتبے بتائیں گے تاریخ ، نام، ولدیت اور کسی کسی کتبے پر ایک پیغام۔ قبروں کی مٹی سوکھ نہیں پائے گی اور پھول ہر روز تازہ ڈالے جائیں گے ۔یہ ہے ان شہیدوں کی ظاہری آخری آرام گاہ کا حال ۔
پورے ملک میں غم کی فضا طاری رہے گی ۔ گھر گھر اخباری سرخیاں اور نیوز بلیٹن آنسوؤں کا بندوبست کریں گے ۔ اف میرے خدا ۔ ایک گہری سانس۔ اللہ اکبر‘ اک آہ کی طرح نکلتا ہوا۔ اللہ غارت کرے کمبختوں کو‘ کسی بزگ خاتون کے منہ سے نکلے گا اور '' بیپ‘‘ کسی جذباتی نوجوان کی زبان سے پھسلے گی ۔ فیس بک اور ٹویٹر پر کچھ دن ڈسپلے پکچرز سیاہ اور پھر اس کے بعد وہی سلسلہ۔ کچھ افراد بگاڑے ہوئے اور گھڑے ہوئے مذہبی حوالوں کے ساتھ قاتلوں کے لیے ہمدردی کے پیغامات بھی شروع کردیں گے ۔
کچھ دنوں بعد برفباری سے مری آباد ہوگا اور مال روڈ کی واک کا لطف بھاپ اڑاتی کافی بڑھائے گی ۔چلیں مان لیا ناں کہ جانے والوں کے ساتھ مرا نہیں جاتا ، زندگی چلتی رہتی ہے اور جینا اسی کا نام ہے وغیرہ وغیرہ۔ کچھ لوگ اس سردی سے بچنے کے لیے چھٹیوں میں کراچی کا رخ کریں گے ۔ ساحل کی سیر ہوگی اور مختلف تفریح گاہوں کا کاروبار بڑھے گا ۔ فوڈ اسٹریٹس کی رونقیں ہر شہر میں ملیں گی ۔ یہ ہوگا بحیثیت مجموعی ہم سب کا حال ( میں بھی اپنے گھر میں آنے والی ننھی مہمان کو ننھیال اور ددھیال سے ملانے کراچی جاؤں گا )۔
افواج پاکستان اپنے فرض کی پکار پر لبیک کہہ کر دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کرتی رہیں گی اور خاکی وردی پہنے خاک کے پیکر کبھی کبھی سپرد خاک ہونے کو جام شہادت بھی نوش کریں گے ۔جنت کے چراغاں میں اضافہ ہوگا ۔ یہ لڑائی چلے گی ۔ ان کے ٹھکانوں پر بم برسیں گے ۔ شعلے بلند ہوں گے شاید (بہت ہی بڑا شاید ) کسی ماں کے دل میں لگی آگ کچھ کم بھی ہوگی ۔ دہشت گردوں کی پھانسیوں پر رکا عملدرآمد آگے بڑھے گا ۔ یہ ہے ہمارے فرض کی ادائیگی ۔
چونکہ اس وقت سب یکسو ہیں ۔ سب ایک صفحے پر ہیں اور بقول میرے سینئر مبشر زیدی کے صفحہ خوں آلود ہے اس لیے بہتر ہے کہ یہ بھی بلند آواز میں اس وقت پوچھ لیا جائے کہ ہاں بھئی ان کم سن بچوں کو جس جس کو قرض لوٹانا ہے لوٹادے ۔ واپس کرے قرض اپنے اعتراف کے ساتھ کہ اب تک کیا کیا غلطیاں کی ہیں ۔ حکمران اور سیاستدان اپنی خاموشی پر معافی مانگیں ۔ اس خاموشی پر جو طالبان ترجمان کے الیکشن سے پہلے بیان پر روا رکھی گئی ۔ طالبان ترجمان نے تین جماعتوں کی گارنٹی مانگی اور تین جماعتوں نے چپ سادھی ۔ کپتان نے تو یہ بھی کہا کہ '' وہ صبر کریں الیکشن ہوجانے کے بعد ان کی حکومت آنے کا انتظار کریں ۔ معافی مانگیں وہ کہ جو طالبان کو اپنے بچے کہتے رہے اور آج ان بچوں کو بھی اپنے بچے کہہ رہے ہیں ۔ معافی مانگیں وہ جنہوں نے اس حادثے کی برسوں پرورش کی ہے کبھی جنگوں کا ٹھیکیدار بن کر اور کبھی جنگوں کے مزدور برآمد کرکے ۔معافی مانگیں وہ جو ایک ہی سانپ سے کبھی شکئی میں ڈسے گئے کبھی سرا روغہ اور کبھی کسی اور مقام پر۔ معافی مانگیں وہ جو ان کے اتنے قریب تھے کہ طالبان خود ان قلم کے سپاہیوں کو اپنا نمائندہ بنا چکے تھے۔
مگر وہ معافی نہ مانگیں جو شہادتوں کے شہادت ہونے پر سوال اٹھا رہے تھے‘ وہ جو قتال فی سبیل اللہ کا اعلان مینارپاکستان کے سائے میں کرچکے ۔ کسی نے امریکی ڈرون حملے میںمارے گئے '' سب ‘ــ‘شہید قرار دیدیے‘ چاہے انسان ہوں یا نہ ہوں ۔ وہ معافی نہ مانگیں جن کی عبادت گاہ لال اور ان کی وضاحتوں اور دلیلوں کے سبب ماؤں کے لعل لال ہیں۔
ان شہداء کی ارواح سوال کررہی ہیں کہ کیا ایک اور گول میز کانفرنس یا آل پارٹیز کانفرنس اور کچھ دن بعد سب کچھ گول ؟ کتنے ہی سانحے گزر گئے۔ ہر مرتبہ ایسی ہی کمیٹیاں اور ایسے ہی کمیشن بنے۔ ہر سانحے میں بچے بوڑھے خواتین شہید ہوئے۔ بازاروں‘ ہسپتالوں‘ مساجد اور چرچوں تک کو نہیں بخشا گیا۔ اور اب سکول؟ جہاں معصوم بچے علم کی پیاس بجھانے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ دہشت گرد اپنے کام میں یکسو ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ اگر وہ ناجائز کام کو مستقل مزاجی سے کر سکتے ہیں تو ہم ایک جائز کام کو سست روی کی نذر کیوں کر رہے ہیں۔ لوگ سوال کرتے ہیں کیا بے قصور بچوں کا خون رائیگاں چلا جائے گا؟ اگر ہم نے ان کے ساتھ انصاف نہ کیا تو کیا یہ ننھے پھول روز قیامت ہمارا گریبان نہیں پکڑیں گے؟ کیا ایک بار پھر ان کی کمر توڑی جائے گی اور ان کو ایک بار پھر ناقابل تلافی نقصان پہنچا یا جائے گا ؟ یہ ایک سو اکتالیس لاشے نہیں بلکہ یہ ایک سو اکتالیس سوال ہیں جو زندگی کے پرچے میں ہمارے سامنے آئے ہیں ۔ سب سوال لازم ہیں‘ سب کے نمبر مساوی ہیں اور سب سوال ہم نے برسوں میں خود تیار کیے ہیں ۔ کہیں اپنی پالیسیوں سے، کہیں اپنی دلیلوں سے ، کہیں اپنی ناکامیوں سے۔ اب یہ پر چہ ہم کو حل کرنا ہے۔ اس پرچے کو حل کرنے کا وقت ، وقت کی رفتار سے تیز دوڑ رہا ہے۔ پرچہ سیاہی کی جگہ خون سے لکھا گیا ہے اور جواب صرف آنسوؤں سے نہیں لکھا جاسکتا اور آخر میں اس پرچے کی سب سے خاص بات ! یہ وہ پرچہ ہے جسے بڑے حل کریں گے اور بچے پوچھیں گے بتاؤ کیا ہوا تمہارے ایگزام کا ۔